ترکی کے نائب وزیراعظم نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا ہے کہ استنبول اور انقرہ میں جاری مظاہروں کو روکنے کے لیے پولیس ناکافی ہے اس لیے ترکی کے بڑے شہروں میں فوج کو طلب کیا جا سکتا ہے۔ وارننگ دینے کی نائب وزیراعظم کو ضرورت اس لیے پیش آئی کہ استنبول میں وزیراعظم رجب طیب ایردوان کی ریلی کے بعد ایک مرتبہ پھر پولیس اور مظاہرین میں شدید جھڑپوں کا آغاز ہو گیا ہے۔ وزیراعظم کی وضاحت کے باوجود مظاہرین نے جھکنے سے نہ صرف انکار کردیا ہے بلکہ ترکی میں ورکرز یونینوں نے حکومت مخالف مظاہرین پر پولیس کی طرف سے تشدد کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے سوموار کو ایک روزہ ہڑتال بھی کر ڈالی۔ پولیس اور حکومت کے خلاف غم و غصہ کے اظہار اور احتجاج کرنے والے مظاہرین کے درمیان تازہ جھڑپوں کے حوالے سے استنبول میں ترکی کی پولیس لگ بھگ 500 لوگوں کو گرفتار کر چکی ہے۔ میرے خیال میں وزیراعظم رجب طیب ایردوان‘ جنہیں اقتدار میں آئے 11 برس سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے‘ سے عوام مایوس ہو چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پورے ملک میں مظاہروں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ 31 مئی کے بعد سے شروع ہونے والے مظاہروں اور جھڑپوں میں اب تک پانچ ہزار سے زائد خواتین و حضرات زخمی اور چار افراد مارے جا چکے ہیں۔ استنبول کے معروف ’’تقسیم اسکوائر‘‘ سے شروع ہونے والے یہ مظاہرے ہی ہیں کہ جن کی وجہ سے آج یہ اسکوائر دنیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ پولیس کا بے دریغ استعمال بھی مظاہرین کے غصے میں شدت پیدا کرنے کا باعث بنا۔ یہی وجہ ہے کہ ہالینڈ کے ایک روزنامے نے لکھا ہے ’’اس چنگاری سے آگ کے شعلے بلند نہیں ہو سکتے تھے اگر اسے بھڑکانے کے لیے پائوڈر کا استعمال نہ کیا جاتا‘‘۔ تجزیہ نگاروں کے خیال میں (یہ تجزیہ نگار میں بھی ہو سکتا ہوں) سات کروڑ سے زائد آبادی والے ملک ترکی میں مذہب اور دنیا یا مذہب اور سیاست کے درمیان تصادم کا آغاز ہو چکا ہے۔ یہ مظاہرے اور ہنگامے اس وقت شروع ہوئے تھے جب حکومت نے استنبول میں ایک عوامی باغ کی جگہ سرمایہ دار سیاست دانوں کے لیے ایک شاپنگ سنٹر کی تعمیر کا منصوبہ شروع کرنا چاہا۔ یہ مظاہرے محض درختوں کا قتل عام روکنے کے لیے ہی نہ تھے بلکہ یہ وہ لاوا تھا جو گزشتہ دس برس سے عوام کے ذہنوں میں اُبل رہا تھا۔ تین سال قبل ترکی میں سیکولر نظام کے حامیوں نے کروڑوں کی تعداد میں اکھٹے ہو کر ایردوان حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے تھے۔ ترکی میں سیکولر آبادی کی ایک واضح اکثریت ہے۔ ان مظاہروں سے خطاب کرتے ہوئے سیکولر رہنمائوں نے یہ بات ایک سے زیادہ مرتبہ کہی کہ ’’ترکی ایک سیکولر ملک ہے اور سیکولر ہی رہے گا‘ موجودہ حکومت جدید ترکی کے بانی اتاترک اور اس کے نظریات کی دشمن ہے اور یہ ترکی کو ایامِ جہالت میں واپس لے جانا چاہتی ہے جو ترک عوام کبھی نہ ہونے دیں گے‘‘۔ رجب طیب ایردوان کی پارٹی ’’جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی‘‘ (اے کے پی) کمال اتاترک کے نقش قدم پر چلنے والی پارٹیوں کو کمزور کرنا چاہتی ہے اور ان کی وراثت کو غصب کرنا چاہتی ہے۔ مغربی ممالک اور مشرق وسطیٰ کے تجزیہ کار ترکی میں ہونے والے حالیہ مظاہروں کو اس ملک کی ’’بہارِ عرب‘‘ قرار دے رہے ہیں اور تقسیم اسکوائر کا موازنہ مصر کے تحریر اسکوائر سے کر رہے ہیں‘ جہاں سے شروع ہونے والی عربوں کی عوامی بغاوت نے نہ صرف لگ بھگ آدھی صدی پر محیط مصر پر حکمرانی کرنے والے حسنی مبارک کا تختہ پلٹ دیا بلکہ عرب ممالک کے باقی آمروں کی نیندیں بھی اڑا دیں۔ دنیا یہ بات بخوبی جانتی ہے کہ کمال پاشا اتاترک نے جدید ترکی کی بنیاد رکھنے میں اہم کردار ادا کیا اور بے حد اہم اقدامات کیے۔ انہوں نے ترکی میں جدید اصلاحات کو عملی جامہ پہنایا اور ایک ’’مرد بیمار‘‘ ترکی کو ترقی کی راہ پر ڈال دیا۔ میرے حساب سے حالیہ ہنگامے صرف ایک پارک کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ ترکی کے اس سماجی‘ ثقافتی اور سیاسی ڈھانچہ کے خلاف ہیں جو پچھلی دو دہائیوں سے ایردوان کی اسلام پسند حکومت‘ سیکولر اتاترک کی کوششوں سے تشکیل پا چکا ہے۔ ترکی ایک سیکولر مسلم ریاست ہے۔ وہ ترکی جس کی مٹی اور روح میں سیکولرازم رچا بسا ہے۔ کمال اتاترک کی موت کے 75 سال کے بعد سیکولرازم اور قوم پرستی کی بنیاد پر قائم ملک کو دوبارہ مذہب کے رنگ میں رنگنے کی تمام کوششیں بے سود ثابت ہو رہی ہیں۔ یہ لامتناہی مظاہرے میری اس بات کی گواہ ہیں۔ یہ صرف میری یا میرے جیسے لوگوں ہی کی آواز نہیں بلکہ سیکولرازم کے محافظین میں دستور‘ آئین‘ عدلیہ‘ میڈیا‘ سیاستدان اور مسلح افواج بھی شامل ہے۔ ترکی عرب خطہ اور وسطی ایشیا میں بڑی اقتصادی طاقت ہے جو مضبوط جمہوری سیکولر نظام کا حامل ملک ہے۔ اس کا سیکولر سیاسی نظام بخوبی جانتا ہے کہ اپنے مفادات پر کس طرح پہنچا جا سکتا ہے جبکہ ترکی کی حکمران پارٹی APK اپنے آپ کو ’’نیک و صالح‘‘ لوگوں کا گروہ قرار دیتی ہے۔ میں یہ بات پوری دیانتداری سے کہتا ہوں کہ اگر یورپ ترکی کی سیکولرازم کی مدد کو نہ آیا تو ترکی کے مقدر میں بنیاد پرستی‘ انتہا پسندی اور بے مہار قوم پرستی کی آماجگاہ لکھا ہوا صاف پڑھا جا سکتا ہے۔ ترکی کا لفظ لاطینی زبان سے نکلا ہے جسے ’’ترشیا‘‘ کہا جاتا ہے اور اس کے معنی ’’مضبوطی‘‘ کے ہیں۔ مصطفی کمال پاشا اتاترک موجودہ ترکی کا پہلا حکمران تھا جس نے 625 سالہ خلافت اسلامیہ کے نظام کو ختم کرتے ہوئے جدید ترکی کی بنیاد رکھی اور ملک کو سیکولرازم کی راہ پر گامزن کیا۔ جنگ عظیم اول کے بعد عثمانی دور کا زوال ہوا اور بیسویں صدی کے آغاز (1922ء) میں بالآخر خلافت عثمانیہ کو ختم کردیا گیا۔ خلافت کو مسلمانوں کے نام نہاد اتحاد کا نشان سمجھا جاتا تھا جو کہ تاریخی حقائق کے قطعی برعکس ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں نے مغلیہ حکومت کے زوال کے بعد عثمانی خلیفہ استنبول کا نام اپنے خطبوں میں لینا شروع کردیا تھا۔ ہندوستانی مسلمانوں کی ترکی سے خاص محبت اور تعلق ہی کی وجہ سے 1857ء کی جنگ آزادی میں خلافت عثمانیہ کے شیخ السلام کی طرف سے ہندوستان میں انگریزی حکومت کی حمایت میں فتویٰ جاری کردیا گیا تھا جس کے نتیجہ میں ہندوستانی مسلمانوں نے انگریز کے خلاف جنگ آزادی سے ہاتھ کھینچ لیا۔ ترکی کی سرحدیں آٹھ ملکوں سے ملتی ہیں جن میں بلغاریہ‘ جارجیا‘ ایران‘ یونان‘ آرمینیا‘ آذربائیجان‘ عراق و شام شامل ہیں۔ اگر امریکہ کو بھی شامل کر لیا جائے جو کہ سب ملکوں کا ہمسایہ ہونے کا دعویٰ دار ہے تو پھر نو ممالک ایسے ہیں جن کی سرحدیں ترکی سے ملتی ہیں۔ میرے حساب سے جدید اور ترقی پذیر مسلم ممالک کے لیے ترکی ایک مثالی ملک کی حیثیت رکھتا ہے اور مسلم جمہوریت کی سیاست کو ایک نئی سمت دینے کے لیے سیکولر ترکی ایک بہترین درس گاہ ہے۔ بڑا شور تھا جب سماعت گئی بڑی بھیڑ تھی جب اکیلے ہوئے