پاکستان کے سابق وزیراعظم‘ مسلم لیگ ن کے صدر اور تیسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بننے جا رہے میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ہم بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات کی جانب پیش قدمی کرنا چاہتے ہیں اور تمام تصفیہ طلب مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں جن میں مسئلہ کشمیر بھی شامل ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ وہ 1999ء میں پرویز مشرف کی بغاوت کی وجہ سے ٹوٹ جانے والے مذاکرات کے سلسلے کو وہیں سے شروع کریں گے جہاں سے شب خون مارا گیا تھا۔ مسلم لیگ ن کے سربراہ نے بتایا کہ گزشتہ روز من موہن سنگھ صاحب کا فون آیا تھا‘ ہماری کافی تفصیلی گفتگو ہوئی جس کے آخر میں انہوں نے مجھے ہندوستان آنے کی دعوت دی‘ میں نے بھی انہیں مدعو کیا۔ میں جلد ہی ہندوستان کا دورہ کروں گا اور اگر وہ میری تقریب حلف برداری میں آئیں تو یہ میرے لیے اور پاکستان کے لیے ایک اعزاز ہوگا۔ میاں نوازشریف نے پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات بہتر بنانے کے لیے جن اقدامات کا اعلان کیا ہے ان کا مقصد یہ ہے کہ جنوبی ایشیا میں حقیقی امن اور سلامتی کا دور دورہ ہو اور کشمیر سمیت تمام مسائل کے حل کے لیے اپنی کوششوں کا عملی آغاز کیا جا سکے۔ نوازشریف بنیادی طور پر مثبت سوچ کے حامل شخص ہیں۔ انہوں نے کئی مرتبہ اس فکرو نظر کا اظہار کیا ہے کہ آپ کو منزل پر پہنچنے کے لیے پہلی سیڑھی پر قدم رکھنا پڑتا ہے۔ چینی فلاسفر کنفیوشس کہتا ہے کہ ایک ہزار میل کا سفر بھی پہلے قدم ہی سے شروع ہوتا ہے۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ تشدد‘ جارحیت اور آمریت سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا اور اگر ہوا بھی ہے تو وہ دیرپا ثابت نہ ہو سکا۔ دونوں ملکوں کے عوام کی اکثریت یہ محسوس کرتی ہے کہ آدھی صدی سے زائد مسلسل ایک دوسرے کے خلاف پروپیگنڈے اور سرد و گرم جنگ سے نہ تو بھارت کو کچھ حاصل ہوا اور نہ پاکستان ہی کو کچھ فائدہ پہنچ سکا۔ دونوں ملکوں کو یہ محسوس کرنا چاہیے کہ کشیدگی کے ہوتے پاکستان اور بھارت کے مابین زندگی کے ہر شعبے میں تعاون محال ہے۔ دونوں ملکوں میں دولت‘ وقت اور توانائی کو ایک دوسرے کے خلاف پروپیگنڈے پر ضائع کیا جا رہا ہے۔ اس سے یہ ضرور ہوا کہ دونوں ملکوں میں کچھ ایسے عناصر اور ادارے پیدا ہو گئے ہیں جن کا روزگار مسئلہ کشمیر اور دوسرے مسائل کو جوں کا توں رکھنے سے ہی جاری رہ سکتا ہے ورنہ بھارت اور پاکستان کے عوام کے درمیان کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ عوام کی غالب اکثریت پاکستان اور بھارت کے درمیان مفاہمت اور دوستی چاہتی ہے اور تمام مسائل جمہوری طریقوں اور پرامن بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی خواہش مند ہے‘ جسے اب تک نظر انداز کیا جاتا رہا ہے مگر اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس خواہش کو زیادہ دیر تک نظرانداز نہیں کیا جا سکے گا اور پاکستان اور بھارت امن و مفاہمت کی طرف پیش قدمی کرنے پر مجبور ہو جائیں گے یا کردیئے جائیں گے کیونکہ ان دونوں ملکوں بلکہ پورے جنوبی ایشیا کا مفاد اسی میں ہے کہ اس پورے خطے میں امن و سلامتی کو یقینی بنایا جائے۔ لگ بھگ ڈیڑھ ارب کی آبادی والے اس خطے میں سکون اور امن کا مطلب ہے دنیا بھر میں امن اور چین۔ اور اس امن اور چین کو یقینی بنانے کے لیے پاک و ہند کے مابین مفاہمت شرطِ اولین ہے۔ پاکستان اور بھارت برسوں سے اپنے اپنے موقف پر ڈٹے رہنے کے بجائے بات چیت اور مکالمے کی ایک ایسی ڈگر تلاش کریں جو از خود جاری رہ سکے کیونکہ پاک و ہند کی ساری تاریخ ناکام مذاکرات سے عبارت ہے۔ دوستی کا سوال تو ایک طرف‘ سوچنے کی بات یہ ہے کہ آیا ہم باہمی دشمنی کے متحمل ہو سکتے ہیں؟ میرے خیال میں اس وقت سب سے اہم مسئلہ دونوں ممالک میں آمدو رفت کا ہے۔ اس سے رائے عامہ میں تبدیلی پیدا ہوگی۔ بدقسمتی سے دونوں ملکوں میں شکوک و شبہات اس قدر پھیلا دیئے گئے ہیں کہ گزشتہ 65 برس سے ہم محض ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ ہی کرتے آئے ہیں جبکہ ہندو پاک دوستی نہ صرف ممکن ہے بلکہ ضروری بھی ہے۔ حالیہ عام انتخابات میں میاں نوازشریف کی نمایاں کامیابی‘ پاک بھارت امن دوستی کے لیے ایک بے حد نیک شگن ہے کیونکہ اب دونوں ملکوں میں تنائو ختم کرنے کی طرف پیش قدمی ممکن ہوگی۔ جسے میں ایک نعرہ کی صورت میں یوں کہنا چاہوں گا۔ ’’بھارت چلو نوازشریف ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘۔ اگر دوستی کے قدم بڑھتے گئے تو ایک دن ضرور اپنی منزل کو پا لیں گے کہ دونوں ملکوں کی حکومتیں (میاں نوازشریف کو میں ابھی سے وزیراعظم سمجھتا ہوں) اپنے آپ کو ’’عوامی حکومتیں‘‘ سمجھتی ہیں۔ نوازشریف نے عام انتخابات سے چند روز پہلے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اگر وہ منتخب ہو گئے تو کسی انتہا پسند یا دہشت گرد کو پاکستان کی سرزمین ہندوستان کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ دوسرے الفاظ میں انہوں نے صاف دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ انتہا پسندوں کو بھارت پر حملہ نہ کرنے دیں گے۔ دو مرتبہ وزیراعظم رہ چکے اور بھارت سے دوستی کرنے کے خواہاں نوازشریف نے لگی لپٹی رکھے بغیر کہا کہ ’’یہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے اور مسائل کے حل کا بہترین موقع ہے‘ میں ایسی کئی مثالیں پیش کر سکتا ہوں جب حریفوں نے ہمارے مسائل سے بھی زیادہ مشکل مسائل کو حل کیا ہے‘‘۔ مجھے وہ دن بھی یاد ہے جب واجپائی بھارت کے وزیر خارجہ تھے‘ تب پاک بھارت کے درمیان اگر بہت اچھے نہیں تو اچھے تعلقات ضرور تھے پھر جب واجپائی بحیثیت وزیراعظم بس کے ذریعے لاہور پہنچے تو ’’کارگل کا حادثہ‘‘ پیش آ گیا‘ یہ حادثہ پرویز مشرف کا پیدا کیا ہوا تھا۔ نوازشریف کو وزیراعظم ہوتے ہوئے بھی اس کا علم نہ تھا‘ یہی وجہ ہے کہ نوازشریف سول امور میں فوج کی مداخلت پر کبھی خوش نہیں رہے اور یہ کوئی معیوب بات نہیں۔ انہوں نے کارگل پر کمیشن بنانے کی بے حد معقول بات بھی کی ہے۔ میرے خیال میں اگر کارگل کا ’’پھڈا‘‘ درمیان میں نہ آ جاتا تو نوازشریف اب تک بھارت سے اچھے تعلقات قائم کر چکے ہوتے۔ یہاں میں یہ بات اور نکتہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں کہ میاں نوازشریف کے بعد کسی حکمران میں اتنی سوجھ بوجھ نہیں ہے کہ وہ برصغیر میں بڑھتی ہوئی خاک و خون کی آندھی کا تدارک کر سکے۔ میں یہ بات پوری دیانت داری سے کہتا ہوں کہ پاک بھارت دوستی کے اس ٹوٹے ہوئے سلسلہ کو وہیں سے جوڑا جائے جسے ’’اعلانِ لاہور‘‘ کہتے ہیں اور جو نوازشریف کا مرہونِ منت ہے۔ کسی عارف نے کیا پُرمغز بات کہی ہے کہ ’’جن حقیقتوں کا سامنا جرأت اور صاف گوئی کے ساتھ نہ کیا جائے وہ پلٹ کر ہماری ہی پشت پر وار کر بیٹھتی ہیں‘‘۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس نظریہ پر نوازشریف پورے اترتے ہیں یا نوازشریف کو ملک بدر کرنے والے… ’’میں دشمن کی طرفداری کی خاطر‘‘ بسا اوقات خود سے بھی لڑا ہوں