سوال یہ ہے کہ مسلمان بھی دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کی طرح ایک ہی دن اپنا مذہبی تہوار کیوں نہیں منا سکتے؟ ایک خبر کے مطابق یورپ (بالخصوص برطانیہ) میں مسلم کمیونٹی یا امہ یا ملت یا جو بھی کہہ لیجیے حسب روایت، حسب معمول اور حسب سابق ایک مرتبہ پھر رمضان المبارک کے بعد عید کا چاند دیکھنے پر وقت سے پہلے ہی تقسیم ہو کر رہ گئی ہے۔ کمیونٹی رہنمائوں کی طرف سے دھواں دھار بیانات داغے جارہے ہیں۔ ہر کوئی اپنی بات کو ’’حرف آخر‘‘ سمجھ رہا ہے۔ مرکزی رویت ہلال کمیٹی علمائے دکن نے اعلان کیا ہے کہ جس کسی کو چاند نظر آئے وہ رویت کی صورت میں اطلاع دے تاکہ شرعی شہادت کے بعد اعلان کیا جاسکے۔ انہوں نے کہا ہے کہ رویت ہلال کا مسئلہ دینی اعتبار سے حسّاس ہے، اس لیے رویت کی تصدیق کے بعد صدر مجلس علمائے دکن کا فیصلہ حتمی ہوگا، مسلمان صبرو تحمل سے کام لیں۔ یورپ میں مسلمانوں کی یہ تقسیم تین حصوں پر مشتمل ہے۔ برطانیہ، جرمنی، فرانس (مسلمانوں کی سب سے زیادہ تعداد فرانس میں ہے)۔ ہالینڈ، بیلجیم اور دوسرے یورپی ملکوں میں رہنے والے مسلمان جو سعودی عرب کی ’’پیروی‘‘ کرتے ہیں وہ ایک ہی دن روزہ رکھتے ہیں اور ایک ہی دن عید کی خوشیاں مناتے ہیں جبکہ مراکش، ترکی او رپاکستان کو فالو کرنے والے مسلمانوں کا اپنا الگ سے ایجنڈا ہے جبکہ تیسرا گروپ اہل تشیع کا ہے جو رمضان اور عید کی نوید اپنے فرقہ کے حساب سے دیتے ہیں۔ میرے حساب سے رویت ہلال کا مسئلہ یا وجود قمر کا مسئلہ مسلمانوں کے لیے دنیا بھر میں کوئی نیا یا انوکھا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ اختلافات صدیوں سے ہوتے آ ئے ہیں اور جب تک آبزرویٹری (رصدگاہ) کی مدد نہ لی جائے گی ہوتے رہیں گے، یہاں مجھے ایک بزرجمہرعالم کا فتویٰ یاد آرہا ہے وہ فرماتے ہیں کہ چاند کی ہلالی شکل کی موجودگی شرعی حد کیلئے بہت ضروری ہے آبزرویٹری کا نظام اسی وقت قابل قبول ہے جب وہ شرعی حقوق کو پورا کرے اور شرعی حد کے لیے چاند کی ہلالی شکل میں افق پر موجودگی بے حد ضروری ہے۔ بات حد سے گزر چکی ہے، یورپ میں نئی نسل کنفیوژڈ اور پریشان ہے اور علما ہیں کہ کسی مسئلہ پر اتفاق رائے پیدا نہیں کررہے۔ ننگی آنکھ سے چاند دیکھنے والوں کو شاید یہ معلوم نہیں کہ گرم موسم میں چاند کو دیکھنا ممکن ہی نہیں۔ رویت جیسے آسان مسئلے کو خواہ مخواہ الجھا دیا گیا ہے۔ کوئی مقام جو چاند کے مطلع میں واقع ہے لیکن وہاں چاند نظر نہیں آتا بلکہ کسی دوسرے مقام پر جواسی مطلع میں داخل ہے ۔وہاں چاند نظر آتا ہے تو مطلع کے سارے خطے میں رویت تصور ہوگی۔سائنسی اور فلکیاتی معلومات پر یقین رکھنے والے علما کا کہنا ہے کہ ہمیں چاہیے کہ سائنسی معلومات سے استفادہ کرتے ہوئے عید کا تعین کرنے کیلئے مل بیٹھ کر فیصلہ کریں تاکہ یورپ کے مسلمان ایک ہی دن عید منا سکیں ۔ بعض علمائے کرام نے اپنے بیانات میں یہ بھی کہا ہے کہ عید کی تاریخ کا اعلان قبل از وقت نہیں ہونا چاہیے یا دوسرے ملکوں مثلاً سعودی عرب سے شہادت پر عمل کیا جائے ۔ایسا ممکن نہیں اور اس طریقے سے یہ مسئلہ حل بھی نہیں ہوسکتا کیونکہ ایک غیر مسلم ملک میں رہتے ہوئے ہمارے کئی مخصوص مسائل ہیں، ضروریات ہیں، مثلاً بچوں کے سکول، دفاتر، فیکٹریاں، ہوٹل اور دوسرے اداروں سے پیشگی چھٹی، مسجدوں میں سکیورٹی اور پارکنگ سے متعلق محکمہ پولیس کی پلاننگ، نماز پڑھنے کیلئے مناسب وقت پر عمارتوں کو کرایہ پر حاصل کرنا شامل ہیں اور یہ سب مسائل ’’ننگی آنکھ‘‘ سے چاند دیکھنے سے حل نہیں ہونگے اور پھر اکثر و بیشتر یورپ کا موسم بھی ابر آلود ہونے کی وجہ سے چاند کو چھپائے رکھتا ہے۔ اس لیے حالات، وقت اور موسم کا تقاضا ہے کہ مسلمہ فلکیاتی معلومات، سائنسی اپروچ اور آبزرویٹری حساب کتاب کی مدد سے پہلے سے چاند کی تاریخ کا تعین کر لیا جائے تاکہ عین وقت پر چاند دھوکہ نہ دے جائے۔ فلکیاتی معلومات کی روشنی میں جس تاریخ کو وجود قمر اور امکان رویت ہو دونوں فارمولوں کو مدنظر رکھ کر عید کے دن کا اعلان کیا جائے۔ اس میں مسلم اور غیر مسلم ہونے کی کوئی بندش نہیں ہے۔ جب ہم نماز کے اوقات غیر مسلموں کے بتائے ہوئے اصولوں پر طے کرتے ہیں تو عید کا چاند آبزرویٹری کے کہنے پر کیوں نہیں نکال سکتے؟ ایک بات جو سمجھ میں قطعی آنے والی نہیں، وہ یہ ہے کہ غیر مسلم سورج کے طلوع ہونے اور غروب آفتاب کی اطلاع دے تو برطانیہ اور دوسرے مغربی ملکوں میں بسنے والے تمام مسلمان ایمان لے آتے ہیں لیکن اگر چاند کی اطلاع دے تو علماء اور آئمہ یہ کہہ کر ان کی بات ماننے سے انکار کر دیتے ہیں کہ یہ غیر مسلم ہیں اور غیر مسلم کی شہادت شریعت میں معتبر نہیں۔ برطانیہ اور یورپ میں مسلمانوں نے نمازوں اور روزوں کے جو ٹائم ٹیبل بنا رکھے ہیں ان کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ چاند کے قبل از وقت یا بعد از وقت نمودار ہونے کا اعلان اگر قابل اعتراض ہے تو سورج دیوتا پر اعتراض کیوں نہیں؟ جبکہ سورج کے غروب و طلوع ہونے کا بہت پہلے اعلان کردیا جاتا ہے۔ یورپ کے علمائے دین اور مفتیان شرع متین بتائیں کہ کیا اسلامی اور شرعی نقطہ نظر سے صرف چاند کی اطلاع غیر مسلموں کی زبان ونظر سے دی جائے تو ناجائز ہے یا سورج کے طلوع ہونے یا غروب ہونے پر بھی غیر مسلم کی اطلاع باطل ہے؟ میرے علم کے مطابق برطانیہ اور یورپ کی تمام مساجد غیر مسلم (انگریز، فرانسیسی، ڈچ، جرمن وغیرہ) کی تعمیر کردہ ہیں۔ آبزرویٹری کی رپورٹ کے مطابق غروب آفتاب، طلوع آفتاب اور نمازیوں کی نمازوں کے اوقات استعمال کیے جاتے ہیں۔ اگر غیر مسلموں کی شہادت شرعاً درست نہیں تو پھر روزوں کی طرح نماز بھی اسلام کا ایک اہم رکن ہے۔ ایسی صورتحال میں سورج کے طلوع و غروب ہونے کے اوقات بھی آبزرویٹری سے نہ لیے جائیں نہ ان پر عمل کیا جائے۔ اگر ’’کافروں‘‘ کی بنائی ہوئی آبزرویٹری سے نمازوں کی فال نکالی جاسکتی ہے تو عید کے چاند پر کس بات کا جھگڑا ہے؟ چونکہ میں خدا کا زمین پر نائب ہوں اس لیے خوب سمجھتا ہوں کہ کس بات پر جھگڑا ہے ،مگر یہ بھی سو چیے کہ آپ کے اس اختلاف و تضاد نے نئی نسل کو نہ صرف علما سے بلکہ دین اسلام سے بھی دور کردیا ہے۔ ہوسکے تو میرے اس شعر پر غور کیجیے: ؎ رہبران قوم یوں تو رہبری کرتے رہے پھر بھی ساری قوم یونہی ٹھوکریں کھاتی رہی