2012ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میںسزائے موت کے خلاف قرارداد پیش کی گئی ۔ایک سو دس ممالک میں سے چالیس ممالک نے سزائے موت کے خلاف ووٹ ڈالے اور باقی نے ووٹ ڈالنے میں حصہ ہی نہیں لیا تھا۔ گویادنیا کے تمام مہذب ممالک سزائے موت کے خلاف ہیں۔ مگر ہمارا سوال یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی جو پوری دنیا میں سزائے موت جیسی سزا کو ختم کرانے کے حق میں ہے اور اسے انسانیت کی سب سے بڑی خدمت خیال کرتی ہے‘ اس کو سب سے پہلے اس بات کا پتہ لگانا چاہیے کہ قتل ہوتے کیوں ہیں؟ ایک انسان اپنے ہی طرح کے انسان کو قتل کیوں کردیتا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی جب تک اس بات کا کھوج نہیں لگائے گی اس وقت تک دنیا میں نہ تو قتل ہونا بند ہوں گے اور نہ اقوامِ متحدہ کی اسمبلی اس مسئلے پر اپنا کوئی تاریخی کردار سر انجام دے سکے گی۔ دراصل قتل جیسے جرم کے معاملے میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سامنے صرف یورپ کے ترقی یافتہ اور تعلیم یافتہ ممالک کی مثالیں ہیں جن ممالک میں سزائے موت کو ختم کر دیا گیا ہے۔ جنرل اسمبلی کو ایشیا اور تیسری دنیا کے ممالک کے معاشی‘ سماجی‘ سیاسی اور بین الاقوامی مسائل کا قطعی کوئی علم نہیں ہے‘ اسے کیا معلوم کہ ان ممالک میں لوگ کس طرح کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ صورت یہ ہے کہ ایشیا اور تیسری دنیا کے ممالک میں 90فیصد لوگ غربت کی زندگی گزارتے ہیں۔ ان میں ستر فیصد لوگ بیکار اور بے روزگار ہیں۔ ستر فیصد لوگوں کے پاس دو وقت کی روٹی کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی۔ ستر فیصد لوگوں کے بچے تعلیمی اخراجات کے باعث اعلیٰ تعلیم تو کجا‘ بنیادی پرائمری تعلیم حاصل کرنے کے بھی قابل نہیں ہوتے۔ ستر فیصد عوام کو علاج معالجے کی کوئی سہولت میسر نہیں۔ تیسری دنیا کے ان پسماندہ ممالک میں انتہا کی ناہمواری ہوتی ہے۔ ایک انسان یا ایک گھرانا تو عیش و عشرت کی زندگی گزار رہا ہوتا ہے جبکہ سینکڑوں گھرانے دو وقت کی روٹی کے محتاج ہوتے ہیں۔ ایک جاگیردار ہزاروں ایکڑ زمین کا مالک ہوتا ہے اور لاکھوں انسان بے زمین اور بے وسیلہ زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ دس گھرانوں کے بچے اسکول کالج جانے کے قابل ہوتے ہیں اور نوّے فیصد لوگوں کے بچے اسکول جانے کے قابل نہیں ہوتے۔ یہی وجہ تھی کہ رسولؐ پاک نے فرمایا تھا کہ غربت ایمان کی دشمن ہوتی ہے۔ کارل مارکس نے بھی کہا تھا کہ غربت جرائم کی ماں ہے۔ غربت جرم کے بچے جنتی ہے۔ غربت چور‘ ڈاکو اور قاتل پیدا کرتی ہے۔ کارل مارکس کے قول کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ قتل اور جرائم ان ممالک میں ہوتے ہیں جہاں غربت‘ افلاس اور بے روزگاری ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایشیا اور تیسری دنیا کے ممالک جرائم کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں۔ یورپ کے جن ممالک میں سزائے موت کو ختم کیا گیا ہے‘ ان کے حکمرانوں نے سب سے پہلے انسانوں میں طبقاتی اونچ نیچ کو ختم کیاہے۔ تمام انسانوں کو قانون کے مطابق برابر کے انسان بنا دیا ہے۔ وہاں کی ریاست ہر انسان کے روزگار کی ذمہ دار ہے۔ ہر انسان کی رہائش کا انتظام کیا گیا ہے۔ ہر پیدا ہونے والے بچے کا دودھ الائونس ہے۔ ہر بچے کی تعلیم مفت ہے۔ ہر بچے کو علاج کی سہولت حاصل ہیں۔ ہر ماں کو زچگی کے ایام میں الائونس ملتا ہے۔ ہر مرد اور عورت کو علاج معالجے کی سہولت میسر ہے۔ ہر انسان کو اس کی اہلیت اور محنت کے مطابق مراعات دی جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ بے روزگاری الائونس تک دیا جاتا ہے۔ پھر جب وہ بوڑھا ہوجاتا ہے‘ ریٹائرڈ ہوجاتا ہے تو بڑھاپا گزارنے کے لیے اچھی خاصی رقم دی جاتی ہے۔ اس طرح کے انسان دوست ممالک میں قتل ہونا واقعی ایک خبر ہوتی ہے۔ جرم کا ہونا ایک اچنبھے کی بات خیال کی جاتی ہے‘ اس لیے کہ ایک تعلیم یافتہ مہذب ملک میں کسی برائی کا ہونا واقعی حیران کن ہے۔ سو‘ ترقی یافتہ ممالک میں نہ تو غیرت کے نام پر قتل ہوتے ہیں اور نہ ہی زر‘ زمین کے جھگڑے ہوتے ہیں۔ ہر انسان کو اپنے کام سے مطلب ہوتا ہے۔ ان ممالک میں کوئی فاتر العقل اور مخبوط الحواس شخص ہی قتل جیسے بھیانک جرم کا ارتکاب کرتا ہے۔ کوئی نارمل انسان کسی دوسرے انسان کا خون کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ ترقی یافتہ ممالک میں آئین اور قانون انسان کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ ان کو ایک مہذب انسان بنانے میں مدد گار ہوتے ہیں۔ شہریوں میں پُرامن زندگی کا تصور پیدا کرتے ہیں۔ وہاں ریاست اور شہری میں فرق نہیں ہوتا۔ وہاں کسی انسان کو سزا دینا ریاست کو سزا دینے کے مترادف ہوتا ہے مگر یہ سب کچھ ان ترقی یافتہ ممالک میں اس وقت ممکن ہوا جب ان ممالک کے رسم و رواج اور قانون نے انسان کو زندگی کے معاملے مں خود کفیل بنا دیا تھا۔ جہاں تک تیسری دنیا کے غریب‘ پسماندہ اور غیر تعلیم یافتہ ممالک یا ہمارے پاکستان کی طرح کے ملک کا تعلق ہے‘ یہ تمام ممالک ابھی تک زن‘ زمین اور زر کے جھگڑوں سے باہر نہیں نکل سکے۔ ہمارے معاشروں میں یہ تینوں چیزیں انسانی بربادی کی بنیاد بنی ہوئی ہیں۔ ہمارے ہاں قتل زیادہ تر زمینوں اور مکانوں کی ملکیت پر ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ غیرت کے نام پر مردوں اور عورتوں کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ یہاں لوگ اُجرتی قاتل بن جاتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں جرائم ایک کاروبار کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔ ہمارے پاکستان میں قتل کی سزا ختم کرنے کے لیے کارل مارکس کے انداز میں غوروفکر کرنے کی ضرروت ہے۔ کا رل مارکس کہتا ہے جو معاشرہ یا جو حکمران کسی انسان کی روٹی کی خاطر کی گئی چوری پر اس کے ہاتھ نہیں کاٹ سکتا اسی طریقے سے جو ریاست یا جو حکومت اپنے معاشرے میں انسانوں کی محتاجی اور محروم کو ختم نہیں کرسکتی وہ کسی مجبور انسان کو جرم کرنے پر جرم کی سزا دینے کی حق دار نہیں ہوسکتی۔ پاکستان میں قتل کی سزائے موت ختم کرنا ایک اعلیٰ انسانی عمل بن سکتا ہے مگر صرف سزائے موت ختم کرنے سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ اس صورت میں جیلوں میں قاتلوں کے ہجوم لگ جائیں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے معاشرے میں ان تمام اسباب پر قابو پا لیا جائے جو قتل کا باعث ہوتے ہیں۔ دنیا کے تمام علوم اس بات پر متفق ہیں کہ غربت، ناداری، بے روزگاری اور جہالت اچھے انسان پیدا کرنے کے قابل نہیں ہوتی۔ یہ سب چور ڈاکو، قاتل پیدا کرتی ہیں۔ ہم کتا کنویں میں ہی رکھ کر اور پانی نکال کربدبو دور نہیں کرسکتے۔ ہم اگر پاکستان میں زمینوں کو بے زمین لوگوں میں تقسیم کردیں تو نہ کوئی قاتل ہوگا نہ مقتول۔ ریاست لوگوں کو تعلیم اور روزگار کا تحفظ فراہم کرے‘ پاکستان سے جرم کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ سزائے موت ختم کرنے کے معاملے میں پاکستان پر بیرونی دنیا کا دبائو ہے۔ تمام مہذب دنیا نے تیسری دنیا کے ممالک کے ساتھ تجارت کرنے میں پہلی شرط سزائے موت ختم کرنے کی رکھی ہے۔ پاکستان اس مطالبے کے باوجود پسِ پشت ڈالتا آ رہا تھا مگر طالبان کے ساتھ مذاکرات کے عمل میں طالبان کی اس شرط کو وقتی طور پر تسلیم کرتے ہوئے سزائے موت کا عمل التوا میں ڈال دیا گیا۔ معروف فلسفی ارسطو نے کہا تھا کہ اگر انسان موت کی وجوہات پر قابو پا لیں تو ایک طرح سے موت پر قابو پا سکتے ہیں۔ پاکستان کو اس قول کے مطابق پہلے جرائم کی وجوہات پر قابو پانا ہوگا۔ جرم خود بخود ختم ہوجائیں ؎ کیا قیامت ہے کہ گلشن کے اُجڑ جانے پر عندلیبوں میں کوئی نالہ و فریاد نہیں