ہالینڈ کی ایک خبر کے مطابق امریکہ کے شہر نیویارک میں سینکڑوں مسلمانوں نے اپنے خلاف امتیازی سلوک اور ایک دہائی سے جاری مساجد، مدارس کی جاسوسی کے خلاف نیویارک پولیس ہیڈکوارٹر کے سامنے احتجاجی مارچ اور مظاہرہ کیا۔ خبر کے مطابق نیویارک کے علاقے مین ہٹن پارک میں نماز کی ادائیگی کے بعد مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں امریکی مسلمان مردوخواتین مظاہرے میں شامل تھے۔ یہ اب کی بات نہیں ،بہت سال پہلے نیویارک پولیس ڈیپارٹمنٹ نے شہر اور اس کے اطراف میں 250مساجد اور مسلم طلبا گروپس کے بارے میں انٹیلی جنس اطلاعات اکٹھا کی تھیں ۔ امریکہ کے اس سب سے بڑے شہر کی مسلم آبادی سے متعلق انٹیلی جنس معلومات واطلاعات کے حصول کے لیے اکثر خفیہ اداروں، مخبروں اور جاسوسوں کو استعمال کیا گیا۔ مخبر اور جاسوس بھرتی کرنے کے لیے سی آئی اے اور ایف بی آئی نے اخبارات میں اشتہار شائع کروائے جن میں یہ تک تحریر تھا کہ اردو، فارسی اور پشتو بولنے والوں کو ترجیح دی جائے گی۔ ہاتھ لگنے والی دستاویزات میں سے کئی پر ’’صیغہ راز یا خفیہ‘‘ کالفظ درج ہوتا ہے ۔ان دستاویزات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ عشرے کے دوران انتہا پسندوں وغیرہ کی ایک خاص تعداد سے بھی پوچھ گچھ کی گئی۔ یہ وہ لوگ تھے جو اپنی روزمرہ عبادات کے لیے مساجد جایا کرتے تھے یا پھر مساجد جانے والوں سے ان کا باقاعدہ رابطہ تھا۔ کئی سماجی گروپوں کو بھی تحقیقا ت کے دائرے میں لایا گیا ۔گزشتہ چند ماہ کی تفتیش اور تحقیقات سے انکشاف ہوا کہ ایک خفیہ اسکواڈ المعروف ’’ڈیموگرافکس یونٹ‘‘ نے کئی مسلم گروپس کے بارے میں چھان بین میں مدد کے لیے خفیہ عہدیداروں کی ٹیمیں روانہ کی تھیں ۔ایک ناقابل تردید حقیقت یہ بھی سامنے آئی کہ کئی مسلمان خواتین وحضرات مسلمانوں ہی کی صفوں میں جاسوسی کے لیے تعینات کیے گئے ۔ 2009ء میں پولیس ڈیپارٹمنٹ نے امریکہ کی ایک نہایت جارح داخلی انٹیلی جنس ایجنسی قائم کی جو اس شہر کی حدود سے کافی باہر بھی پیر اور پر پھیلائے ہوئے ہے اور ایک حساس فہرست بھی رکھتی ہے جس کی روشنی میں خفیہ ایجنسیوں کی کارکردگی اور کوششوں پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔ ان خفیہ سرگرمیوں اور پوچھ گچھ کے لیے وفاق سے ایک بھاری بجٹ وصول کیا جاتا ہے ۔یہ ایجنسی سی آئی اے اور ایف بی آئی کے ساتھ غیرمعمولی قریبی تعلق رکھتی ہے اور بعض صورتوں میں تو اس ایجنسی اور سی آئی اے کے درمیان فرق وامتیاز مشکل ہوجاتا ہے ۔ 2006ء کے بعد کی پولیس دستاویزات سے انکشاف ہو ا ہے کہ صرف نیویارک کی 250سے زائد مساجد کا بغور جائزہ لے کر اور معلومات اکٹھی کرکے نسلی شناخت ، قیادت، فرقہ، گروپ وابستگی، تعلیم ، پیشہ ، آبائی ملک ، گائوں یا شہر سے تعلق وغیرہ جیسی معلومات لے کر فائلیں بنائی گئیں۔ پولیس نے اس سلسلہ میں مخبروں، جاسوسوں اور سادہ لباس میں ملبوس کارکنوں سے بھی کام لیا۔ اس تفتیش میں ملوث ایک عہدیدار نے اپنی شناخت نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ میری انٹیلی جنس کی بنیاد پر پولیس نے 53مساجد کی نشاندہی کی جنہیں ’’بے حد تشویش ناک‘‘ کے زمرے میں شامل کیا گیا۔ ان مساجد کے آس پاس سادہ کپڑوں میں مخبروں اور خفیہ ایجنسی کے لوگوں کو تعینات کیا گیا۔ اس کے علاوہ سمگلنگ ، حماس فنڈنگ ، فلسطینی عسکریت پسندی ، القاعدہ فنڈنگ اور خفیہ معلومات جمع کرنے کے الزامات بھی لگائے گئے ۔ بعض مساجد کی نشاندہی کرتے ہوئے بتایا گیا کہ ان مساجد کا تعلق فلاں فرقے سے ہے جو انتہا پسند کہلاتا ہے۔ بعض دیگر مساجد کی شناخت ’’بیان بازی کی مساجد‘‘ کے طورپر بھی کی گئی جہاں صرف اپنے بیانات سے مسلمانوں کے جذبات بھڑکائے جاتے تھے۔ دومساجد کے بارے میں کہا گیا کہ ان کا تعلق جامعہ الازہر سے ہے۔ یاد رہے کہ جامعہ الازہر ان اوّلین مذہبی اداروں میں سے ہے جس نے نائن الیون کے حملوں کی مذمت کی تھی ۔ مغربی دنیا میں صرف امریکہ ہی مساجد اور مسلم گروپس پر نظر نہیں رکھ رہا، برطانیہ بھی مدارس اور مساجد میں جاسوسوں کا تقرر کررہا ہے۔ ڈچ نیوز ایجنسیوں کے مطابق حکومت برطانیہ نے انتہا پسندی اور انتہا پسندوں کے خاتمے کے لیے مدارس اور مساجد میں جاسوسی کے لیے سابق ایم آئی فائیو و فور کے جاسوسوں کی خدمات حاصل کرلی ہیں۔ برطانیہ کے اخبار ڈیلی ایکسپریس کے حوالے سے ہالینڈ کے ایک اخبار نے لکھا ہے کہ برطانیہ کی حکومت کو بعض مسلم مبلغین کی سرگرمیوں پر تشویش ہے کہ یہ انتہا پسند خیالات کی تعلیم دیتے ہیں ۔حکومت نے خفیہ محکمہ کے سابق عہدیداروں کو بھرتی کیا اور انہیں مدارس میں اسلامی انتہا پسندوں پر نظررکھنے کی ہدایت دی گئی ۔ادھر برطانوی وزیرِتعلیم کو بھی تشویش لاحق ہے کہ نئی نسل کے ’’فری سکول‘‘ مسلم مبلغین کے نشانے پر ہیں ۔حکومت نے محکمہ پولیس میں بھی مذہبی انتہا پسندی روکنے کے لیے یونٹس قائم کیے۔ برطانوی جریدے اسکاٹ ہیرالڈ نے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ نارویجن دہشت گرد، آندرے بیرنگ بریویک کی جانب سے برطانیہ میں اپنے ساتھیوں اور اپنے ہم خیال لوگوں کی موجودگی اور ایک مضبوط نیٹ ورک کے انکشاف کے بعد برطانیہ کے عوام اور برطانوی سکیورٹی میں کھلبلی مچ گئی ہے اور کئی برطانوی شہروں میں سکیورٹی سکریننگ شروع ہوگئی ہے ۔کہا جارہا ہے کہ برطانیہ کو دوجانب سے خطرہ لاحق ہے۔ برطانیہ کو القاعدہ کے ساتھ ساتھ اب عیسائی دہشت گردوں سے بھی دو دو ہاتھ کرنے پڑیں گے قطع نظر اس بات کے کہ دونوں کے نقطہ ہائے نظر اور منزل الگ الگ ہیں۔ برطانوی وزیرِ خارجہ نے حال ہی میں بی بی سی کے اینڈریومر شو میں دیئے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ برطانوی سکیورٹی فورسز ممکنہ طورپر ’’ناروے کی طرز‘‘ کا حملہ روکنے کی اہل نہیں ہیں ۔ان کا کہنا تھا کہ القاعدہ جیسے جدید نیٹ ورکس کے مقابلے میں انفرادی سطح پر ڈھائی جانے والی تباہی کو روکنا برطانیہ کے لیے انتہائی مشکل ہے۔ برطانوی وزیر خارجہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ القاعدہ اب تک مغرب کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے حالانکہ اوسلو میں حملہ کسی بین الاقوامی سازش سے تعلق ظاہر نہیں کرتا۔ ہیگ نے کہا کہ ملک میں ایسے خطرات کی سطح بہت بلند ہے ۔انہوں نے بی بی سی شو میں ملک کو حملوں سے محفوظ رکھنے میں پولیس اور انٹیلی جنس سروسز کے انتہائی اعلیٰ سطح کے کام کی تعریف کی اور کہا کہ ہم مزید چیک کریں گے کہ کیا دہشت گردی کی تمام اقسام پر ہماری توجہ مرکوز ہے؟ میرے حساب سے تاریخ میں تشدد، طاقت اور انتہا پسندی کو دوام حاصل نہیں رہا ۔ نہ بادشاہت ،نہ شہنشاہیت اور نہ ہی فوجی آمریت لازوال رہی خواہ اس کے جبرواستبداد کتنے ہی بڑھے ہوئے کیوں نہ ہوں اور تشدد وانتہا پسندی کی شکل کچھ بھی رہی ہو۔ شدت ، سختی ، تشدد، انتہا پسندی اور دہشت گردی خواہ کیسی بھی ہواس کا انجام شکست ہے‘ صرف شکست۔ انتہا پسندی مجھے کسی طور بھی قبول نہیں ۔میں نے کہیں پڑھا ہے کہ انتہا پسندی کے خلاف جتنا کام اب تک ہوا ہے اس سے کہیں زیادہ ابھی ہونا باقی ہے۔