ہوائوں کی بجائے کشتی کا رخ بدلیے

عہد حاضر میں سائنسی ترقی کی بدولت الیکٹرانک میڈیا اتنی ترقی کرچکا ہے کہ قدامت پرست ، مذہبی طبقہ، بنیاد پرست یا اسی قبیل کے دوسرے لوگ اس پر جتنی پابندی لگادیں، پہرے بٹھا دیں یا بندشیں لگادیں وہ بالآخر ناکام ثابت ہوں گی۔یہ تگ و دودیوانے کا خواب ثابت ہوگی ۔ اس ضمن میں مسلمانوں کی غیر جمہوری اور جابر حکومتیں بھی بے بس اور لاچار ہوکر رہ گئی ہیں۔ اگر علمائے کرام سمجھتے ہیں کہ ٹی وی ، ریڈیو ، ویڈیو ، انٹرنیٹ ،سینما ، موبائل فون ،پرنٹ میڈیا غرضیکہ پورا الیکٹرانک میڈیا گمراہی کا موجب ہے تو میرے خیال میں ’’ ہدایت‘‘ بھی اسی راستے سے پھیلے گی۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ٹی وی اور انٹرنیٹ کے ذریعے گمراہی پھیل رہی ہے توآپ انہیں ختم نہ کریں بلکہ اپنے ٹی وی چینل کا آغاز کردیں ۔دین و مذہب کی تبلیغ اور اسلام کی ترویج کے لیے پروگرام پیش کریں۔اس پر کسی کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے؟ انٹرنیٹ اور کمپیوٹر سے دوری ممکن نہیں ۔مذہب کے پرچار کے لیے آپ انٹرنیٹ کا سہارا لے سکتے ہیں۔ علمائے کرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ ’’گمراہی ‘‘ کا جواب ’’ ہدایت ‘‘ سے دیں۔ آخر آپ دوسرے فریق سے یہ توقع کیوں رکھتے ہیں کہ وہ اپنے اخراجات اور اپنی محنت و مشقت سے آپ کے موقف کو پیش کرے۔ انٹرنیٹ پر جو بچے کافی وقت صرف کرتے ہیں ،ان پر منفی اور مثبت ہر دو طرح کے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ بعض بچے انٹرنیٹ سے استفادہ کرتے ہوئے اپناتعلیمی معیار بہتر کرلیتے ہیں۔اس کے برعکس کچھ بچے انٹرنیٹ کے ذریعے ایسی چیزیں سیکھ لیتے ہیں جو ان کے حق میں مضرت رساں ثابت ہوسکتی ہیں۔یہ چیزیںان کے نہ صرف اخلاق و کردار پر اثر اندازہوتی ہیں بلکہ ان کے دل سے دوسرے مذاہب کا احترام بھی رخصت ہوجاتا ہے۔دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک دوسرے کے مذہب اور مذہبی شخصیتوں پر لعن طعن کرتے ہوئے اپنے مذہب کو بہتر ثابت کرنے کی کوششیں نوجوانوں میں انتہا پسندی اور نفرت کو بڑھاوا دینے کا باعث بن رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سی دہشت گرد اور انتہا پسند تنظیمیں اس میڈیم کوبے دریغ استعمال کررہی ہیں۔پاکستان ، بھارت، مشرق وسطیٰ ،پیرو یورپ اور ایشیا کی انتہا پسند تنظیمیں انٹر نیٹ سائٹس کے ذریعے کھلے عام اپنا پرچار کررہی ہیں۔ اس طرح انٹرنیٹ سب کے لیے ایک اہم ذریعہ تشہیر بن گیا ہے۔ انٹرنیٹ ٹریفک پر نظر رکھنے والی ایجنسیوں نے گزشتہ دنوں جب اعدادو شمار جاری کیے تو بحیثیت مجموعی مسلمانوں کے بارے میں المناک صورت حال سامنے آئی کیونکہ انٹرنیٹ پر فحش مواد کامشاہدہ کرنے والے سرفہرست 10 ملکوں میں سے 7 کا تعلق مسلمان ممالک سے تھا ۔ہم اس شرمناک کوتاہی کو یہود و انصاریٰ کی سازش کہیں یا کچھ اور لیکن ان اعدادو شمار کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔یہی وجہ ہے کہ ایک تبصرہ نگار نے مسلمان ملکوں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ اگر ان لوگوں کے ذہن پر جنس اس قدر سوار رہتی ہے تو کوئی کیا کرسکتا ہے۔ ٹیلی ویژن اورانٹرنیٹ وغیرہ ایسی جدیداختراعات ہیں جن کے ذریعے مسلمان ممالک اخلاقی،اصلاحی اور سماجی بہبود کے بارے میں نشریات پھیلا کر بے ادب نسل کو باادب بناسکتے ہیں۔ دوسرے مذاہب کے لوگوں کو تہذیب و ثقافت کا درس دیاجاسکتا ہے اور دلدل میں پھنسی امت کے درد کا مداوا تلاش کیا جاسکتا ہے ۔ لیکن افسوس کہ مسلم معاشرے میں اس سمت کوئی خاطر خواہ اقدامات کرنے کے بجائے اس سود مند ایجاد اور جدید عصری میڈیا کو مسلم معاشرے میں پس پشت ڈال کر اس کے خلاف محاذ بنالیا گیا ہے۔ ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ کو مسلم معاشرے کو ’’ تباہ ‘‘ کرنے کی سازش قرار دیاجارہا ہے، لیکن میرے حساب سے ایسا ہرگز نہیں ہورہا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایجادات مسلمانوں کے عقیدے یا امت کے مزاج کو ہیجان میں مبتلا نہیں کرتیں نہ ہی اسلام کے بنیادی اصولوں سے مسلم فرد اور معاشرے کو اجنبی بنارہی ہیں۔اگر اخلاقی اور سماجی پروگراموں کو دیکھنے اور سننے کے لیے ہمارے نوجوانوں کے پاس وقت نہیں اور فحش پروگراموں کو دیکھنے کے لیے ان کے پاس کافی وقت ہے تو اس میں پروگراموں کا کیا قصور ؟ کیا ایسی صورت میں ٹی وی ، کیبل یا انٹرنیٹ کو ہی خیرباد کہہ دیاجائے؟ میرے خیال میں اب ٹی وی ، انٹرنیٹ وغیرہ کے مضر یا مفید ہونے کے بارے میں بحث کا وقت گزرچکا ہے ،یہ انسانی زندگی کا ایک حصہ بن چکا ہے۔اچھے یا برے کا فیصلہ اس کے استعمال پر ہے ۔دراصل اچھی سے اچھی شے بھی غلط استعمال سے برے نتائج دینے لگتی ہے۔ اکیسویں صدی میں یہ بات طے ہے کہ الیکٹرانک میڈیا کی لو اور لے دبائی نہیں جاسکتی۔ آج الیکٹرانک ٹیکنالوجی ، موبائل فون ، کمپیوٹر سافٹ ویئر اور انٹرنیٹ وغیرہ (اس وغیرہ میں مزید 13 سہولتیں شامل ہیں) نے جغرافیائی سرحدوں کو دھندلا کردیا ہے اور بارڈر کوئی مسئلہ نہیں رہا۔اب ایک ملک دوسرے ملک کے اتنے قریب آچکا ہے کہ اس کی کوئی برائی ڈھکی چھپی نہیں رہ سکتی۔ اب یہ ٹیکنالوجی ہمارے ڈرائنگ روموں سے ہوتی ہوئی بیڈ روموں تک آگئی ہے۔ ایک نئے مسئلہ کا ابھرنا یا ابھاراجانا سابق مسئلے کو ختم نہیں کرتا۔کیتلی کے ڈھکن کو دبائے رکھنے سے بھاپ کا پریشر یا دبائو محدود نہیںہوجاتا بلکہ کیتلی کے نیچے لگی آگ کو ہٹانے سے ہی پریشر کم ہوتا ہے۔ اس کے بعد جدید ٹیکنالوجی کے مخالفین کے پاس اپنے موقف کے حق میں کوئی دلیل باقی رہ جاتی ہے؟

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں