اکیسویں صدی کا عظیم انسان

معروف چینی مفکر کنفیوشس نے کہا تھا کہ انسان فطری طورپر بڑے انسانوں کے دلدادہ ہوتے ہیں ان کو پسند کرتے ہیں۔ مگر میں اس بات میں صرف اتنا اضافہ کرنا چاہتا ہوں کہ وہ بڑے انسان نیلسن منڈیلا کی طرح کے ہونے چاہئیں۔ کیا ہم میں کوئی نیلسن منڈیلا نہیں بن سکتا۔ اس عجیب سوال کے بعد آج ہم جنوبی افریقہ کے بابائے قوم اور آزادی کی جدوجہد کے عظیم رہنما‘ انسان دوست اور درویش لیڈر کو خراج تحسین پیش کریں گے۔ نیلسن منڈیلا صحیح معنوں میں فخرانسانیت اور فخر قوم انسان ہے۔ ایسے دیش بھگت صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔ وہ اکیسویں صدی کا عظیم انسان ہے۔ منڈیلا جب پیدا ہوا تو اس کے باپ نے اس کا پہلا نام ’’روہلہ لاہلا‘‘ رکھا تھا جس کے معنی ہیں مصیبت کھڑی کرنے والا۔ مگر جب اس کو مسیحی نام نیلسن منڈیلا دیا گیا تو وہ مصیبت جھیلنے والا بن گیا۔ نیلسن منڈیلا کی داستان حیات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ صرف ایک مہم جو کامریڈ ہی نہیں بلکہ اپنے قومی معاملات میں بہت معاملہ فہم اور اپنی سیاسی جماعت افریقن نیشنل کانگرس کا دوراندیش لیڈر بھی ہے۔ بہت دھیمے مزاج کا سیاسی مدبر۔ زندگی کی حقیقتوں سے آگاہ۔ نہ وہ شہرت کا دلدادہ نہ مال و متاع کا طلب گار۔ وہ کسی طرح بھی سیاسی خودکشی کی سعادت حاصل کرنے پر یقین نہیں رکھتا۔ وہ ستائیس سال تک جزیرہ روبن کے جیل خانے میں قید بامشقت کاٹتا رہا۔ اس سے پتھرتوڑنے کی مشقت لی جاتی رہی۔ عمر قید سے بھی زیادہ اتنی طویل قید میں وہ قوم کے لیے افسانوی کردار بن کر اُبھرا۔ قوم کی نئی نسل اس کی شکل سے ہی واقف نہیں تھی۔ لوگ اس کی شکل تک بھول چکے تھے۔ نیلسن منڈیلا کی زندگی کی داستان ہومر کے مشہور ڈرامے ایلیڈ کے ہیرو اوڈیسی کے ساتھ ملتی جلتی ہے جو ایک طویل عرصے تک لاپتہ رہا تھا اور جس کے بارے میں لوک کہانیاں تصنیف ہو گئی تھیں۔ اس طرح منڈیلا بھی اپنی قوم کی لوک داستان بن گیا۔ جنوبی افریقہ پر انگریزوں نے قبضہ کیا تو وہ سیاہ فام افریقنوں سے بدترین قسم کا نسلی امتیاز برتنے لگے۔ حکمرانوں نے اس دھرتی کے بیٹوں کی ہرچیز علیحدہ کررکھی تھی۔ جس ہسپتال میں افریقی بچہ پیدا ہوتا اس کے گیٹ پر لکھا ہوتا تھا۔ ’’صرف افریقنوں کے لیے‘‘ ان کے رہائشی علاقوں‘ ان کے سکولوں اور ان کی ریل گاڑیوں پر بھی ’’صرف افریقنوں کے لیے‘‘ لکھا ہوتا تھا۔ یہ افریقن سفید رنگ کے حکمرانوں کے علاقوں میں نہیں جاسکتے تھے۔ جیسے کہ وہ انسان نہیں کوئی کم تر مخلوق تھے۔ اس طرح کی تاریک زندگی کے عہد اور ماحول میں نیلسن منڈیلا اپنی داستان زندگی میں کہتا ہے کہ مجھے کوئی غیبی اشارہ نہیں ہوا تھا کوئی الہام نہیں ہواتھا۔ کوئی حقیقت آشکار لمحہ مجھ پر پروارد نہیں ہوا تھا بلکہ ہزاروں سبکیوں ، ہزاروں اہانتوں نے مل جل کر میرے اندر اس نظام کے خلاف لڑنے کی خواہش پیدا کردی تھی جس نے میری قوم کو غلام بنا رکھا تھا۔ اس نظام نے مجھے باغی بنادیا تھا اور میں نے اس (نسلی امتیاز) کے خلاف بغاوت کردی۔ میری امیدوں اور آرزوئوں کا مرکز افریقن نیشنل کانگرس تھی جس کے ذریعے تبدیلی لائی جاسکتی تھی۔ منڈیلا کی سیاسی زندگی کا آغاز ایک قانون دان انتھونی لمیڈی کے ان الفاظ سے ہوا کہ ’’افریقہ سیاہ آدمی کا براعظم ہے۔ احساس کمتری آزادی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ مگر وہ اپنی پارٹی کے پیزاندا سے زیادہ متاثر تھا۔ اس کی زندگی کا اصل مشن گوروں کی برتری کا خاتمہ کرنا تھا اور جنوبی افریقہ میں ایک حقیقی قومی جمہوری نظام کا قیام تھا‘‘۔ نیلسن منڈیلا کی بے ریا وابستگی کا اندازہ انتھونی لمیڈی کی اس ایک بات سے ہی ہوجاتا ہے‘ لمیڈی نے اس کی پہلی شادی کے موقعہ پر اس کی دلہن کو کہا تھا کہ ’’تم نے ایک شادی شدہ شخص کے ساتھ شادی کی ہے‘ اس کی شادی اس کی قوم کے ساتھ ہوچکی ہے‘‘۔ منڈیلا نے 1941ء میں قومی سیاست میں حصہ لینا شروع کیا تھا۔ اس وقت جنوبی افریقہ میں انسانی بنیادی حقوق کا کوئی تصور ہی نہیں تھا۔ 1942ء میں وہ افریقن نیشنل کانگریس کا عہد دار بن چکا تھا۔ 1952ء میں اس پر غداری اور بغاوت کے مقدمات بناکر اس کو اس کے 156ساتھیوں سمیت جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔ عدالت میں ان کو ایک لوہے کے سلاخوں والے پنجرے میں لاکرکھڑا کیا جاتا تھا‘ جیسا کہ جنگلی درندوں کو یا جانوروں کو کٹہرے میں لایا جاتا ہے۔ اس پنجرے والے مقدمے کے بعد ان کی جماعت کو خلاف قانون قرار دے کر منڈیلا اور ان کی پارٹی کے کچھ دوسرے لیڈروں کو جنوبی افریقہ کے سمندری جیل خانہ جزیرہ روبن میں ڈال دیا گیا جہاں منڈیلا کی مشقت پتھر توڑنا ہوتی تھی۔ اس جزیرے کی جیل میں 20سال تک اس کا اپنی قوم کے ساتھ کچھ تعلق باقی نہ رہا۔ اُسے باہر کی دنیا کی کچھ خبر ہی نہیں ہوتی تھی۔ ایسے عالم میں ایک انسان کا ذہنی طورپر تندرست رہنا قائدانہ قوت کا عظیم کارنامہ ہے۔ منڈیلا کے بھی بچے تھے ان کا بھی ایک گھرانا تھا۔ ان کی بھی کچھ آرزوئیں تھیں۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ منڈیلا پر کوئی دنیاوی خواہش غلبہ نہ پاسکی۔ منڈیلا نے اپنے صبر واستقلال سے سفید فام حکمرانوں پر ثابت کیا کہ اس کی زندگی کی آخری خواہش اس کی قوم کی آزادی اور خودمختاری ہے۔ اس کی جیل کی صعوبتیں اس کی قوم کی توہین کا احتجاج ہیں۔ نیلسن منڈیلا ظالم حکمرانوں کے سامنے اپنی ذات میں جنوبی افریقہ بن گیا تھا۔ اس نے قید خانے کی مصیبتیں جھیل کر انگریزوں کی نسل پرستی کی منافرت کا پردہ چاک کردیا۔ منڈیلا کا فیصلہ تھا کہ اس کی جدوجہد کا فیصلہ یا تو اس کی موت کرے گی یا اس کی قوم کی آزادی کرے گی۔ ایسے ہی انسان ہوتے ہیں جن سے موت بھی آنکھیں چراتی ہے۔ منڈیلا نوع انسانی میں عظمت کا ایک مینار ہے۔ اس کی عظمت اور اس کی صداقت کی پوری دنیا معترف ہے۔ 1993ء میں اُسے نوبل انعام سے نوازا گیا ۔1994ء میں اُسے جنوبی افریقہ کا پہلا سیاہ فام صدر منتخب ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ یہ تمام عہدے اور انعامات اُس کی انسان پرستی کا اعتراف تھے۔ سیاہ فاموں کے اس عظیم قائد کی عظمت کے اعتراف کا سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا۔ ان کی عظمت کا اعتراف ہمیشہ جاری رہے گا۔ اس لیے کہ عظمت کا دوسرا نام نیلسن منڈیلا ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں