ممکن ہے ہمارے حکمران عوام کے ووٹوں کو اپنی شہرت اور مقبولیت خیال کرتے ہوںیا اپنی پارٹی کے لوگوں کی دوڑ بھاگ اور انتخابی مہم کا نتیجہ سمجھتے ہوں ‘ مگر افسوس کہ وہ ووٹ کی حقیقی قدر و قیمت سے بے خبر ہوتے ہیں۔ اُنہیں ووٹ کی اہمیت کا ادراک ہی نہیں۔ حکمرانوں کی یہی ناواقفیت ہی جمہوری حکومت کی بنیادی خرابی بن جاتی ہے۔ عوام کے ووٹوں سے منتخب حکمرانوں کو اس بات کا قطعی احساس نہیں ہوتا کہ ووٹ کاغذ کی پرچیاں نہیں ہوتے اور نہ ہی لوگ محض ان کی مقبولیت کی بنا پر انہیں ووٹ ڈالتے ہیں۔ عوام میں کسی لیڈر یا پارٹی کی پسندیدگی اور ناپسندیدگی ایک حد تک ضرور کام کرتی ہے۔ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ عوام محض کسی لیڈر کی شکل و صورت یا خوبصورتی اور یا اُس کے لباس کی اعلیٰ تراش خراش سے متاثر نہیں ہوتے؛ چنانچہ اگر غور کیا جائے تو رائے دہندگان کے ووٹ ڈالنے کی وجہ کوئی اور ہی ہوگی۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 1970ء میں عوام نے پیپلز پارٹی کو اُس کے منشور یعنی روٹی‘ کپڑا اور مکان کو ووٹ دیئے تھے۔ ہمارے جیسے غریب‘ پسماندہ اور ابتر معاشی حالات کے ملک میں لوگوں کے ووٹ اپنی غربت اور محرومیوں کو دور کرنے کی عرضیاں ہوتے ہیں۔ ایک طبقہ مہنگائی کے خلاف ووٹ ڈال رہا ہوتا ہے تو دوسرا طبقہ آٹے‘ دال اور دو وقت کی روٹی کی عرضی ووٹ کی شکل میں پیش کر رہا ہوتا ہے۔ کوئی بے روزگاری کے خاتمے‘ کوئی ملازمت کے حصول اور کوئی بچوں کی مفت تعلیم کے لیے اور کچھ لوگ کاروبار کی بہتری کے لیے ووٹ ڈال رہے ہوتے ہیں۔ واضح رہے کہ ووٹ ہمیشہ غریب طبقہ کاسٹ کرتا ہے یہی طبقہ ہی اکثریت ہوتا ہے جسے عوام کہا جاتا ہے۔ غریب طبقہ اپنی زندگی کی محرومیوں اور مایوسیوں کو دور کرنے کے لیے ووٹ ڈالتا ہے۔ اپنی بیماری کے علاج کے لیے ووٹ ڈالتا ہے۔ ہر غریب خاندان کا ووٹ ایک کاغذ کی پرچی کی شکل ہیں اس کی آرزئوں‘ اس کی خواہشوں اور اس کی امنگوں کی درخواست ہوتا ہے۔ ہر ووٹ معاشرے میں باعزت زندگی گزارنے کی عرضی ہوتا ہے۔ دکھوں کے مداوے کا خط ہوتا ہے۔ جس خط‘ جس درخواست اور جس عرضی کو ہماری سیاست‘ سیاسی جماعتوں اور سرمایہ داری کے سفاک نظام نے محض ووٹ کی پرچی بنا رکھا ہے۔ کوئی حکمران ووٹ حاصل کرنے کے بعد قوم سے مخاطب ہو کر نہیں کہتا کہ اُسے کیوں ووٹ ڈالے گئے ہیں؟ اس کا تکیہ کلام ہوتا ہے کہ میری پارٹی کو عوام نے بھاری مینڈیٹ دیا ہے۔ انتخابات میں لوگوں کا کام اچھے منشور کو اور اچھے انسان کو ووٹ ڈالنا ہوتا ہے۔ لیکن منتخب ہونے والے اکثر عوام سے کیے وعدے فراموش کر دیتے ہیں۔ اس قسم کی صورتحال میں رائے دہندگان سخت مایوس ہوتے ہیں۔ دنیا میں سب سے بڑا عیب بد عہدی ہوتا ہے۔ کسی کو امید دلا کر ،ناامید کرنا فریب اور ظلم ہے۔ اس کی مثال ملاحظہ ہو کہ ابھی تو میاں نوازشریف کی (ن) لیگ کو ووٹ ڈالنے والوں کے انگوٹھوں پر ووٹ ڈالنے کی سیاہی بھی نہیں اتری کہ حکومت نے ایک ماہ کے عرصے میں بجلی کی قیمت میں 2روپے فی یونٹ ،گیس کی قیمت میں ایک روپیہ پچاسی پیسے ‘ایل پی جی میں پانچ روپے کلو‘ پٹرول کی قیمت میں اڑھائی روپے فی لٹر کا اضافہ کر دیا۔ ہر شے کی قیمت میں اضافہ ہوگیا۔ ڈالر 99روپے 70پیسے سے بڑھ کر ایک سو ایک روپے 20پیسے کا ہوگیا۔ جنرل سیلز ٹیکس میں اضافے کی وجہ سے اس کا اثر ہر ملکی اور غیر ملکی مصنوعات پر پڑا ہے۔ گاڑیاں، موٹرسائیکل، موبائل فون، فریج، صابن، سرف، مشروبات، سگریٹ، دودھ، دہی، روٹی، نان، کپڑے، جوتے، ادویات، سیمنٹ، سبزیاں، پھل، انڈہ، مرغی کا گوشت، بکرے کا گوشت وغیرہ سب کچھ مہنگا ہوگیا ہے۔ستم ملاحظہ ہو کہ زندگی کی ہر اشد ضرورت کی چیز کی قیمت میں ایک ماہ میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ یہاں تک کہ قومی بچت میں بوڑھے لوگوں کا منافع بھی کم کردیا گیا ہے۔ ان حکمرانوں سے پوچھا جانا چاہیے خصوصاً اسحاق ڈار سے کہ کیا لوگوں نے آپ کو اس لیے ووٹ دیا تھا کہ آپ ہر چیز مہنگی کر کے اُن کی زندگی اجیرن کر دیں؟ حتیٰ کہ ان کے بچوں کو دودھ بھی نصیب نہ ہو۔ کسی غریب کو دوائی خریدنے کی بھی ہمت نہ ہو۔ آٹا خریدنے کی سکت بھی نہ رہے۔ (ن) لیگ کو سوچنا چاہیے کہ جن لوگوںنے ان کو ووٹ ڈالے تھے انہوں نے اپنی مصیبتیں کم کرنے کے لیے ان کو منتخب کیا تھا۔ اپنی مشکلیں کم کرنے کے لیے اقتدار میں لائے۔ غریب لوگوں نے اپنے دکھوں کو بڑھانے کے لیے ووٹ نہیں ڈالے تھے۔ لوگوں نے مہنگائی ختم کرنے کے لیے ووٹ ڈالے تھے۔ لوگوں نے روٹی، کپڑا، تعلیم مکان جیسی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے ووٹ ڈالے تھے مگر حکومت نے ان چیزوں کا حصول مزید ناممکن بنا دیا ہے۔ لوگوں کو اور بھی غریب کر دیا ہے۔ اس وقت عوام کی کیفیت کچھ اس شعر کے عین مطابق ہے ؎ ایک رات گزری ہے ایک رات آئی ہے آپ تو یہ کہتے تھے دن نکلنے والا ہے