ناروے میں بھی مسئلہ کشمیر زندہ ہے !

وائی کنگ کے دیس ناروے کی پارلیمنٹ میں کشمیرکے ایشو پر یہ دوسری کانفرنس تھی۔ برصغیر کے بدلتے ہوئے حالات کے پس منظر میں کشمیرسکینڈے نیوین کونسل ناروے کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سردار علی شاہنواز خان ،جو نارویجین پارلیمنٹ کے آل پارٹیز کشمیر گروپ کے مشیر بھی ہیں ،نے گزشتہ برس کی طرح اس سال بھی مسئلہ کشمیر پر اپنی توانائیاں خرچ کی ہیں۔ علی شاہنواز خان کا کہنا ہے کہ اگر ہمیں افغانستان میں امن وامان چاہیے تو اس کا راستہ سری نگر سے ہوکر گزرتا ہے جبکہ ناروے پارلیمنٹ میں کشمیر گروپ کے چیئرمین کنوت آریلڈ ہاربی ڈے ،جو اس بحث کے لیے پارلیمنٹ میں تحریک التوا کے محرک بھی تھے ،نے کہا کہ تنازع کشمیر، بھارت اور پاکستان کے درمیان موجودہ تعلقات کو تباہ کررہا ہے کیونکہ دونوں ملک کشمیر کو نظرانداز کررہے ہیں۔ افغانستان سے امریکی افواج کی روانگی کے بعد انتہا پسندی اور دہشت گردی کی لہر پھر سراٹھاسکتی ہے۔ اس کے جواب میں نارویجین وزیر خارجہ اسپن بارت ایدے نے ہائوس کو بتایا کہ کشمیر ایشو ہندوپاک کے درمیان تاریخی حیثیت رکھتا ہے، دونوں ملکوں کے مابین کشیدگی کم کرنا ہمارے لیے بے حد اہم ہے، کشمیر سے جڑے ہوئے بہت سے مسائل اور چیلنجز موجود ہیں، میرا نہیں خیال کہ ان چیلنجز سے جلد اور آسانی سے نمٹا جاسکتا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ پاکستان کے نئے نامزد وزیراعظم نواز شریف بھارت کے ساتھ اچھے اور قریبی تعلقات چاہتے ہیں، یہ ایک اہم اور مثبت قدم ہے۔ میرے خیال میں یہ ابھی تک واضح نہیں ہوسکا کہ یہ مذہب وثقافت کا جھگڑا ہے، دوقومی نظریہ کا شاخسانہ ہے یا بھارت وپاکستان سے آزادی کی تحریک ہے۔ ہاں، البتہ مذہبی رہنمائوں نے اسے کفر والحاد اوراسلام کی جنگ ضرور بنادیا ہے۔ مذہب کے نام پر بننے والا پاکستان قائم ہے۔پاکستان کشمیر کو اپنی شہ رگ قرار دیتا ہے اور مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش ) کو اپنا بازو کہتا تھا جبکہ بھارت کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہتا ہے اور بنگلہ دیش کو اپنا ہمسایہ ۔ سوال یہ ہے کہ کیا دونوں ملک مسئلہ کشمیر کا کسی طے شدہ فارمولا کے ذریعے کوئی حل نکالنے میں کامیاب ہوجائیں گے؟ 25برس پہلے کانگرس کی ہوس حکمرانی اتنی بڑھی ہوئی تھی کہ اس نے بیلٹ کے ذریعے کشمیریوں کے اقتدار حاصل کرنے کی خواہش کو کچل دیا اور ردعمل کے طورپر کشمیریوں نے بلٹ کا سہارا لیا۔ مسئلہ کشمیر نے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو بے حد کشیدہ اور پیچیدہ کردیا ہے جس کی وجہ یہی ہے کہ تینوں فریق (پاکستان، بھارت، کشمیری) اپنے اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ کشمیر ان کی انا کا مسئلہ بن چکا ہے ۔ آج تک اگر بھارت اپنے اس موقف پر اٹکا ہوا ہے کہ کشمیر اس کا اٹوٹ انگ ہے اور بھارت کے ساتھ اس کا الحاق آئینی ہے تو پاکستان بھی اپنے مضبوط موقف کو بار بار دہرا تا رہا ہے کہ کشمیر اس کی شہ رگ ہے ۔ایسی صورت میں کشمیر کا حل کیسے نکل سکتا ہے ؟ میں سمجھتا ہوں کہ دونوں ملکوں کو اپنے اپنے موقف میں نرمی پیدا کرنی چاہیے۔ ایک دوسرے کی مشکلات کا خیال کرتے ہوئے ’’کچھ لوکچھ دو‘‘ کی پالیسی ہی سے یہ معاملہ طے ہوسکتا ہے۔ بھارت کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اٹوٹ انگ کا بے سرا راگ نہ الاپے اور پاکستان کو بھی چاہیے کہ وہ بھی اپنے موقف میں کچھ نرمی پیدا کرے۔ دونوں ملکوں کے حکمران اپنے عوام کے ذہنوں کو بے جا خدشات سے پاک کریں کیونکہ دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے بارے میں غلط رخ اختیار کیا ہوا ہے۔میاں نوازشریف نے پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات بہتر بنانے کے لیے جن اقدامات کا اعلان کیا ہے ان کا مقصد یہ ہے کہ جنوبی ایشیا میں حقیقی امن اور سلامتی کا دور دورہ ہو اور کشمیر سمیت تمام مسائل کے حل کے لیے اپنی کوششوں کا عملی آغاز کیا جاسکے۔ یہی وجہ ہے کہ ناروے کے وزیر خارجہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں یا کردیئے گئے ہیں کہ یہ ایک مثبت قدم ہے، مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے دونوں ملکوں میں وسیع اتفاق رائے موجود ہے۔ انہوں نے یہ بات بھی واضح کی کہ کشمیر ایک بڑا مسئلہ ہے اور اس مسئلے کے مختلف پہلو ہیں۔ یہ کشمیریوں ، پاکستان اور بھارت حتیٰ کہ خطے کو بھی متاثر کررہا ہے۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ 2014ء کے بعد افغانستان اور پاکستان میں برسرپیکار گروپ مقبوضہ کشمیر کا رُخ کرسکتے ہیں۔ گزشتہ 65برس سے پاکستان اور بھارت لڑتے آئے ہیں جس کی بنیادی وجہ مسئلہ کشمیر بتائی جاتی ہے۔ کشمیر کے عوام کو بھی دوسرے ملکوں کے عوام کی طرح خوشحالی اور امن کی ضرورت ہے اس لیے دونوں ملکوں کو یہ محسوس کرنا چاہیے کہ کشمیر کے مسئلے کی وجہ سے اس پورے خطے میں زبردست کشیدگی پائی جاتی ہے۔ اس کشیدگی کے ہوتے ہوئے پاکستان اور بھارت کے مابین زندگی کے کسی بھی شعبے میں حقیقی تعاون محال ہوکر رہ گیا ہے۔ دونوں ملکوں میں دولت، وقت اور توانائی ایک دوسرے کے خلاف پروپیگنڈے پر ضائع ہورہی ہے یا کی جارہی ہے۔ اس سے یہ ضرور ہوا ہے کہ دونوں ملکوں میں کچھ ایسے عناصر اور ادارے پیدا ہوگئے ہیں جن کا روزگار، مسئلہ کشمیر کو جوں کا توں رکھنے سے ہی جاری رہ سکتا ہے ورنہ بھارت اور پاکستان کے عوام کے درمیان کوئی جھگڑا نہیں ۔ عوام کی غالب اکثریت پاک وہند کے درمیان مفاہمت اور دوستی چاہتی ہے اور تمام حل طلب مسائل جمہوری طریقوں اور پرامن بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی خواہشمند ہے جسے اب تک نظرانداز کیا جاتا رہا ہے، مگر اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس خواہش کو زیادہ دیر تک نظرانداز نہیں کیا جاسکے گا۔ میں نے کہیں پڑھا ہے کہ بعض اوقات شدید نفرت بھی دوانسانوں یا گروہوں کو ایک دوسرے کے قریب کردیتی ہے۔ کیا میرا سمجھنا غلط ہے؟ میں بھی سوچتا ہوں آپ بھی سوچیے۔ … تم بھی اپنا محاسبہ کرلو وقت ایک بے مثال درپن ہے

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں