صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری نے ایوان صدر میں ملک کے سینئر صحافیوں کو دیے گئے الوداعی عشائیے میں خطاب کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ جب انہوں نے اپنی سیاست کے ابتدائی ایام میں یہ اعلان کیا تھا کہ ’’ہم تاریخ بنانے نکلے ہیں اپنی شہرت کی بڑی سرخیاں بنانے نہیں نکلے‘‘ تو اس وقت لوگوں کو ان کی یہ بات سمجھ میں نہیں آئی تھی ۔ ہم صدر پاکستان کی تاریخ بنانے والی بات پر بعد میں کچھ گزارشات پیش کریں گے‘ پہلے ان کے اچھے اقدام پر بات ضروری ہے۔ صدر صاحب نے ارشاد فرمایا کہ انہیں کسی بات کا افسوس نہیں‘ ان کا ضمیر مطمئن ہے۔ فرمایا کہ ہم نے گزشتہ پانچ سال تک جمہوریت کی طرف سفر جاری رکھا‘ جس کے نتیجہ میں یہاں ایک جمہوری حکومت کے بعددوسری جمہوری حکومت کا قیام عمل میں آیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے پارلیمنٹ کو بااختیار بنایا اور ہم اچھے کاموں میں وزیراعظم میاں نواز شریف کی حکومت کا ساتھ دیں گے۔ ان کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ انہوں نے چین کے ساتھ اقتصادی تعاون کی بنیاد رکھی‘ اور اس کے تسلسل کے لیے انہوں نے میاں نواز شریف کو چین کے وزیراعظم کے ساتھ متعارف کرایا تھا۔ انہوں نے سیاست دانوں کو ایک اچھا مشورہ دیا کہ وہ سیاست میں برداشت کرنا سیکھیں۔ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ عوام کو حکمرانوں پر تنقید کرنے کا حق ہے اور مسلم لیگ ن کی حکومت سے توقع ہے کہ وہ ان کی حکومت کے کئے گئے ایران پاکستان گیس معاہدے کی پاسداری کرے گی اور اس منصوبے کو آگے بڑھائے گی۔ صدر صاحب نے میاں نواز شریف کو گڈلک کہنے کے بعد اپنے خطاب کا اختتام پاکستان کے پچیس، تیس حکمران ایگزیکٹوز کے ذکر پر کیا جو ملک پر مرحلہ وار حکومت کرتے رہے اور جن میں وہ خود بھی شامل ہیں۔ اس کی تشبیہ انہوں نے ایک باورچی خانے میں باورچیوں کے بار بار تبدیل ہونے سے دی۔ شاید ان کا مفہوم یہ تھا کہ اس طرح مسلسل تبدیلی سے کھانا بھی نہیں پکا کرتا۔ صدر آصف علی زرداری کی تقریر کے نکات بلاشبہ تعریف کے قابل تھے اور ان کے لیے صدر صاحب تعریف کے مستحق ہیں؛ تاہم انہوں نے جو یہ فرمایا تھا کہ وہ تاریخ بنانے نکلے تھے۔ یہ جملہ کچھ وضاحت طلب ہے ۔ اس معاملے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ خود تاریخ کیا چیز ہے اور دوسری بات یہ کہ تاریخ بنتی کیسے ہے۔ تاریخ دراصل ایک قوم یا ایک انسان کی زندگی کی کہانی ہوتی ہے۔ انسان اپنی تاریخ کردار وعمل کے ساتھ مرتب کرتا ہے۔ اسی طرح ایک قوم کی تاریخ قوم کے سیاسی‘ سماجی اور معاشی عوامل کا مجموعہ ہوتی ہے اور اس کے حکمرانوں کی اچھائیوں یا بدعنوانیوں کا خلاصہ اور عروج وزوال کا مکمل بیان ہوتی ہے ۔قوموں کی تاریخ ہمیشہ وہ انسان بنایا کرتے ہیں جو اپنی قوم کے لیے کوئی تاریخ ساز کارنامہ انجام دیں۔ ہرقیمت پر اور ہر صورت میں اقتدار پر قابض رہنے والے حکمران تاریخ بنانے کے قابل نہیں ہوا کرتے۔ تاریخ بنانے والے حکمرانوں کا اقتدار اپنی قوم کی امنگوں‘ خواہشوں اور آدرشوں کی تکمیل کے لیے ہوتا ہے اور وہ کسی حادثے کی بنا پر حاصل نہیں ہوتا۔ مثال کے طورپر کمال اتاترک کو جب اقتدار ملا تھا اس وقت ترکی ایک جنگ زدہ ملک تھا۔ جس کے تمام قومی ادارے مفلوج ہوچکے تھے۔ کمال اتاترک نے ترکی کے ماضی کے فرسودہ نظام کو یورپ کے جدید اور ترقی یافتہ نظام میں بدل کر اپنی قوم کے لیے ایک نئی تاریخ رقم کی‘ جس کی وجہ سے وہ ایک تاریخ ساز اور تاریخ بنانے والے انسان کہلاتے ہیں اور تاریخ میں ان کا مقام بلند ہے۔ کمال اتاترک کی طرح ہمارے پاکستان میں نئی تاریخ بنانے کی سب سے بڑی مثال پیپلزپارٹی کے چیئرمین شہید ذوالفقار علی بھٹو ہیں۔ ان کو ایک ٹوٹا ہوا‘ شکست خوردہ اور آمریت زدہ ملک ملا تھا۔ جس کا کوئی آئین اور کوئی دستور ہی نہ تھا۔ انہوں نے اس شکست خوردہ اور ٹوٹے ہوئے ملک کو اپنے پائوں پر دوبارہ کھڑا کرکے پاکستان کی تاریخ کا رخ موڑ دیا‘ پاکستان کی تاریخ کو تبدیل کردیا اور پاکستان کا آئین بناکر اسے باوقار جمہوری ممالک کی صف میں کھڑا کردیا۔ روٹی‘ کپڑا‘ مکان‘ تعلیم اور روزگار کا قانون‘ دستور اور منشور بناکر نئی تاریخ مرتب کی۔ چیئرمین بھٹو نے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پاکستان پیپلزپارٹی کو ایسی مستحکم اور لازوال قومی پارٹی بنادیا تھا‘ جس کو نہ تو ان کی شہادت سے اور نہ ہی جیلوں اور کوڑوں سے ختم کیا جاسکا۔ ان کے بعد ان کی بیٹی چیئرمین محترمہ بے نظیر بھٹو اپنے باپ ہی کی طرح ایک تاریخ ساز شخصیت ثابت ہوئیں۔ انہوں نے پاکستان میں جمہوریت اور آئین کی پاسداری کے لیے جابر قوتوں سے ٹکر لی ۔ جمہوریت کے قیام کے لیے بہادری کے ساتھ اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے شہادت کا اعزاز حاصل کیا اور پاکستان کی سیاسی تاریخ میں انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کے باب میں ایک اور باب کا اضافہ کرکے تاریخ میں امر ہو گئیں۔ صدر آصف علی زرداری صاحب کے خطاب میں ایک دوسرا جملہ بھی بہت معنی خیز تھا جو وہ شہید بی بی کے حوالے سے اکثر دہراتے رہتے ہیں کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ یہ جملہ اپنی معنویت کے اعتبار سے اپنے اندر ایک تاریخی اہمیت رکھتا ہے۔ ہماری ناقص عقل کے مطابق یہ جملہ شہید بی بی نے سیاست میں ذاتی انتقام لینے کے بارے میں کہا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ قوموں کی قیادت کرنے کے لیے اپنے ذاتی مفادات‘ ذاتی عناد اور ذاتی نوعیت کے انتقام کو ملک وقوم کے وسیع ترمفادات کے لیے قربان کرنا پڑتا ہے۔ شہید بی بی کا یہ قول اپنے سیاق وسباق کے ساتھ ایک عظیم جذبے کا حامل ہے۔ مگر شہید بی بی کے اس تاریخی جملے کے حوالے سے ان عناصر کو معاف کرنا قائدانہ وزڈم کے خلاف ہے‘ جنہوں نے پہلے کراچی کے کارساز کے مقام پر ان کے استقبالیہ جلوس کو دھماکے سے اڑانے کی سازش میں سینکڑوں بے گناہ سیاسی غریب کارکنوں کا خون کیا اور پھر قوم کی اس مایہ ناز‘ عالمی شہرت کی حامل عظیم لیڈر کو لیاقت باغ میں انتہائی بہیمانہ انداز میں شہید کرڈالا تھا۔ صرف جناب آصف علی زرداری کی ہی نہیں‘ پاکستان کی آنے والی ہرحکومت کا فرض ہے کہ ان کے قاتلوں کو بے نقاب کیا جائے اور کیفر کردار تک پہنچایا جائے‘ تب جاکر بی بی شہید کے اس جملے کا مقصد پورا ہوگا کہ جمہوریت سب سے بہتر انتقام ہے۔ اس لیے کہ جمہوریت کسی بھی ناانصافی کو قبول نہیں کیا کرتی ۔ صدرپاکستان جناب آصف علی زرداری کا میاں نواز شریف کو اقتدار منتقل کرنا جمہوری‘ آئینی اور قانونی روایات کے مطابق ہے۔ ہمارے پڑوسی بھارت میں انتقال اقتدار کا یہ طریقہ پچھلے 66سال سے رائج ہے جس کو کوئی تاریخی کارنامہ تصور نہیں کیا جاتا ۔ پاکستان میں پہلی مرتبہ ایک جمہوری حکومت سے دوسری جمہوری حکومت کو پرامن انتقال اقتدار کے پیچھے شہید بھٹو کی پھانسی‘ شہید بی بی کی شہادت اور لاکھوں سیاسی کارکنوں کی قید اور کوڑوں کی سزائیں ہیں جن کی قربانیوں نے پاکستان میں غیرجمہوری قوتوں کو راہ راست پر چلنے پر مجبور کردیا ہے۔ صدر آصف علی زرداری صاحب کی دعوت میں سب سے بڑی بات ان کے پیر اعجاز شاہ نے کہی۔ انہوں نے کہا کہ آصف علی زرداری ’’بادشاہ‘‘ ہیں۔ واقعتاً وہ بادشاہ ہی تھے اور بادشاہ ایسی ہی تاریخ بنایا کرتے ہیں جس کا زرداری صاحب نے ذکر کیا ہے۔ مگر ان کی تاریخ کا سب سے سیاہ باب پاکستان پیپلزپارٹی کی حالیہ قومی انتخابات میں شکست ہے جس میں حکمران پیپلزپارٹی کا صفایا ہو گیا۔ ایک اور تشویش ناک اور حیرت انگیز بات ان کے پیراعجاز کی جیبوں کے خالی ہونے کی تھی۔ ان کی اس بات پر میں پیر اعجاز کو جھوٹا تو نہیں کہہ سکتا مگر میں ان کی اس بات پر اعتبار بھی نہیں کرسکتا۔ اس لیے کہ زرداری صاحب کے قریب رہتے ہوئے جیب خالی نہیں رہ سکتی۔ وہ بہت سخی انسان ہیں ؎ مانا کہ یہ سب مصلحتیں ٹھیک ہیں لیکن یوں دشت کو دریا بھی تو کہنا نہیں اچھا