تاریخ اور ملالہ

پاکستان کی قابل فخر اور مایہ ناز بیٹی ملالہ کے معاملے میں معروف تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی کے ساتھ ایک بار پھر مکالمہ کرنا پڑے گا کہ آیا تاریخ انسانوں کو ہیرو بناتی ہے یا خود انسان اپنے عمل سے تاریخ بناتے ہیں اور تاریخ میں ہیرو کا مقام حاصل کرتے ہیں۔ ڈاکٹر مبارک علی اپنے مکالمۂ تاریخ اور ہیرو پرستی میں تحریر کرتے ہیں کہ اس میں کچھ کلام نہیں کہ کچھ لوگ ہر عہد میں اپنی خداداد ذہنی اور تخلیقی صلاحیتوں کی بنا پر اپنے ماحول میں یا اپنے معاشرے میں ممتاز مقام حاصل کرتے ہیں۔ وہ اپنے اردگرد کے لوگوں سے نمایاں نظر آتے ہیں۔ اس نوع کے ممتاز لوگوں کا تعلق فنون لطیفہ‘ شعرو ادب‘ فکرو فلسفہ‘ روحانیت اور علم و دانش سے ہوتا ہے۔ یعنی لوگ فنکاروں، معماروں اور انشا پردازوں اور مصوروں کو پسند کرتے ہیں۔ اسی طریقے سے ڈاکٹر صاحب تحریر کرتے ہیں کہ تاریخ کے ہر عہد میں اقوام عالم کو اپنی حکمرانی اور اپنی قیادت کے لیے کسی ہیرو کی ضرورت ہوتی ہے۔ لہٰذا تاریخ میں ہیرو کو لوگ اپنے عہد کی ضرورتوں اور خواہشوں اور منصوبوں کا پیکر بنا کر اس کی پرستش کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب اپنے اس تھیسس اور دلائل کی مثال عہد قدیم کے بے شمار ہیروز کے کردار و عمل سے دیتے ہیں۔ ماضی قریب میں وہ اپنے اس نقطۂ نظر کے لیے نپولین بونا پارٹ، مسولینی اور ہٹلر کی مثال دیتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے تاریخی شعور کے مطابق جو اقوام اپنے اجتماعی تخلیقی عمل سے عاری ہوجاتی ہیں‘ جو اپنی ذہنی افتاد کھو دیتی ہیں‘ جن کی زندگی میں مستقبل کا کوئی تصور نہیں ہوتا‘ جن میں زندگی کے اشتراک عمل کا فقدان ہوتا ہے‘ وہ اقوام ایک طرح سے سیاسی اور سماجی طور پر آسیب زدہ ہوجاتی ہیں۔ ایسی اقوام زندگی کی عملی جدوجہد کو چھوڑ کر دعائوں اور دم جھاڑ کرانے کے عمل کی شکار بن جاتی ہیں۔ ایسی اقوام ایسے انسان تلاش کرنے لگ جاتی ہیں جو دم جھاڑ سے ان کے دکھ درد دور کردیں۔ اسی طریقے سے قومیں ایسے جنگجو تلاش کرنے لگ جاتی ہیں جو ان کی خواہشوں کے لیے ان کے دشمنوں کے کشتوں کے پشتے لگا دیں‘ فتوحات حاصل کریں اوران کی مردہ زندگی میں روح پھونک دیں۔ ڈاکٹر صاحب کے مطابق ایک وقت تک تو ان اقوام کے خیالات پروان چڑھتے رہتے ہیں مگر جب ان کے ہیروز اپنے غیر تخلیقی اور غیرانسانی کردار و عمل سے زوال کا شکار بن جاتے ہیں تو وہی اقوام ان کو اپنی تباہی کا مجرم قرار دے کر ماتم کرنے لگ جاتی ہیں۔ نہ تو ان کی کوئی یادگار بنائی جاتی ہے اور نہ ہی ان کا کوئی دن منایا جاتا ہے اس لیے کہ تاریخی طور پر ان کو کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ ڈاکٹر صاحب کی ان باتوں کی روشنی میں جب ہم کمسن ملالہ کا معاملہ دیکھتے ہیں تو ملالہ کی شہرت اور مقبولیت کا ایک دوسری طرح کا تصور سامنے آتا ہے۔ یہاں پر ڈاکٹر صاحب کی بات کی صداقت ایک دوسرے رنگ میں ہمارے سامنے آتی ہے۔ معصوم ملالہ کو گولی مارنے والے اپنی مخصوص ذہنی روش کے مطابق خود کو ہیرو ہی تو خیال کرتے تھے۔ مگر خود میری رائے میں زندگی کے اصل ہیرو قتل نہیں کیا کرتے‘ وہ انسانوں کو موت کے گھاٹ نہیں اتارا کرتے بلکہ انسانوں کو زندگی دیا کرتے ہیں‘ وہ لوگوں کی مدد کیا کرتے ہیں۔ اصل ہیرو انسان دوست ہوتے ہیں۔ انسانیت پرست ہوتے ہیں۔ ہیرو کی بنیادی حقیقت ہی یہ ہوتی ہے کہ وہ دوسروں کا بھلا سوچتا ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ دنیا میں ہر ہیرو دوسروں کا بھلا سوچتے ہوئے یا بھلا کرتے ہوئے ہی موت کے گھاٹ اتارا گیا ہے۔ واضح رہے کہ ہیرو کا ہر قول و فعل اور ہر اقدام بے ضرر ہوا کرتا ہے۔ ہیرو کے کسی بھی عمل سے کسی کا کوئی نقصان نہیں ہوا کرتا۔ ہیرو کا عمل یا اس کی سوچ اجتماعی بھلائی کا تصور رکھتی ہے۔ اس کی شعوری اور لاشعوری سوچ میں اچھائی اور بھلائی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ میں اپنے بیان کیے گئے ہیرو کی وفات کی سند کے لیے کسی تاریخ دان کی گواہی نہیں لائوں گا۔ میں اس معاملے میں ملالہ کی تقریر کو ہی سند کے طور پر پیش کروں گا۔ ملالہ کے وہ الفاظ دہرائوں گا جو اس نے اپنی سولہویں سالگرہ کے موقع پر اقوام متحدہ کے اجلاس میں کہے تھے: ’’میں اقوام متحدہ میں دہشت گردوں کے خلاف بولنے کے لیے نہیں آئی‘ میں یہاں تعلیم کے فروغ کے لیے آئی ہوں۔ میرے پاس اگر طاقت ہوئی تو میں طالبان کے بچوں کو اسکول میں داخل کروا کر ان کو تعلیم یافتہ بنا دوں گی۔ آج کا دن ہر بچے کی تعلیم کا دن ہے۔ دہشت گرد کتاب اور قلم سے خوف زدہ ہیں‘ وہ علم کی طاقت سے ڈرتے ہیں۔ تعلیم کے ذریعے معاشرے میں آنے والی تبدیلی سے ڈرتے ہیں‘‘۔ بظاہر ملالہ بی بی کے یہ مختصر ترین الفاظ پوری دنیا کے بچوں کے لیے خصوصاً پاکستان اور سوات کے بچوں کے لیے علم حاصل کرنے کا پیغام ہیں مگر اس کے یہ مختصر الفاظ ایک تاریخ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ملالہ کا قصور یہ تھا کہ وہ تعلیم حاصل کرنا چاہتی تھی۔ اس کی خواہش تھی کہ اس کی وادی میں لڑکیاں تعلیم حاصل کریں۔ ملالہ کی یہ بے ضرر خواہش شدت پسند بندوق برداروں کے لیے قابل برداشت نہیں تھی۔ گویا ان کی مردانگی کے لیے چیلنج تھی۔ ان کے خودساختہ جہاد کے لیے چیلنج تھی۔ ان چھ چھ فٹ کے افراد میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ ملالہ کی خواہش کی بات کا جواب اپنی کسی بات سے دیتے۔ اس کے پاس بیٹھ کر تبادلہ خیال کرتے۔ اس کی بات بھی سنتے‘ اپنی بات بھی سناتے۔ مگر ایسا نہیں ہوسکتا تھا۔ ملالہ کا موقف قومی نہیں عالمگیر موقف تھا۔ اس پر حملہ کرنے والوں کے مفادات ان کے ذاتی اور گروہی تھی۔ ملالہ کے موقف نے ملالہ کو پوری دنیا کا ہیرو بنا دیا ہے وہ صرف پاکستان کی ہی نہیں پوری دنیا کی ہیرو بن گئی ہے۔ اس پر حملہ کرنے والے ناسمجھ صرف پاکستان کے ہی نہیں پوری دنیا کے دشمن تصور کیے جارہے ہیں۔ خدا کا فرمان ہے کہ ہم تو کھول کھول کر بیان کرتے ہیں مگر افسوس کہ انسان خسارے میں رہا کرتے ہیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں