اسلام آباد کے بلیو ایریا کا واقعہ عجیب و غریب رُخ اختیار کرتا جا رہا ہے۔ وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ اس شخص کے عالمی رابطے بھی سامنے آئے ہیں۔ اس سے قبل واقعے کے روز ایڈمنسٹریشن کو حکم دیا گیا تھا کہ اس شخص کو زندہ پکڑا جائے۔ اس کے ساتھ ہی دوسرا حکم تھا کہ اگر یہ بندوق بردار شخص کسی کو کوئی نقصان پہنچانے کی کوشش کرے ‘تب اس پرکوئی گولی وغیرہ چلائی جائے۔ ان کے زندہ پکڑنے والے حکم میں قباحت یہ تھی کہ وہ شخص دونوں ہاتھوں میں بندوقیں اٹھائے ہوئے تھا اور وقفے وقفے کے ساتھ کلاشنکوف کے فائر بھی کررہا تھا۔ اس صور ت میں اس کے نزدیک جانا یا اس کو زندہ پکڑنا ممکن نہیں تھا۔ اس شخص پر قابو پانے کا ایک ہی راستہ تھا کہ اسے دور سے گولی کا نشانہ بنایا جاتا اور اس ڈرامے کا ڈراپ سین کر دیا جایا جاتا، مگر دور سے گولی مارنے کا معاملہ وزیر داخلہ کے زندہ پکڑنے کے حکم نے موقوف کر دیا تھا، جس کی وجہ سے یہ ڈرامہ 5 گھنٹے ٹی وی پر چلتا رہا اور ایک آدمی نے ایٹمی قوت کے حامل ملک کو پوری دنیا میں مذاق بنا کر رکھ دیا۔ پوری دنیا نے ٹی وی چینلز پر پاکستان کی حکومت کے حفاظتی اداروں کی بے بسی کا منظر دیر تک ملاحظہ کیا۔ یوں لگتا تھا کہ ایک اکیلا شخص اپنی بندوق کے ساتھ پوری ریاست پر بھاری ہوگیا ہے۔ اس نے عملی طور پر جائے وقوعہ پر 5گھنٹے تک سب کو یرغمال بنائے رکھا اور وہاں پر موجود پولیس کی پوری قوت بھی اسے ہتھیار پھینکنے پر مجبور نہ کرسکی۔ اس معاملے میں پہلے تو انتظامیہ کو ہی اس شخص سے نپٹنے دینا چاہیے تھا تاکہ انتظامیہ خود اپنی عقل و فہم کے ساتھ اس پاگل شخص پر قابو پاتی۔وہ کوئی اچھا طریقہ اختیار کرتی یا برا، اس کے کام میں مداخلت نہیں ہونی چاہیے تھی۔ اس پر مزید ظلم یہ ہوا کہ حکومت اس سارے عرصہ میں اپنے مذکورہ احکامات میں کوئی تبدیلی نہ لاسکی، جس کی وجہ سے قانون نافذ کرنے والی پولیس فورس کے ہاتھ بندھے رہے، اور ایک آدمی پورے اسلام آباد کی پولیس اوراس کے دیگر اداروں کی قوت کے سامنے دندناتا رہا‘ اس پر ہاتھ ڈالنے کی کسی کو جرأت اور ہمت نہ ہوسکی اور پوری دنیا پر وقتی طور پر ثابت ہوا کہ گویا ہم صرف ایک بندوق کی مار ہیں۔ حکومت کی نااہلی کے ساتھ ساتھ ہمارے آزاد میڈیا نے بھی اس شخص کو 5 گھنٹوں تک یونان کا اسکندر اعظم بنائے رکھا، اورکسی کو ذرا خیال نہ آیا کہ ہم دنیا کے سامنے کس دیوالیہ پن کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ اس واقعے نے پوری قوم کے اعصاب کو شل کرکے رکھ دیا تھا اور اس کارنامے سے صرف دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی ہوئی‘ دہشت گردوں کے اعتماد میں اضافہ ہوا‘ اس کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوا۔یہاں تو معاملہ ہی الٹ تھا۔ یعنی سارا معاملہ ایک شخص نے اپنے ہاتھ میں لے رکھا تھا۔ اسلام آباد بلیوایریا کے اس واقعے سے اجمل قصاب کا قصہ یاد آتا ہے۔ جب بھارت اجمل قصاب کی دہشت گردی کا الزام پاکستان پر لگا رہا تھا، پاکستان میں اجمل قصاب کا گھر لوگوں کو دکھایا جا رہا تھا کہ اجمل قصاب اس گھر میں رہنے والا تھا اور ثابت ہو رہا تھا کہ دہشت گرد واقعی پاکستانی باشندہ ہے۔ جبکہ گزشتہ دنوں ہندو افسر نے اعتراف کیا کہ یہ حملے خود بھارت نے کرائے تھے۔ کیا اتنی سی احتیاط بھی نہیں ہو سکتی۔ سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ ہونا چاہیے کہ کیا چیز دکھانادرست ہے اور کیا نہیں۔کون سی چیز ملک اور قوم کے مفاد میں ہے اور کونسی خلاف۔ واضح رہے کہ آزادی علم و دانش اور فکروتدبرکی متقاضی ہوا کرتی ہے۔ خودکش قسم کی آزادی مناسب نہیں۔ کسی غیر ذمہ دارانہ کارکردگی کو اعزاز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ آزادی کا مطلب خوف و ہراس اور سنسنی پھیلانا ہرگز نہیں۔ اس واقعے میں زمردخان کے کردارپر بھی بحث چھیڑ دی گئی کہ سکندراور زمردخان دونوں میں احمق کون تھا‘ بلکہ صوبائی وزیر رانا ثناء اللہ نے حسب توفیق’’ مخولیہ‘‘ انداز میں زمردخان کے اقدام کو حماقت سے ملا دیا۔ زمرد خان نے ذہنی دیوالیہ پن کے شکار ایک انسان پر جھپٹ کر پوری قوم کا سانس بحال کیا تھا۔ ایسے بہادر آدمی پر طنز کرنا، وزیر صاحب کو زیب نہیں دیتا۔ چنگیز خان نے جلال الدین خوارزمی کو اٹک کے پہاڑ میں محصور کر دیا تھا۔ جلال الدین خوارزمی اٹک کے پہاڑ کی چوٹی پر گھوڑے سمیت چڑھ گیا۔ جب اس نے چنگیز خان اور اس کی فوج کو پہاڑ کی چوٹی پر آتے دیکھا تو اس نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگا کر پہاڑی کے عقب میں دریا میں چھلانگ لگا دی۔ چنگیز خان کے ایک کمانڈر نے کہا کہ کس قدرپاگل انسان تھا، اتنی بلندی سے کود گیا، بڑا بزدل تھا۔ چنگیز خان نے اس کمانڈر کو کہا کہ تمہاری پوری تاتاری فوج میں کوئی ایک بھی ایسا بہادر ہے جواس کے پیچھے پہاڑ سے گھوڑے سمیت دریا میں کود جائے؟ زمرد خان اب ایک تاریخی کردار بن چکا ہے۔کیا رانا ثناء اللہ کی پوری (ن) لیگ میں ایک بھی لیڈر زمرد خان کی طرح کا ہے؟ زمرد خان نے اپنے اس جرأتمندانہ اقدام سے قوم کو یہ پیغام بھی دیا ہے کہ دہشت گردوں کا مقابلہ صرف حکومتی اداروں پر نہ چھوڑا جائے۔ قوم کا ہر فرد خودبھی دہشت گردوںکے خلاف عملی اقدام کا مظاہرہ کرے۔ دہشت گرد اندر سے بہت بزدل ہوتے ہیں، ان کو صرف ایک للکار کی ضرورت ہوتی ہے۔ ؎ یہ کم مقام ہے مقتل میں تیرا دیوانہ ستونِ دار پہ تنہا دکھائی دیتا ہے اگر زمرد خان یہ قدم نہ اٹھاتے تو ممکن ہے دہشت گرد اپنی فیملی اور لوگوں کو گولیاں مار دیتا۔ اگر وہ ایسا کرتا تو اس کا ذمہ دار کون ہوتا؟ حکومت اور میڈیا کے درمیان جو چپقلش شروع ہو گئی ہے اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ حکومت کو اپنا کام ذمہ داری سے کرنا چاہیے۔ میڈیا کو بھی اپنی راہیں اور حدود و قیود متعین کرنا ہوں گی۔ میڈیا کسی ملک کا بھی ہو جب اس میں کوئی انہونا واقعہ پیش آتا ہے تو ایسی کوریج ہی کی جاتی ہے۔ البتہ حکومت کو جن باتوں پر اعتراض ہے اس بارے میں وہ میڈیا والوں سے بیٹھ کر بات چیت کر سکتی ہے۔ یہ کوئی ایسی راکٹ سائنس نہیں کہ جو کسی کی سمجھ میں نہیں آ سکتی۔ دونوں کو جن باتوں پر اتفاق ہے ان کو بھی سامنے لانا چاہیے اور جن باتوں پر میڈیا اور حکومت کا آپس میں ٹکرائو ہوتا ہے وہ نکات بھی زیربحث آنے چاہئیں۔ یہ کام جلد از جلد کر لینا چاہیے کیونکہ سکندر جیسے واقعے اس ملک میں ہوتے رہیں گے اور ہر واقعے کو کور کرنے کی کوشش بھی کی جاتی رہے گی۔ ایسے میں بار بار میڈیا اور حکومت کا ٹکرائو خوش کن امر نہیں۔ باتیں تو بہت سی کی جا سکتی ہیں لیکن اصل کام زمرد خان نے کر دکھایا۔ اگرمگر کے چکر میں رہیں گے تو ساری زندگی تنقید میں گزر جائے گی۔ بالکل اسی طرح جیسے وہ چھ گھنٹے گزرے جن میں پولیس نے کوئی قدم نہ اٹھایا۔ حالانکہ ایسے درجنوں طریقے ہیں جن کے ذریعے اس شخص پر قابو پایا جا سکتا تھا۔ اب اگر ہم وہ طریقے اپنے کالموں میں لکھیں گے تو حکومت کی طرف سے کہا جائے گا کہ مداخلت کی جا رہی ہے۔ اس سے پولیس کی نااہلی بھی ثابت ہو گی لہٰذا بہتر ہے حکومت اپنے ادارے خود ہی مضبوط کرنے پر توجہ دے اور اگر زمرد خان نے بہادری دکھائی ہے تو اس کو سراہا جانا چاہیے اور انہیں حکومتی ایوارڈ ملنا چاہیے۔ اگر ایوارڈ نہیں دے سکتے تو کم از کم ان کے خلاف بیانات نہ دئیے جائیں۔ جو شخص اپنی جان پر کھیل جائے اور وہ بھی سب کے سامنے، ایسا شخص نہ احمق ہو سکتا ہے نہ ہی بزدل۔ ایسے لوگ وطن کا سرمایہ ہوتے ہیں جن کی قدر کی جانی چاہیے۔