غربت‘ بھوک اور موت

جرمنی کے دارالحکومت برلن میں قائم دنیا کی آبادی سے متعلق فائونڈیشن نے اقوام متحدہ کی تازہ ترین پیش گوئی پر مشتمل ایک رپورٹ شائع کی ہے اس میں2100 سال تک دنیا کی آبادی کی صورتحال کا احاطہ کیا گیا ہے جو اہل دنیا اور ’’زمینداروں‘‘ کیلئے کوئی خاص اطمینان بخش نہیں ہے، خام مال کی کمی، زمینی درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ اور دنیا کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اہل دنیا کیلئے کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔ رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ رواں سال میں دنیا کی آبادی سات (7)ارب تک پہنچنے کی امید ہے۔ میری معلومات کے مطابق ہر سیکنڈ دنیا کی آبادی میں 258 نفوس کا اضافہ ہو رہاہے ۔ یعنی ایک سیکنڈ میں دنیا بھر میں 258 بچے پیدا ہورہے ہیں، میرا مطلب ہے ایک گھنٹے میںدنیا کی آبادی میںدو لاکھ اٹھائیس ہزار ایک سو پچپن افراد کا اضافہ ہو رہا ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ ایک سال میں دنیا میں آٹھ کروڑ تیس لاکھ افراد مزید شامل ہو جاتے ہیں۔ اسے آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ دنیا بھر میں ہر سال پاکستان کی لگ بھگ آدھی آبادی کا اضافہ ہورہا ہے یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی وثوق سے نہیں کہہ سکتا کہ بڑھتی ہوئی دنیا کی آبادی کے انسانی طرز زندگی پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔ اگر آج دنیا کے تمام افراد ترقی پذیر ممالک کے درمیانی طبقے کی طرح زندگی بسر کریں تو ہمیںوسائل کے حصول کیلئے ایسی ہی ایک نئی زمین اور خطہ ارض درکارہوگا۔ 1950ء سے لے کر 1960ء کے عشرے تک دنیا بھر میں بچوں کی اوسط ’’پیداوار‘‘ نصف ہوگئی تھی یعنی پانچ بچوںسے کم ہو کر اڑھائی (2.5) رہ گئی تھی اور یہ فیملی پلاننگ کا نتیجہ تھا اس وقت جو عالمی آبادی ہے وہ دراصل اس شعبے میں ہونے والے ترقی اور آبادی میں بڑھتے ہوئے بے تحاشہ اضافے پر قابو پانے کیلئے کیے جانے والے اقدامات کا نتیجہ ہے ورنہ دنیا کی آبادی موجودہ سطح سے کہیں زیادہ ہوسکتی تھی تاہم اعدادوشمار کے مطابق دنیا کی آبادی 2025ء تک نو ارب تک پہنچ جائے گی۔ غریب ممالک جن کی آبادی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اگر وہاں کی صورتحال میں بہتری نہ آئی اور آبادی پر قابو پانا مشکل ہو گیا تو یہ زمین تنگ سے تنگ ہوتی جائے گی اور میرے حساب سے وہاں کی صورتحال پر قابو پانا بہت مشکل ہے ان معاشروں میں مستقبل میں بھی بچوں کی پیدائش کی شرح میں اضافہ ہوتا رہے گا اور اگر دنیا بھر میں بچوں کی پیدائش کی موجودہ شرح برقرار رہی تو اس صدی کے اواخر تک خطہ ارض پر انسانوں کی تعداد 27 ارب ہو جائے گی جس کا سیدھا سادا مفہوم یہ ہے کہ موجودہ آبادی سے چار گنا زیادہ۔ محض نائیجیریا کی آبادی دو ارب سے تجاوز کرجائے گی جبکہ جرمنی اور ہالینڈ کی آبادی نصف ہوجائے گی اور اسی طرح دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک چین میں آبادی کم ہو کر پچاس کروڑ رہ جائے گی۔ اب جہاں چند ہی برس میں دنیا کی آبادی 8 ارب ہونے کو ہے وہاں دو عشروںمیں خوراک کی قیمت دوگنی ہونے کا خدشہ ہے اگر عالمی ماہرین اور رہنمائوں نے دنیا میں خوراک اور خوردونوش کے نظام کی اصلاح کیلئے اقدامات نہ کیے تو بیس سال میں کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیںدوگنی ہو جائیں گی یعنی 2030ء تک اہم فصلوں کی اوسط قیمت میں ایک سو اسی (180) فیصد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس اضافے میں ماحولیاتی تبدیلی کے علاوہ آبادی کا اضافہ بھی شامل ہے۔ ماہرین کی رائے میں اگر ہم زمین کی ماحولیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے دبائو، خوراک کی بڑھتی قیمتوں اور زمین، پانی و توانائی کی کمی سے نمٹنا چاہتے ہیں تو خوراک کے نظام کی اصلاح اور تنظیم نو ضروری ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق شمالی افریقہ کو قحط کے باعث خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہے، عالمی بنک نے بھی خبردار کیا ہے کہ خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتیں لاکھوں افراد کو غربت کی جانب دھکیل رہی ہے۔ اس سے بالخصوص خواتین اور بچے شدیدمتاثر ہورہے ہیں دنیا میں ہر ساتواں فرد روزانہ بھوک کا شکار ہو رہا ہے جبکہ دنیا ہر ایک کو خوراک مہیا کرنے کی طاقت اور اہلیت رکھتی ہے لیکن اس بات میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں کہ موسم میں ہونے والی تبدیلیوں سمیت اور خام مال میں کمی آنے والے عشروںمیں خوراک کی قیمتوں میں اضافے کا سبب بنیں گے۔ ایک خبر جو خطہ ارض پر رہنے والوں کیلئے خوشی کا باعث بن سکتی ہے یہ ہے کہ 1960ء سے 1999ء تک دنیا کی آبادی کے مقابلے میں خوراک کی پیداوار میںاضافہ ہوا جبکہ دنیا کی آبادی 3ارب سے بڑھ کر چھ ارب ہوگئی اور گزشتہ سال 31اکتوبر کو جو پہلا بچہ پیدا ہوا اس کی آمد سے دنیا کی آبادی سات ارب ہوگئی۔ جبکہ اس سے قبل چھ اربویں بچے کا خیر مقدم اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے کیا تھا یہ بچہ 12 اکتوبر 1999ء کو بوسنیا میں پیدا ہوا تھااس طرح ایسے بچہ کی‘ جس کی آمد کے ساتھ ہی دنیا کی آبادی آٹھ ارب ہو جائے گی‘ پیدائش 15 جون 2025ء کو متوقع ہے جہاں دنیا کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے‘ وہاںاس صدی کے اختتام تک مسلمانوں کی آبادی دنیا بھرکی نصف آبادی سے زیادہ ہو جائے گی۔ مسلم امہ اس بات پر ہی پھولی نہیں سماتی کہ دین اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے جبکہ ان کی تعلیم، ٹیکنالوجی اور سائنس کا یہ عالم ہے کہ عرب دنیا میں فی باشندہ کتاب کا تناسب ہر بارہ ہزار افراد کیلئے ایک کتاب ہے۔ صرف سعودی عرب میں تمباکو نوشی کرنیوالے ہر سال 5 ارب ریال کا تمباکو پی جاتے ہیں جس کا وزن چالیس ہزار ٹن ہوتا ہے جبکہ یہ رقم سعودی عرب کی طرف سے چاول درآمد کرنے کی رقم کے برابر ہے۔ مسلمان ممالک کو چاہیے کہ وہ خوراک کی پیداوار اور منڈیوں کے نظام کو بہتر بنائیں‘ نئے قوانین وضع کریں اور اس بات کو یقینی بنائیںکہ کوئی غریب بھوکا نہ رہے کہ غریب آدمی مرنے سے نہیںبھوکا مرنے سے ڈرتا ہے۔ میں نے شاید غلط سنایا پڑھا تھا کہ کہ ہرانسان کو مناسب سمجھ بوجھ یا عقل سلیم اس لئے دی گئی کہ وہ اپنے فرائض زندگی یا دنیاوی معاملات کو ان کی روشنی میںحل کرے…!

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں