دو ملکوں میں بٹے ہوئے ایک جیسے لوگ

ہماری تاریخ کے سیاہ ابواب میں اضافے پر اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ حکمرانوں کی پیشانی کے داغوں کی تعداد بڑھتی ہی چلی جارہی ہے اور یہ بات پوری قوم کیلئے باعث ندامت ہے کہ بھارت کی آزادی کی عمر بھی اتنی ہے جتنی مملکت خداداد کی جبکہ وہاں پر رنگ، مذہب، نسل، قوم، زبان، ثقافت غرض ہر رنگ کی اقلیتیں رہائش پذیر ہیں لیکن وہاں پر ریاست کے تمام ادارے، انسٹیٹیوٹ اور سوسائٹیاں اپنے اپنے دائرہ کار میں خوش اسلوبی سے فرائض سر انجام دیتی ہیں۔ اگر ہم پاکستان کے ساتھ آزاد ہونے والے بھارت کا جائزہ لیں تو یہ دکھائی دیتا ہے کہ دنیا کی صف اول کی جمہوریت نے جمہوریت ہی کو اولین ترجیح بنایا اور یہ یونہی نہیں ہوگیا۔ اس نے پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے (جس پر کئی حملے بھی ہوئے) کبھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ کبھی نظریۂ ضرورت کو ہتھیار نہیں بنایا۔ کبھی شب خون کی سازش نہیں کی۔ چنانچہ آج دنیا نہ صرف اس کو سب سے بڑی جمہوریت تسلیم کرتی ہے بلکہ اس کے ہر موقف کی حمایت بھی کرتی ہے۔ دوسری طرف ہم ہیں کہ اپنے ہی عوام کو غلام بنائے بیٹھے ہیں۔ ہمارے ہاں وقت اور ضرورت کے تحت نظریے تخلیق ہوتے ہیں اور پھر ان نظریوں کی سچائی اور صداقت کو ثابت کرنے کیلئے مزید نظریے وجود میں آتے رہتے ہیں۔ جن لوگوں نے غلامی کی زنجیروں میں جنم لیا ہو وہ ایک آزاد ملک کی محبت کو محسوس نہیں کرسکتے، سو آج ہم تنزلی سے آنکھیں نہیں چرا سکتے۔ بی بی سی نے جو تجزیہ پیش کیا ہے اس میں کہا گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان ہم عمر ہیں۔ ان 65برسوں میں دونوں ملک ایٹمی طاقت بن چکے ہیں لیکن پاکستان اس عرصہ میں تنزلی کی طرف گیا ہے۔ گزشتہ 65سال میں پاکستان کی سیاسی، اقتصادی اور سماجی ترقی کا گراف اوپر سے نیچے اور بھارت کا گراف نیچے سے اوپر گیا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اب سے تیس برس پہلے تک پاکستان کا عام آدمی کہتا تھا کہ خدا کا شکر ہے کہ ہم بھارت کی طرح بھوکے ننگے نہیں ہیں لیکن آج پاکستان کا ہر شہری برملا کہتا ہے کہ ہم بھارت کی جمہوری اور اقتصادی مثال کی طرح کیوں نہیں ہیں؟ بی بی سی کا تجزیہ درست ہے کہ گزشتہ چند برس میں آٹھ سے نو فیصد کی شرح ترقی کے بعد بھارت کی معیشت ایک نئے سنگ میل کی طرف بڑھ رہی ہے۔ ملک کی معیشت آئندہ برس ایک ہزار ارب ڈالرز مالیت کی ہوجائے گی جبکہ رواں مالی سال میں یہ 855 ارب ڈالرز تک پہنچ چکی ہے۔ دنیا میں صرف نو ملک ایسے ہیں جن کی معیشت ایک ہزار ارب ڈالرز یا اس سے زیادہ مالیت کی ہے۔ بھارت چاند پر اپنے خلا باز بھیجنے کی تیاری کررہا ہے لیکن اس سے پہلے وہ بغیر خلا بازوں کے خلائی جہاز چاند پر بھیج رہا ہے۔ خلائی تحقیق کے ادارے اسرو کے مطابق مشن مون کی تیاریاں مکمل ہوچکی ہیں اور پہلا خلائی جہاز آئندہ برس تیس مارچ کو چاند پر بھیجا جائے گا۔ ادھر دنیا کے سب سے بڑے اور قدیم ترین خبر رساں ادارے ’’رائٹرز‘‘ کے بارے میں بی بی سی نے ایک خبر شائع کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ اس ادارے نے سستی خبروں کیلئے بھارتی صحافی ملازم رکھ لیے ہیں کہ بنگلور کے دفتر میں درجنوں افراد نیویارک میں کام کرنے والوں کے مقابل میں بے حد کم اجرت لیتے ہیں مگر کام ان سے زیادہ بہتر اور مستعدی سے کرتے ہیں۔ دنیا کے بڑے بڑے خبر رساں ادارے اور امریکی اخبارات زیادہ اخراجات کے ہاتھوں پریشان ہیں۔ اس پریشانی کے حل کے لیے وہ بھارت کا رخ کررہے ہیں جہاں انہیں انتہائی سستے داموں انگریزی لکھنے اور بولنے والے افراد مل سکتے ہیں۔ مزید برآں ایک اندازے کے مطابق چھ خلیجی ممالک میں تیس لاکھ سے زائد بھارتی تارکین وطن کام کررہے ہیں۔ ان کے بھیجے ہوئے زرمبادلہ اور تجارت سے بھارت کو سالانہ لگ بھگ پندرہ ارب ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے جبکہ ان ممالک کی طرف سے بھارت کے مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری سو ارب ڈالر سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔ اب آئیے دیوار کے اس پار۔ بی بی سی کے ایک تبصرے کے مطابق قرارداد پاکستان یا قرارداد لاہور سنگ مر مر کی سلوں تک محدود ہے۔ بی بی سی نے اپنے بے لاگ تبصرے میں کہا ہے کہ اگر آج کوئی پوچھے کہ قرارداد پاکستان کہاں ہے؟ تو جواب ہوگا سپریم کورٹ کے احاطے میں۔ سیاسی بیوفائیوں کا ملک اب 65سال سے زیادہ کا ہو چکا ہے۔ اس ملک سے کیا عہد یاد دلانے والے لوگ قابل تعزیر ٹھہرائے گئے۔ خان عبدالغفار خان، جی ایم سید، میاں افتخار الدین، شیخ مجیب الرحمان، غوث بخش بزنجو، عطااللہ مینگل، خان عبدالولی خان، خیر بخش مری، عبدالصمد اچکزئی، نسل در نسل غدار کہلاتے رہے۔ اس ملک میں نہ تو غفار خان کو کسی عدالت میں پیش کیا گیا اور نہ ہی جی ایم سید کو جبکہ ساری عمر آزادی کے یہ سپاہی غداری اور بغاوتوں کے الزامات سہتے رہے۔ جرنیلوں کے ساتھ ساتھ، سرداروں اور خان بہادروں کے صاحبزادگان صدر پاکستان کے حلف اٹھاتے رہے یعنی پاکستان کیا بنا تاریخ کی الٹی گنگا بہہ نکلی۔ بی بی سی نے اپنے تبصرے میں کہا ہے کہ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ باوردی صدر کے سامنے باادب چیف جسٹس بیٹھا تھا اور پھر چیف جسٹس کے بالوں کو کھینچنے والی پولیس۔ ملک کا یہ ’’سافٹ امیج‘‘ بھی دنیا بھر میں دیکھا گیا۔ پھر بقول کسے قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان ایک بڑے ذہین وکیل کی طرح کیس جیت کر حاصل کیا۔ وہ خطۂ زمین جو آج لا تعداد مسائل کا شکار ہے۔ یہاں مجھے آنکھوں دیکھا کانوں سنا ایک واقعہ یاد آگیا ہے ، دہلی میں ایک بار جمیل جالبی، نثار فاروقی، باقر مہدی اور شمس الرحمان فاروقی لنچ کے بعد پان کھانے نکلے۔ پان کی مشہور دکان پر پہنچے تو پان والے نے ان مشہور ادیبوں کو پہچان کر خاص طور پر ایک بڑا سا پان پیش کیا تو پاکستان سے گئے جمیل جالبی خوش ہو کر بولے: ماشاء اللہ اتنا بڑا پان، ہمارے پاکستان میں تو دو انگلی کا چندی بھر پان ملتا ہے۔ یہ سن کر باقر مہدی نے جالبی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا: حضرت! آپ کا ملک بھی تو چھوٹا ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں