ملائیشیا کے سابق وزیراعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد نے ملائیشیا کے مسلمان دانشوروں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین میں مسلمانوں کے قتل کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ کمزور ہیں۔ ان کے دوست طاقتور نہیں ۔ایک بھی مسلمان ملک ایسا نہیں جو بڑی طاقت ہو ۔ایسے میں جب تک مسلمانوں میں اتحاد نہیں ہوگا یہ مصائب جاری رہیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مسلمانوں کا ایک طبقہ جہاد کے بہانے تلاش کرتا رہتا ہے۔ انہیں اس بات سے غرض نہیں ہوتی کہ جہاد کا مذہبی جواز ہے یا نہیں۔ ان کے لیے شہادت اہم ہے حالانکہ ان کی شہادت سے مسلمان امہ کی کوششوں کو نقصان پہنچا۔ قرآن مجید میں اسلامی جہاد کا لفظ تین مواقع کے لیے استعمال کیا گیا ہے: استقامت، دعوتی جدوجہد اور قتال فی سبیل اللہ۔ جہاد کے معنی ہیں بھرپور کوشش کرنا، پوری طاقت صرف کر دینا۔ یہ لفظ عمومی استعمال میں ایسے موقع کے لیے بولا جاتا ہے جب کسی مقصد کے حصول کے لیے اپنی ساری کوششیں لگا دی جائیں۔ قرآن میں یہ لفظ بہت زور لگا کر قسم کھانے یعنی اللہ کے لیے مشقتیں جھیلنے اور محنت کی کمائی کے لیے استعمال ہوا ہے۔ انہی استعمالات سے اسلامی جہاد یا جہاد فی سبیل اللہ کا صحیح مطلب سمجھا جاسکتا ہے۔ یہاں میں ایک واقعہ بیان کرنا چاہوں گا۔ ایک ریٹائرڈ جنرل کو جہاد کا بے حد شوق ہے اور اسی شوق کے حوالے سے دوست انہیں ’جہادی جنرل ‘کے نام سے پکارتے ہیں۔ ان سے پاکستان میں ملاقات ہوئی۔ کشمیر کے حوالے سے فرمانے لگے :’’اب ہم اپنی طاقت کو استعمال کرکے اپنا مسئلہ حل کریں گے۔‘‘ میں نے کہا اس قسم کے الفاظ محض الفاظ ہیں جن کے کوئی معنی نہیں کیونکہ طاقت کے استعمال سے پہلے اس کے استعمال کی صلاحیت درکار ہوتی ہے اور وہ ہمارے (یا آپ کے) اندر موجود نہیں۔ کوئی عملی منصوبہ پہلے ایک موافق زمین چاہتا ہے۔ موجودہ حالات میں سب سے پہلا کام یہ ہے کہ مسلمانوں میں آپس کی لڑائی ختم کرکے اتحاد پیدا ہو۔ جہالت کی جگہ تعلیم بڑھے۔ جذباتیت کی جگہ حقیقت پسندی آئے، انتشار کی جگہ یکسوئی اور اطاعت کا جذبہ پیدا ہو۔ بے صبری کے بجائے لوگوں میں برداشت کا مادہ پیدا ہو۔ یہ تمام چیزیں جب قوم کے اندر ایک خاص درجہ میں آجائیں تو اس کے بعد ہی کوئی عملی منصوبہ کامیاب ہوسکتا ہے۔ ضروری حد تک یہ اوصاف پیدا کیے بغیر عملی اقدام کا منصوبہ بنانا ایسا ہی ہے جیسے پل بننے سے پہلے ٹریفک کھول دینا۔ پھر میں نے انہیں ایک حدیث سنائی ۔حضرت حذیفہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا، ’’کسی مسلمان کے لیے مناسب نہیں کہ وہ اپنے آپ کو ذلیل کرے‘‘۔ پوچھا گیا کہ ’’کوئی شخص کیسے اپنے آپ کو ذلیل کرے گا‘‘۔ فرمایا کہ ’’وہ ایسی بلا کا سامنا کرے جس سے وہ مقابلے کی طاقت نہ رکھتا ہو۔‘‘ اس حدیث رسولؐ سے اسلامی زندگی کا ایک اہم اصول معلوم ہوتا ہے کہ اجتماعی زندگی میں جب کسی کی طرف سے کوئی بلا یا کوئی ناپسندیدہ صورتحال پیش آئے تو اس وقت یہ درست نہیں کہ آدمی بھڑک کر صاحب بلا سے ٹکرا جائے ،اس کو سوچ سمجھ کر یہ طے کرنا چاہیے کہ دو ممکن راستوں میں سے کونسا راستہ اس کے لیے مناسب ہے۔ پہلی صورت یہ ہے کہ آدمی محسوس کرے کہ اس کے پاس اتنی قوت ہے کہ وہ کامیابی سے مقابلہ کرکے زیادتی کرنے والوں کو مجبور کرسکتا ہے کہ وہ اپنی زیادتی سے باز آجائیں۔ اگر ایسا ہو تو آدمی کو چاہیے کہ وہ جم کر مقابلہ کرے کہ فساد ختم ہو اور اپنے حقوق حاصل ہوجائیں یا اصلاح کی حالت قائم ہوجائے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ ٹھنڈے دل سے غور و فکر کے بعد آدمی اس نتیجہ پر پہنچے کہ دونوں فریقوں میں طاقت کا تناسب غیر متوازن ہے۔ حالات ایسے ہیں کہ اگر مقابلہ آرائی کا طریقہ اختیار کیا گیا تو برعکس نتیجہ نکلے گا اور چھوٹا نقصان زیادہ بڑا نقصان بن جائے گا ۔اگر ایسا ہو تولازم ہے کہ آدمی صبر و اعراض کا طریقہ اختیار کرے اور صاحبِ بلا سے نہ الجھے۔ مزید یہ کہ صبرو اعراض کا مطلب بزدلی نہیں بلکہ وقفہ تیاری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اپنے وقت اور اپنی طاقت کو ٹکرائو سے بچا کر مزید تیاری میں لگائے۔ وہ اپنے آپ کو زیادہ مستحکم بنانے کے کی تدبیر کرے کہ آئندہ کوئی شخص اس کے خلاف زیادتی کی ہمت نہ کرے اور اگر کوئی زیادتی کی کارروائی کرے تو آدمی کے پاس اُس کے توڑ کے لیے کافی طاقت موجود ہو ۔ کبھی آگے بڑھنا نتیجہ کے اعتبار سے پیچھے ہٹنا ہوتا ہے اور کبھی پیچھے ہٹنا نتیجہ کے اعتبار سے آگے بڑھ جانا ہوتا ہے۔ آج آپ کسی بھی مسلم لیڈر سے ملیے، کسی مسلم ادارہ میں جایئے ،ہر ایک آپ کو اپنے کارناموں کی لمبی فہرست بتائے گا۔ہمارا ہر لیڈر اور ہمارا ہر ادارہ اپنے بیان کے مطابق عظیم الشان کارنامے انجام دے رہا ہے، مگر ان کارناموں کو ان کی مجموعی صورت میں دیکھنا چاہیں تو وہ کہیں نظر نہیں آتے۔ افراد کی مجموعی صورت ہی کا نام اسلام یا قوتِ اسلام ہے مگر کیسی عجیب بات ہے کہ مختلف افراد الگ الگ فتوحات کے جھنڈے لہرا رہے ہیں اور مسلمان ساری دنیا میں مغلوب ہیں۔ ملت کے افراد الگ الگ کامیابیوں کے مینار کھڑے کررہے ہیں مگر ملت ناکامی کی پستی میں پڑی ہوئی ہے۔ اس عجیب و غریب تضاد کی وجہ کیا ہے؟ وجہ بے حد سادہ ہے کہ لوگوں نے اپنی قیادت کے کاروبار پر ملت اسلام کا لیبل لگا رکھا ہے۔ اپنی ذاتی تجارت کو اسلام کا نام دے رکھا ہے۔ ایسی حالت میں ان کی سرگرمیوں کے نتائج اسلام یا ملت اسلام کی سطح پر کیونکر نظر آئیں گے کہ اتحاد کے لیے سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے وہ شخصی قربانی ہے ۔جس گروہ کے افراد میں یہ طاقت ہو کہ وہ اپنے شخصی تقاضوں کو اجتماع کی خاطر دبا سکیں ،ان میں اتحاد قائم ہو کر رہتا ہے۔کامیاب وہی ہیں جو کوئی بڑا کام کرتے ہیں ۔مسلمان اپنی الٹی جدوجہد میں ایک صدی ضائع کر چکے ہیں۔ اگر وہ مزید ایک ہزار سال تک الٹی کوشش جاری رکھیں گے تو انہیں کچھ ملنے والا نہیں، جتنے محروم وہ آج ہیں اتنے ہی محرو وہ ایک ہزار سال بعد بھی رہیں گے۔ داغ چھُوٹا نہیں یہ کس کا لہو ہے قاتل ہاتھ بھی دکھ گئے دامن ترا دھوتے دھوتے!