سوشلزم کی لَو اور لَے دبائی نہیں جاسکتی!

1886ء میں امریکہ کے مزدوروں نے اپنے لہو سے یوم مئی کی تحریک کا آغاز کیا تھا۔ وہ ایک نئے ولولے کے ساتھ ایک نئے سفر پر نکلے تھے۔ ان دنوں ان کے لیے اس نوع کے مطالبات بھی نہایت عجیب اور انوکھے قرار دیئے جاتے تھے۔ مثلاًمزدوروں سے جانوروں کی مانند بلکہ ان سے بھی بدتر طریق وحالات میں کام نہ لیا جائے۔ انہیں اتنی اُجرت دی جائے کہ وہ جسم وجان کا رشتہ برقرار رکھ سکیں۔ انہیں بھی تنظیم اور احتجاج وجدوجہد کا حق دیا جائے۔ بنیادی طورپر یوم مئی کی تحریک کے یہی تین مطالبات تھے یعنی، 1۔ اوقات کار میں کمی، 2۔اُجرتوں میں اضافہ، 3۔ تنظیم کا حق۔ دوسرے مطالبات انہی عنوانات کے ضمن میں آتے تھے۔ یوم مئی مزدوروں کی انقلابی جدوجہد کا تاریخی سنگ میل ہے۔ یہ محض ایک تقریب نہیں بلکہ تحریک ہے‘ ایک ایسی تحریک جو محنت کشوں کے خون میں ڈوب کر ابھری ہے اور جو حق وانصاف کی جدوجہد کرنے والوں کو گولیوں کی بوچھاڑ ، بموں کے دھماکوں اور پھانسی کے تختوں کی یاد دلاتی ہے۔ یوم مئی ایک تہوار بھی ہے مگر نہ غم کا تہوار اور نہ خوشی کا، بلکہ یہ تجدیدِ عزم وعہد کا دن ہے‘ رنگ ونسل سے بالاتر‘ دین دھرم سے اونچا۔ یہ ایک علامت ہے جہد انصاف ومساوات کی، ایثار وقربانی کی اور کٹھن اور دلیرانہ جدوجہد کی جسے جبروتشدد کے دیوتا اپنے گھنائونے ہتھکنڈوں کے باوجود دبا نہ سکے، مٹا نہ سکے اور ہرانہ سکے۔ یوم مئی کوئی روایتی یا رسمی تقریب بھی نہیں، دنیا بھر کے محنت کشوں کے اس عالمی تہوار کو کالے اور گورے سب ایک ہوکر مناتے ہیں کہ وہ جانتے ہیں کہ شکاگو کے بازاروں اور گلیوں میں جو خون بہا تھا وہ نہ کالا تھا نہ گورا بلکہ سرخ تھا محض سرخ، بقول قتیل شفائی ع جدا جدا ہیں صورتیں لہو کا رنگ ایک ہے اور جب مزدوروں نے اس سرخ لہو میں ڈوبے ہوئے پرچم لہرائے تو یوم مئی کا پیغام تمام جغرافیائی حدود کو توڑ کر ساری دنیا میں گونج اٹھا اور بین الاقوامی انسانی برادری کے رشتے استوار کرگیا اور دنیا کے کونے کونے میں مزدور پکار اٹھے امریکی مزدوروں کا لہو ہمارا لہو ہے اور دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہوجائو۔ یوم مئی سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے دلوں میں خوف اور دنیا بھر کے مزدوروں کے دلوں میں امید کی شمع روشن کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ مستقبل ہمارا ہے‘ چنانچہ اس روز لندن سے لاہورتک اور واشنگٹن سے لے کر مراکش تک ساری دنیا کے مزدور یوم مئی کے شہدا کی یاد مناتے اور ان کے لہو کی حرارت اور مجاہدانہ جدوجہد کے تذکروں سے اپنے سینوں کو گرماتے ہیں۔ اس میں مشرق ومغرب یا نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر کی کوئی قیدنہیں۔ یوم مئی کی تندوتیز طبقاتی روشنی کو دھند لانے اور اس کی کرنوں کو پکڑنے جکڑنے کی کوششیں بہت ہوتی رہی ہیں۔ سرمایہ داروں کے قبضے میں ابلاغ عامہ کے جو بے پناہ اور لامحدود وسائل اور ذرائع ہوتے ہیں وہ سب کے سب نہایت بے حیائی اور ڈھٹائی سے خود اپنی بیان کردہ اخلاقی اقدار کو پائوں تلے روندتے ہوئے یوم مئی کے بارے میں تعصب ، جہالت، تنگ نظری اور عوام دشمنی کے مکروہ اور گھنائونے پروپیگنڈہ کے لیے سرگرم عمل ہوجاتے ہیں اور اپنی اس منافقت کو جہاد کہتے ہوئے نہ شرماتے اور نہ گریبان میں منہ ڈال کر خود اپنے ضمیر کی آواز سنتے ہیں۔ اس کے باوجود سچ کے سورج کو طلوع ہونے سے نہ روکا جاسکا ہے اور نہ روکا جاسکتا ہے، یوم مئی یقین کی شمع فروزاں کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ دنیا کے محنت کشوں کو آج جو حقوق حاصل ہیں وہ کل خواب وخیال تھے اور جو کل حاصل ہوں گے وہ آج خواب وخیال ہیں۔ انیسویں صدی کا صنعتی معاشرہ جو ظالمانہ جاگیرداری سماج کی کوکھ سے پیدا ہوا مزدوروں کے مطالبات کو خاطر میں نہ لایا‘ اس کے برعکس اس نے مزدوروں کی آواز کچل دینے کی کوشش کی لیکن اس کی تمام کوششیں بے سود رہیں۔ صنعتی سرمایہ داروں نے زیادہ سے زیادہ منافع اور کم سے کم خرچ کے لیے ابتدا سے ہی محنت کش انسانوں کا استحصال شروع کردیا تھا۔ قلیل ترین معاوضے پر مزدور بیس بیس گھنٹے روزانہ کام کرنے پر مجبور تھے۔ سہولتوں کا تصور تک ناپید تھا۔ فیکٹریاں جانوروں کے باڑوں کی مانند تھیںجن میں مزدوروں کو سورج نکلنے سے بہت پہلے دھکیل دیا جاتا تھا اور رات گئے نکالا جاتا تھا، دروازے باہر سے مقفل ہوتے چنانچہ آتشزدگی کی بہت سے وارداتوں میں ان گنت مزدور اندر ہی جل کر راکھ ہوجاتے۔ ان ہولناک اوقات کار اور بدترین حالات کے خلاف احتجاج اور جدوجہد کو بے رحم طاقت سے کچلا جاتا اور فیکٹری کا مالک بڑی معصومیت سے اپنے مؤقف کا اعادہ کرتا کہ ’’مزدور بیس گھنٹے کام کرنے کا پابند ہے‘‘۔ انیسویں صدی کے پہلے نصف حصے میں اوقاتِ کار کم کرکے دس گھنٹے مقرر کرنے کی تحریک امریکہ میں شدت اختیار کر گئی؛ چنانچہ اس مطالبے کی حمایت میں 1827ء میں فلاڈلفیا کے مزدوروں نے اور 1832ء میں بیکریوں میں کام کرنے والے مزدوروں نے ہڑتال کی، اس پر تبصرہ کرتے ہوئے محنت کشوں کے ترجمان کنگ سینئر ایڈووکیٹ شکاگو نے لکھا ’’مزدور سال ہا سال سے غلاموں سے بدتر مصائب برداشت کررہے ہیں‘ انہیں چوبیس گھنٹے میں 18سے بیس گھنٹے تک شدید محنت ومشقت کرنا پڑتی ہے‘‘ اس تحریک کے نتیجہ میں بالآخر ایک قانون منظور ہوا جس کے تحت سرکاری اداروں میں ملازمین نے اوقات کار دس گھنٹے روزانہ کام کا مطالبہ شروع ہوا مزدوروں میں یہ نعرہ مقبول ہوا ’’آٹھ گھنٹے کام، آٹھ گھنٹے تفریح اور آٹھ گھنٹے آرام‘‘۔ 1856ء میں آسٹریلیا کے مزدور اس مطالبے کو تسلیم کرانے میں کامیاب ہوگئے ۔ 7اکتوبر 1884ء میں امریکی فیڈریشن آف لیبر کی چوتھی کنونشن میں ایک قرارداد منظور کی گئی جس میں تمام مزدور انجمنوں سے کہا گیا کہ وہ یکم مئی 1886ء میں آٹھ گھنٹے کام کا نعرہ دے دیں اور یوں اس نئی تاریخ کو نئے اوقات کار کی داغ بیل ڈالی گئی۔ اب آخر مجھے یہ بتانا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں بنیادی حقوق ایمرجنسی کے نفاذ کی وجہ سے معطل ہیں انجمن سازی کے حقوق کو سلب کرنے کے لیے آرڈیننس 2002ء اور بنکنگ کمپنیز آرڈیننس دفعہ 27-Bاور صدارتی آرڈیننس 2000ء لگایا گیا ہے جسے منسوخ کیا جانا ضروری ہے۔ ؎ وہاں خاک عہدوفا نبھے وہاں خاک دل کا کنول کھلے جہاں زندگی کی ضرورتوں کا بھی حسرتوں میں شمار ہے !

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں