حملہ یا سازش؟

اپنی کوتاہیوں کو چھپانا‘ اپنی کمزوریوں پر پردہ ڈالنا ایک طرح کی خود فریبی اور خودکشی کے مترادف ہے۔ زندگی کے غیر معمولی اور غیر متوقع سانحات اور حادثات پر تحقیق و تدقیق کرنا زندگی کے زندہ عمل میں شمار ہوتا ہے۔ انسانی جسم پر چوٹ یا گھائو لگنے کا فوری احساس ہونا انسانوں کے زندہ ہونے کا ثبوت ہوتا ہے۔ جبکہ دوسری صورت میں یعنی کسی ردعمل کا ظاہر نہ ہونا موت ہوتا ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان کی جیل پر دہشت گردوں کا حملہ پوری قوم کو زخمی کر دینے کے لیے کیا گیا۔ دوسرے لفظوں میں یہ حملہ پاکستان کی سالمیت کو ضعف پہنچانے کی غرض سے کیا گیا‘ مگر محسوس ہوتا ہے کہ ہم من حیث القوم بے حس ہوچکے ہیں۔ دہشت گردی کے اس تازہ گھائو سے ملکی اور قومی سطح پر جس تکلیف کا احساس اور اظہار ہونا چاہیے تھے وہ دیکھنے میں نہیں آرہا۔ یہ حملہ دہشت گردوں کی کامیابی یا فتح کا شاہکار ہرگز نہیں ہے بلکہ ہمارے حکومتی اداروں کی شکست اور کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ حکومتی رٹ کا زوال ہے۔ یہ حملہ ہمارے نگہبانوں اور پاسبانوں کے پیشہ ورانہ فرائض منصبی کو کھلا چیلنج اور ہماری ریاست کی حیثیت کے لیے ایک للکار ہے۔ کہا جارہا ہے کہ اس طرح کے واقعات کو زیادہ ہوا نہیں دینی چاہیے۔ یہ تو شیخ سعدی کی کہاوت والی بات ہوئی جس میں ایک خاتون کی عزت لٹ جانے کی بات تھی۔ خاتون کی عزت لٹ جانے کا معاملہ قاضی کی عدالت میں پہنچ گیا۔ قاضی نے خاتون سے کہا کہ جب تمہاری عزت پر ہاتھ ڈالا جارہا تھا تم نے شور کیوں نہیں کیا۔ ہوسکتا تھا کہ تمہارے شور کرنے سے تمہاری عزت بچ جاتی۔ خاتون کا جواب تھا کہ میں اپنی عزت کے خوف سے خاموش رہی تھی۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ اپنی رسوائی کے خوف سے خاموش رہنا عزت و آبرو کے لٹ جانے کا باعث ہوا کرتا ہے۔ ہم جب تک من حیث القوم ایسے واقعات کے خلاف اپنا ردعمل ظاہر نہیں کریں گے‘ اپنے حکومتی اداروں کو جاگنے پر کیسے مجبور کریں گے! ہمارے اکثر ادارے ہماری قومی دولت پر پل کر مست ہاتھی کی طرح بھاری بھرکم ہوگئے ہیں۔ وہ کسی فوری حرکت کرنے کے شاید قابل ہی نہیں رہے یا ان کی کچھ ایسی وقتی مجبوریاں ہیں جن مجبوریوں نے ان کی پیشہ وارانہ استعداد کو سلب کر رکھا ہے۔ قومی ذمہ داری کا احساس جو ان کے منصب اور پیشے کا بنیادی تقاضا تھا‘ لگتا ہے مفقود ہوچکا ہے۔ اب کوئی جان پر کھیلنے کو تیار نہیں ہوتا۔ ڈی آئی خان کی جیل پر کیے گئے حالیہ حملے پر یوں تو بہت کچھ لکھا جا چکا ہے مگر اس حملے کے کچھ اہم پہلوئوں پر ابھی تک بات نہیں کی گئی۔ ان میں دو پہلو تو بہت ہی اہم تھے۔ پہلا اہم پہلو اور سوال یہ ہے کہ ڈی آئی خان کی جیل پر حملے سے پہلے خط کے ذریعے 27 جولائی کو ڈی آئی خان کے کمشنر، ڈپٹی کمشنراور آئی جی پولیس کو اطلاع فراہم کر دی گئی تھی کہ جیل پر حملہ ہونے والا ہے مگر اس بات کا ہرگز ذکر نہیں کیا گیا تھا کہ حملہ آور اپنے اس خونی سفر کا آغاز کس مقام سے یا کس علاقے سے کریں گے۔ حکومت کی اپنی خبروں کے مطابق حملہ آوروں کا کارواں وزیرستان کے علاقے سے ڈی آئی خان کی طرف روانہ ہوا تھا۔ وزیرستان سے ڈی آئی خان کی جیل کا فاصلہ تقریباً 153 کلومیٹر ہے۔ حملہ آور کسی پہاڑی راستے سے پیدل چل کر ڈی آئی خان نہیں پہنچے تھے۔ وہ باقاعدہ سڑک کے راستے گاڑیوں میں بیٹھ کر اور موٹرسائیکلوں پر سوار ہو کر ایک جلوس کی شکل میں وہاں پہنچے تھے۔ جس سڑک سے یہ خوفناک کارواں گزر کر آیا تھا‘ اس سڑک پر قدم قدم پر سکیورٹی ناکوں کا ایک مضبوط سلسلہ قائم تھا‘ مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کارواں کو راستے میں کسی جگہ پر روکا نہیں گیا۔ وزیرستان کے علاقے میں خفیہ اداروں کے لوگوں کا جال بچھا ہوا ہے‘ اس کے باوجود کسی کو اس کارواں کی خبر نہ ہوسکی۔ نہ تو حملہ آوروں کو کسی حفاظتی اداروں نے آتے ہوئے دیکھا اور نہ جاتے ہوئے دیکھا۔ اس بات کو ذہن تسلیم نہیں کرتا۔ اس حملے کی واردات کے پیچھے ضرور کوئی سازش ہے۔ اس سلسلے میں دوسرا اہم سوال اور اہم پہلو یہ ہے کہ وزیرستان کے علاقے میں امریکہ زمین پر پڑی ہوئی سوئی تک کو دیکھ لیتا ہے۔ وہ پہاڑوں کے غاروں میں چھپے ہوئے طالبان پر کامیاب ڈرون حملے کرتا ہے۔ کیا امریکہ کو طالبان کا یہ مسلح کارواں دکھائی نہیں دے سکا؟ اس سے بڑھ کر امریکہ کے لیے طالبان کی سرکوبی کرنے کا اور اچھا موقع کیا ہوسکتا تھا؟ اتنی بھاری تعداد میں طالبان امریکہ کو کبھی میسر نہیں آسکتے تھے مگر حیرت یہ ہے کہ امریکہ کے وزیرستان میں وہ تمام ذرائع جو امریکہ کو طالبان کے ٹھکانوں کی خبر دیتے ہیں‘ اس معاملے میں مکمل خاموش دکھائی دیتے ہیں۔ امریکہ کے ان مخبروں کو طالبان کی اتنی بڑی نقل و حرکت کی خبر ہی نہ ہوسکی‘ حیرت ہے! اوپر بیان کیے گئے شکوک و شبہات کی روشنی میں معلوم یہ ہوتا ہے کہ طالبان کے اس کھلم کھلا حملے کے پیچھے کوئی سازش پنہاں ہے‘ جس کی وجہ سے طالبان کے کارواں کے راستے کی ہر شے ساکت کر دی گئی تھی۔ ان کا راستہ روکنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی۔ اس سازش کے محرکات کچھ بھی ہوں۔ ہوسکتا ہے کہ یہ سازش نہ بھی ہو صرف حملہ ہی ہو مگر اس حملے کی وجہ سے لوگوں میں جو قومی سطح پر مایوسی پھیلی ہے اس مایوسی کا ہمارے حکمرانوں کو اندازہ ہونا چاہیے۔ ایران کے بادشاہ دارا کا بیٹا ایگزارکس تھا جس کی فوجی کشتیوں کو سمندر کے طوفان نے نقصان پہنچایا تھا۔ اس نے اپنی فوج کو سزا کے طور پر سمندر کو کوڑے مارنے کا حکم دے دیا تھا۔ ایک ہمارے حکمران ہیں جن سے بالشت بھر طالبان کا سامنا نہیں کیا جارہا۔ دہشت گردی کی وجہ سے کوئی ملک پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کو تیار نہیں۔ ہم ساری دنیا سے الگ تھلگ ہوچکے ہیں۔ ہمارے نقصانات کا نہ حکمرانوں کو اندازہ ہے‘ نہ دنیا کو اس کی خبر ہے۔ ہم لٹ بھی رہے ہیں اور شرمندہ بھی ہورہے ہیں۔ کوئی دیوار ہی محفوظ‘ نہ در لگتا ہے یہ خرابہ تو مجھے اپنا ہی گھر لگتا ہے

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں