ایک ممتاز سائنس دان نے دعویٰ کیا ہے کہ اگلے دس برس کے اندر اندر ایک مکمل، فعال مصنوعی انسانی دماغ تیار کرلیا جائے گا۔ ہنری مارکرم جو برطانیہ میں بلیوبرین پروجیکٹ کے ڈائریکٹر ہیں‘ نے چوہے کے دماغ کے عناصر کی مددسے ایک مصنوعی دماغ کا خاکہ تیار کیا ہے۔ انہوں نے آکسفورڈ میں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ مصنوعی انسانی دماغ کی مددسے دماغی امراض کا علاج تلاش کرنے میں مددملے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا میں لگ بھگ دو ارب افراد کسی نہ کسی طرح کی دماغی بیماری میں مبتلا ہیں جن میں پاکستان کے افراد کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ ہنری مارکرم نے کہا کہ ’’اب انسانی دماغ تیار کرنا ممکن ہوگیا ہے، ہم آئندہ دس برس میں ایسا کرلیں گے۔‘‘ انہوں نے اس تھیوری پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ’’دماغ کا چوہے سے انسان تک کا سفر ایک کامیاب ارتقا تھا اور اگر آپ اس عمل کو جاننے کے لیے اسے یونٹس کے تناظر میں دیکھیں تو چوہے سے انسانی دماغ کے سفر میں ہزار گنا کی وسعت ہے اور یہ ارتقائی سفر ابھی ختم نہیں ہوا بلکہ جاری وساری ہے بلکہ یہ بہت تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہاہے۔‘‘ بلیو برین پروجیکٹ کے پاس اب کروڑوں خلیات پر مشتمل ایک سافٹ ویئر ماڈل ہے جس میں ہر اعصابی خلیہ دوسرے خلیے سے مختلف ہے جیسے ہر انسانی صورت دوسری شکل وصورت سے مختلف ہوتی ہے۔ اگرچہ ایسا ہرخلیہ اپنی ایک الگ اور مختلف حیثیت رکھتا ہے، ہنری مارکرم کا دعویٰ ہے کہ اس کے باوجود مختلف دماغوں میں مشترک نمونے پائے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مصنوعی دماغ کی تیاری میں ایک ایک خلیے کا ضروری حساب کرنے کے لیے بے حد ماڈرن لیپ ٹاپ درکار ہے لہٰذا اس کام کے لیے آئی بی ایم کی بلیو جین استعمال کی جارہی ہے جس کے اندر بیس ہزار کے لگ بھگ پروسیسر ہیں۔ یہاں یہ بات جاننے اور یادرکھنے کے قابل ہے کہ بلیو برین پروجیکٹ 2005ء میں شروع کیا گیا تھا جس کا مقصد لیبارٹری ڈیٹا کی مددسے دماغ تیار کرنا تھا۔ دانشوروں نے ہر عہد میں دماغ کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے اور تمام منصوبوں اور خیالات پر اس کو افضل قرار دیا ہے چاہے اس کا تعلق کسی بھی مکتب فکر سے رہا ہو۔ مہاتمابدھ نے کیا خوب کہا تھا: ’’دماغ سب کچھ ہے‘ آپ جوکچھ سوچتے ہیں بن جاتے ہیں۔‘‘ رام کرشنا کے الفاظ میں دماغ ہی سے ہرایک بندھاہوا ہے۔ دماغ ہی سے ہرایک آزادہے۔ ’’حضرت علی ؓ کا فرمان ہے: ’’دماغ کاراستہ کوشش اور سوچ بچار کاراستہ ہے۔‘‘ ولیم جیمز نے لکھا: ’’میری نسل کی سب سے بڑی ایجاد یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی کو بدل سکتا ہے‘ اپنے دماغ کا شعور بدلنے سے۔‘‘ اگر آپ اس مقولے کہ ’’جب آپ اپنے دماغ پر حکومت کریں گے تو دنیا پر حکومت کریں گے‘‘ کے بارے میں سوچیں کہ اس کے پس پردہ کیا راز مخفی ہے تو آپ پر کھلے گا کہ دماغ زندگی ہے، طاقت ہے، قابلیت واہلیت ہے… خیالات کو جنم دینے والا… حقیقتوں سے پردہ اٹھانے والا۔ یہ دماغ ہی ہے جو ہمیں ہرکام کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اگر اس میں گڑ بڑ ہوجائے تو ہماری کارکردگی میں نمایاں فرق پڑجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا عمل، کارکردگی، کہے ہوئے الفاظ، ہمارے خیالات یہاں تک کہ ہمارے احساسات تک روزمرہ کی زندگی میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ یہاں مجھے افسانوی کردار ’’رین مین‘‘ یاد آرہا ہے۔ ’’رین مین‘‘ کے بارے میں اسی نام سے ہالی ووڈ نے ایک فلم بھی بنائی تھی جس میں اداکار ڈسٹن ہوف مین نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ رین مین کا اصل نام کم پیک ہے اور وہ ایک خاص دماغی یا اعصابی بیماری میں مبتلا ہے۔ اس کے دماغ کی ساخت میں بنیادی نقائص ہیں جن کے باعث وہ روزمرہ زندگی کے کام کرنے سے معذور ہے تاہم انہی خامیوں کی وجہ سے اس کی یادداشت غیرمعمولی حدتک تیز ہے۔ وہ ایک گھنٹے میں کتاب پڑھ لیتا ہے جس کا ننانوے فیصد حصہ اسے ازبر ہوجاتا ہے۔ اسے بارہ ہزار سے زیادہ کتابیں زبانی یاد ہیں۔ دماغ پر تجربات کے دوران سائنسدانوں نے دماغ کا فنکارانہ صلاحیتوں سے مالا مال دایاں حصہ بیدار کردیا ہے اور بائیں حصہ وقتی طورپر بند کردیا ہے۔ واضح رہے کہ زین کا بایاں حصہ بنیادی طورپر وقتی یاداشت اور زبان وغیرہ سے معلق ہوتا ہے اور تجزیابی فرائض انجام دیتا ہے۔ اس سے ہوتا کیا ہے کہ رین زین پہلے سے حاصل کیے ہوئے تجربات اورتصورات سے ماورا ہوکر دنیا کو خالص حسیات سے محسوس کرتا ہے بالکل ایسے ہی جیسے بچہ پہلے سے سیکھے ہوئے تعصبات سے غیرآلودہ ہوکر دنیا کو دیکھتا ہے۔ دماغ کا بایاں حصہ ایک طرح سے محتسب یا علامہ اقبال کے الفاظ میں ’’پاسبان عقل‘‘ کا کام کرتا ہے اور بہت سے خیالات کو ابھرنے سے پہلے ہی دبادیتا ہے۔ آپ نے سنا ہوگامگر میں نے دیکھا ہے کہ کئی شاعر، ادیب اور دانشور حضرات ’’دارُو‘‘ استعمال کیے بغیر تخلیقی قوت یا تخلیقی کیفیت سے دوچار ہونے میں دشواری محسوس کرتے ہیں یا سرے سے تخلیق ہی نہیں کرپاتے۔ وجہ؟ ’’دارُو‘‘ بھی ’’پاسبان عقل‘‘ کے اثر کو زائل کردیتی ہے جو جذبات کے بے قابو بہائو پر قدغن لگائے رکھتا ہے۔ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور ڈیزائن کی دنیا کے مفکر جنہوں نے آکسفورڈ میں کانفرنس کی تھی اور دنیا کے مستقبل کے بارے میں تبادلہ خیالات کیا تھا کا کہنا ہے کہ یہ کانفرنسیں نئے نظریات اور خیالات کے لیے وقف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس کا تعلق افراد، معاشرے اور دنیا کے ان پہلوئوں سے ہے جو ابھی پوشیدہ ہیں یا ان کے بارے میں ہمیں پوری معلومات حاصل نہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس کی ایک مثال انسانی دماغ ہے‘ اس کے علاوہ جن باتوں پر غور کیا گیا یہ ہے کہ کیا زندگی ریاضی کے ایک مسئلے کی طرح ہے؟ انسانی دماغ میں تحریک کہاں سے آتی ہے ؟ اور کیا ہوا کاڈیزائن بنانا ممکن ہے ؟ یادرہے کہ ٹی ای ڈی (ٹیکنالوجی، انٹرٹینمنٹ اور ڈیزائن) کانفرنسوں میں ماضی میں پڑھے جانے والے مضامین ، مقالوں میں سے لگ بھگ پانچ سو انٹرنیٹ پر بلافیس ومعاوضہ کے دستیاب ہیں جنہیں دو کروڑ افراد دیکھ چکے ہیں۔ ان میں پاکستانی خواتین وحضرات کتنے ہوں گے، میں بھی سوچتا ہوں ، آپ بھی سوچئے: ؎ پابند مقدر ہو کر بھی ہر چیز پہ قادر ہے انساں مجبور کا جب یہ عالم ہے مختار کا عالم کیا ہوگا!