ٹیلی ویژن کے بعد انٹرنیٹ بھی ایک عجیب وغریب چیز کا نام ہے، ٹی وی کے مختلف چینلوں کے ذریعے ہم آپ گھر بیٹھے دنیا بھر کے مناظر دیکھتے ہیں اور ٹھیک اسی طرح انٹرنیٹ بھی آپ کو دنیا کے گوشے گوشے کی معلومات فراہم کرتاہے اور وہ بھی چند سیکنڈمیں۔ ادھر آپ نے متعلقہ ویب سائٹ کا ایڈریس ٹائپ کیا‘ ادھر وہ سائٹ آپ کی نظروں کے سامنے ہوتی ہے۔ اس میں بعض خبروں کی سائٹس بھی ہیں اور کمپنیوں، اداروں اور تنظیموں کی بھی۔ انٹرنیٹ کے ذریعے اپنے حوالے سے مختلف قسم کی معلومات بہم پہنچانا اب کوئی نئی بات نہیں رہ گئی اور یہ ذریعہ بہت محفوظ بھی ہے۔ اگر کوئی ادارہ اپنے بارے میں کوئی معلومات اخبار یا ٹیلی ویژن کے ذریعے عوام تک پہنچانا چاہتا ہے تو اس میں اس کا عمل دخل معلومات کی فراہمی تک ہوتا ہے اور بس۔ اس کے بعد اخبار یا ٹی وی کے ارباب اختیاریا عملے کی صواب دید پر ہوتا ہے ‘وہ چاہیں تو من وعن عوام تک پہنچائیں یا اسے نظر انداز کردیں۔ یہی وجہ ہے کہ انٹرنیٹ کو انتہائی محفوظ تصور کیا جاتا ہے کہ اس کے ذریعے فراہم کی جانے والی معلومات میں کوئی بھی شخص حارج نہیں ہوتا، معلومات فراہم کرنے والے سے معلومات حاصل کرنے والے کا براہ راست رشتہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سی دہشت گرد اور انتہا پسند تنظیمیں بھی بے دریغ اس میڈیم کو استعمال کررہی ہیں۔ یہ سب انٹرنیٹ سائٹس کے ذریعے اپنا پرچار کرنے میں کسی قسم کی قباحت محسوس نہیں کرتیں۔ انٹرنیٹ پر ان کے اپنی سائٹس موجود ہیں جوان کے لئے اس اعتبار سے مؤثر ہیں کہ اس میں کسی کا عمل دخل نہیں ہے۔ نہ تو فراہم کی جانے والی معلومات میں کسی قسم کاردوبدل ہوسکتا ہے نہ اُس کا زاویہ بدلا جاسکتا ہے۔ حماس کی ویب سائٹس پر سیاسی کارٹون ، ویڈیو کلپس اور تصاویر موجود ہیں جن میں دکھایا جاتا ہے کہ اسرائیل اور اسرائیلی فوج‘ فلسطینی عوام پر کتنا ظلم وستم کر رہے ہیں۔ القاعدہ ہو یا الجزائر کے انتہا پسند ہوں یا سری لنکا کے تامل ٹائیگر، انٹرنیٹ سب کیلئے تشہیر کا ایک اہم ذریعہ بن گیا ہے۔ سب جانتے ہیںکہ دنیا کے مختلف علاقوں میں جو تنظیمیں کام کررہی ہیں وہ سب کی سب دہشت گرد یا انتہا پسند نہیں ہیں بلکہ ان میں کچھ ایسی بھی ہیں جو حق وانصاف کیلئے لڑرہی ہیں‘ جیسے کہ فلسطین کی بازیابی کیلئے ہتھیار اٹھانے والی حماس اور لبنان کی حزب اللہ؛ تاہم اپنے نظریات کے فروغ کے لیے انٹرنیٹ کا استعمال سب کررہی ہیں‘ یہ الگ بات کہ مبصرین ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کرسکے کہ انٹرنیٹ ان تنظیموں کے نظریات کے فروغ میں کتنا مؤثر رول ادا کررہا ہے؛ تاہم ایک بات پروہ متفق ہیں کہ لوگوں کو اپنے بارے میں بتاکر‘ انہیں اپنے حق میں ہموار کرکے سرمایہ اکٹھا کرنے میں انٹرنیٹ ان کی پوری مدد کررہا ہے۔ بعض تنظیمیں خود چندہ، ڈونیشن ، زکوٰۃ وغیرہ کی اپیل نہیں کرتیں بلکہ اپنے حامیوں کے ذریعے یہ درخواست انٹرنیٹ ہولڈرز تک پہنچاتی ہیں، ایک ایسا ہی پبلی کیشنز کاادارہ لندن میںہے جس نے اپنی ویب سائٹ جہادی تنظیموں کے لیے وقف کی ہوئی ہے۔ اس ویب سائٹ سے افغانستان کے طالبان ، القاعدہ کے مجاہدین، چیچنیا کے جنگجو اور دیگر جہادی تنظیموں کے لیے مالی امداد کی اپیل کی جاتی رہی ہے۔ ابھی کچھ عرصہ قبل تک آئرلینڈ آئی این سی نے جوکہ اٹلانٹا میں انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والی ایک درمیانے درجے والی کمپنی ہے حزب اللہ کے لیے کئی ویب سائٹس کا انتظام کیا لیکن پھر یہ خدمات واپس لے لیں۔ اس کمپنی کا کہنا ہے کہ حزب اللہ سے وابستہ افراد نے ویب سائٹس کے استعمال کی متعدد شرائط کی پاسداری نہیں کی‘ اس لیے ہم نے اس سے ناتا توڑ لیا۔ اب حزب اللہ کے لوگ ایک لبنانی کمپنی کی خدمات حاصل کیے ہوئے ہیں۔ حزب اللہ کا کہنا ہے کہ ان کی ویب سائٹ پر ہرمہینے 60ہزار سے زائد افراد وزٹ کرتے ہیں۔ اس مقبولیت کی وجہ سے حزب اللہ کو کتنا فائدہ پہنچتا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک موقع پر حزب اللہ نے اسرائیلی فوج کو اپنی رپورٹ بدلنے پر مجبور کردیا کہ حزب اللہ نے جو حقائق پیش کیے تھے ان کے سامنے اسرائیلی فوج کی خبر جھوٹی ثابت ہوسکتی تھی۔ اسی طرح یہودیوں کی انتہا پسند تنظیم جو اسرائیل سے تمام عربوںکے انخلا کے لیے کام کررہی ہے اس نے KAHANE.ORG کے نام سے اپنی ویب سائٹ بنارکھی ہے۔ اس تنظیم کے حامیوں نے 1994ء میں مغربی کنارے کی ایک مسجد میں 48فلسطینی نمازیوں کو سجدے کی حالت میں شہید کردیا تھا۔ عام طورپر خیال کیا جاتا ہے کہ انتہا پسند تنظیموں سے تعلق رکھنے والے افراد جدید ٹیکنالوجی یا کمپیوٹر کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں جانتے۔ یہ غلط ہے کہ وہ کمپیوٹر کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں اور انٹرنیٹ کی سہولت سے فائدہ بھی اٹھارہے ہیں۔ انٹرنیٹ ان کے لیے سپورٹ حاصل کرنے کا خاصا مؤثر ذریعہ بن چکا ہے؛ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ جب کوئی پیغام آپس کے لوگوں کو پہنچانا ہوتا ہے تو وہ انٹرنیٹ کو محفوظ نہیں کہتے بلکہ اپنے پیغام کو Encryptedانداز میں روانہ کرتے ہیں تاکہ کوئی اور ان کو سمجھ نہ پائے کیونکہ امریکہ کی ایف بی آئی ایک ایسا حربہ استعمال کرتی ہے جس کے ذریعے ای میل کو روک کر اسے پڑھا جاسکتا ہے۔ ایم آئی فائیو اور سکاٹ لینڈ یارڈ نے بھی اسی قسم کے پروگرام تیار کیے ہوئے ہیں جن کو وہ بروئے کار لاتی رہتی ہیں۔ ورجینیا کی ایک کمپیوٹر کمپنی کا کہنا ہے کہ جب انتہا پسند تنظیمیں اور متعلقہ حکومتوں کے درمیان کشیدگی بڑھتی ہے تو سائیبر سپیس میں سرگرمیاں بڑھ جاتی ہیں۔ میرے حساب سے یہ سرگرمیاں کمپیوٹر کی سکرین تک ہی رہنی چاہئیں اس سے آگے نہیں…!