برطانیہ میں اقلیتوں کے امور کے وزیر کیرولین فلنٹ نے اپنی جماعت لیبر پارٹی کی مذہبی پالیسی کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت جہاں نوجوان مسلمانوں کو انتہا پسندی سے دور کرنا اور انہیں قومی دھارے میں لانا چاہتی ہے وہاں اسلام کو بطور مذہب ترجیح دینا بھی ضروری ہے۔انہوں نے کہا اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عیسائیت کی نسبت اسلام پر زیادہ رقم خرچ کی جارہی ہے کیونکہ ہمیں دہشت گردوں اور انتہا پسندوں سے شدید خطرہ لاحق ہے۔وہ چرچ آف انگلینڈ کی ایک رپورٹ پر تبصرہ کررہی تھیں جس میں کہا گیا ہے کہ لیبر پارٹی اسلام اور دوسری کمیونٹیز کی حمایت کررہی ہے جبکہ عیسائیت کے بارے میں خالی خولی دعوے کیے جارہے ہیں۔رپورٹ میں اس بات کا بھی دعویٰ کیاگیا ہے کہ لیبر پارٹی چرچ کے عوامی معاملات میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہی اور صرف اقلیتی مذاہب ہی اس کی توجہ کا مرکز ہیں۔ ادھر چرچ آف انگلینڈ کی ایک سینئر خاتون رہنما الیسن روآف نے اخبار ’’ دی ڈیلی میل‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ برطانیہ کے اسلامی ملک بن جانے سے قبل یہاں نئی مساجد کی تعمیر پر پابندی عائد کردینی چاہیے۔الیسن نے‘جو چرچ آف انگلینڈ کے نگران ادارے کی رکن ہیں‘ دعویٰ کیا ہے کہ برطانیہ میں مسلمانوں کے لیے پہلے ہی کافی مساجد ہیں۔انہوں نے حکومت سے سوال کیا ہے کہ اگر آپ ایک مسجد تعمیر کرتے ہیں تو کیا ہوگا؟ مسجد کے علاقے میں مسلمانوں کی آبادی بڑھنے لگے گی اور مقامی آبادی ہجرت کرنے لگے گی۔ سارے مکانات اور دکانیں اسلام کے رنگ میں رنگ جائیں گی اور یہ علاقہ ’’ غیرمسلموں ‘‘ کے لیے ممنوعہ بن جائے گا اور اگر ہم اس رجحان پر نظر نہ رکھیں گے تو پھر برطانیہ اسلامی ملک بن جائے گا لیکن ہنوز برطانیہ ایک ’’ عیسائی ملک ‘‘ ہے جو سیکولر نظریات کا حامل ہے‘ ہمیں اس کی عیسائی شناخت قائم رکھنی چاہیے۔ میری معلومات کے مطابق برطانیہ میں لگ بھگ 47 ہزار گرجا گھر اور تقریباً 1600 مساجد ہیں جبکہ مسلمانوں کی آبادی قریباً بیس لاکھ ہے۔اقوام متحدہ نے یہ بات تسلیم کی ہے کہ ایسے مسلمان جو یورپی ممالک میں مقیم ہیں انہیں اپنی عبادت گاہوں کے قیام اور تعمیر کے سلسلے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑرہا ہے‘ اس کے علاوہ یورپ کے مسلمانوں کو اپنے مذہبی احکامات کی ادائیگی میں بھی دشواری ہورہی ہے۔حال ہی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق9/11 کے حملوں کے بعد یورپی مسلمانوں میں مذہب کا احساس شدت اختیار کرگیا ہے لیکن اس کے باوجود انہیں نئی نئی دشواریوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے‘ خاص طور پر مساجد کی تعمیر کے معاملے میں ان کی دشواریاں بڑھتی جارہی ہیں۔ ان شدید مذہبی جذبات کو اہل یورپ ’اسلام فوبیا‘ کا نام دے رہے ہیں۔ یہ اسلام فوبیا اس وقت زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہوتا چلا جارہا ہے جس سے انتہا پسندی اور دہشت گردی میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔غیر جانبدار تجزیہ نگار اور مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ یورپ میں موجود اکثر مساجد ان انتہا پسندوں کی جنت ہیں اور اس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ صرف برطانیہ میں قائم مساجد کی مجموعی تعداد کا نصف حصہ سخت گیر اسلامی فرقے اور اماموں کے کنٹرول میں ہے۔ یہ آئمہ اور خطیب مغربی اقدار کی مخالفت کرتے ہوئے مسلمانوں کو اللہ کی راہ میں قربان ہوجانے کا درس دیتے ہیں۔گزشتہ دنوں ’’ دی ٹائمز‘‘ نے برطانوی پولیس کے حوالے سے ایک رپورٹ میں واضح کیا کہ برطانیہ کی 1600 مساجد میں سے 800 مساجد دیوبندی مسلک کے ماننے والوں کے کنٹرول میںہیں جنہوں نے افغانستان میں طالبان کی تشکیل کی تھی۔رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ریاض الحق نامی ایک خطیب یہودیوں‘ عیسائیوں اور ہندوئوں کے خلاف منافرت آمیز خطاب اور تقریریں کرتا ہے۔برطانیہ میں 35 اسلامی مدارس میں سے 23پر دیوبندیوں کا قبضہ ہے جہاں 80 فیصد طالب علموں کو ایسی ہی تعلیم و تربیت دی جاتی ہے۔اس پر طرہ یہ کہ بعض طالب علموں کو مقامی تعلیمی اتھارٹی سے گرانٹس بھی دلوائی جاتی ہے۔علاوہ ازیں برطانوی مسلم کونسل میں دیو بندی علماء کی نمائندگی نمایاں ہے اور شمالی انگلینڈ اور مڈلینڈز کے شہروں میں ان کی اکثریت ہے۔بلیک برن ، بولٹن ، پریسٹن ، اولڈ ہم اور برنلے کی 81 مساجد میں سے 65 دیوبندیوں کے کنٹرول میں ہیں۔ اخبار دی ٹائمز نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ مذکورہ اعدادو شمار ’’ لنکا شائر کونسل آف ماسکو‘‘ (لنکا شائر مساجد کونسل) سے حاصل کیے گیے ہیں۔اخبار نے یہ بھی لکھا ہے کہ تمام مسلمان جو خطاب سنتے ہیں ریاض الحق کی تعلیمات پر عمل نہیں کرتے کہ مسلمانوں کو اپنی جان کی قربانی صرف سمندر پار ممالک میں دینی چاہیے۔ چونکہ ان خطبات میں مغربی معاشرہ سے سخت نفرت کا اظہار اور طالبان کی بے پناہ ستائش کی جاتی ہے اور جو نوخیز ذہن اللہ کی راہ میں قربان یا شہید ہوجانے کے جذبہ سے سرشار ہوتے ہیں وہ اس کے دام میں آجاتے ہیں۔اخبار نے یہ بھی لکھا ہے کہ ریاض الحق کی تعلیم و تربیت بھی برطانیہ کے ایک مدرسہ میں ہوئی ہے۔ میرے حساب سے موجودہ مذہبی جنگی ماحول کے جواز اور اس کے اسباب و عوامل پر جب ہم نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ اس کے بھڑکنے میں مخصوص مذہبی ذہن کا کسی نہ کسی حد تک عمل دخل ضرور رہا ہے۔ وہ اپنی ’’جنگ‘‘ کو جائز ٹھہرانے کے لیے مذہبی دلائل استعمال کرتا ہے۔نائن الیون کی کارروائی کے بعد دنیا کی رفتار کو کاٹ کر رکھ دیا گیا۔اہل مغرب کو ہر مسلمان انتہا پسند اور دہشت گرد دکھائی دیتا ہے اور انہیں وہ مغرب کے عالمی ثقافت و کلچر کے لیے خطرہ سمجھنے لگتے ہیں‘ دوسری طرف مسلمان سمجھتے ہیں کہ یہ اسلام کے خلاف ان کی چھیڑی گئی صلیبی جنگ ہے۔دونوں کے درمیان خلیج حائل ہوتی جارہی ہے۔ہمیں ( فریقین کو) چاہیے کہ دنیا میںروا داری کو عام کرنے کے لیے باہمی تعاون کو فروغ دیںاور تمام مذاہب مل کر یہ دیکھیں کہ کسی کی تعلیمات سے ٹکرائے بغیر ہم آپس میں مل جل کر امن و سلامتی اور بھائی چارے کے ساتھ کس طرح رہ سکتے ہیں؟ میں بھی سوچتا ہوں آپ بھی سوچیے……