قائداعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا مگر اُن کے بعد کشمیر کو بین الاقوامی سطح پر اُس طریقہ سے اُجاگر نہ کیا جا سکا جس سے یہ مسئلہ عالمی سطح پر توجہ حاصل کر سکتا۔ جناح صاحب کے بعد ذوالفقار علی بھٹو وہ واحد رہنما تھے جو کشمیر کی اہمیت و افادیت سے پوری طرح سے آگاہ تھے۔ مسئلہ کشمیر پر بھٹو صاحب نے بے باکانہ انداز سے پاکستانی قوم اور کشمیری عوام کے جذبات کی ترجمانی کی اور قائداعظم کے موقف کو تقویت بخشی۔
بھٹو صاحب کے نزدیک پاکستان اور بھارت کے ترقی کیلئے ضروری ہے کہ وہ دونوں پرامن بقائے باہمی کے اصول کے تحت اچھے ہمسایوں کی طرح رہیں۔ جنگ اور جارحیت ان کے مسائل کا حل نہیں بلکہ ان کے دکھوںمیں اضافہ کا باعث ہوگا دونوں ممالک کو چاہیے کہ اپنی معیشت کو بہتر کرکے اپنے عوام کی زندگیوں کو بہتر کریں۔ یہ کوئی مقدر میں نہیں لکھا گیا کہ ایشیا اور افریقہ کے لوگ ہمیشہ غریب رہیں ہمیں غربت کی زنجیروں کو توڑنا ہو گا اور اپنے لوگوں کو بہتر زندگی دینا ہو گی ہمیں اپنے بچوں کو روشن مستقبل دینا ہوگا۔ بھٹو صاحب نے دنیا کے سامنے اس مسئلہ کو اجاگر کیا کہ بھارت اور پاکستان مسئلہ کشمیر کو حل کئے بغیر اس خطہ کو پائیدار امن نہیںدے سکتے۔ اور اس کا طریقہ کار تقسیم کا وہی فارمولا ہے کہ جہاں مسلم اکثریت ہو وہ علاقے پاکستان کا حصہ ہوں اور اس طریقہ کار پر سب کا اتفاق تھا تو پھر کیوں کشمیر کے لوگ اس حق سے محروم رکھے جا رہے ہیں۔ کشمیریوں کو اُن کا بنیادی حق دینے سے بھارت کیوں گریزاں ہے۔ حق خود ارادیت اور کشمیریوں کی رائے کا احترام ہی دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے۔ ہم جنگ نہیں چاہتے ہم تباہی نہیں چاہتے ہم امن چاہتے ہیں۔ بامقصد امن، دیرپا امن، ایسا امن جس کے تحت پاکستان اور بھارت اچھے ہمسایوں کی طرح رہ سکیں۔ ہم بھارت کے ساتھ تنازعات اور مسائل نہیں چاہتے۔
بھٹو صاحب کے نزدیک مسئلہ کشمیر کا پرامن حل ہی دونوں ہمسایوں کے درمیان پائیدار امن کی بنیاد بن سکتا ہے۔ بھٹو صاحب کہتے تھے کہ پاکستان نسبتاً چھوٹا ملک ہے اور ہماری خارجہ پالیسی کا بنیادی اصول تمام ملکوں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنا ہے خصوصاً ہمسایہ ممالک کے ساتھ اور بالخصوص اپنے سب سے اہم ہمسائے بھارت کے ساتھ۔ ہم بھارت کے ساتھ امن چاہتے ہیں دوستی چاہتے ہیں لیکن امن اور دوستی عزت اور وقار کی بنیاد پر بھارت کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا ۔ یہ امن تب ہی ممکن ہے جب بھارت اپنے عہدوپیمان کی تکمیل کرے جو اُس نے پاکستان کے ساتھ کئے ہیں جو اُس نے اپنے عوام کے ساتھ کئے ہیں جو اس عالمی برادری سے کئے ہیں اور سب سے بڑھ کر جو اس نے کشمیریوں سے کئے ہیں۔
بھٹو صاحب نے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل سے وہ معرکتہ الآرا خطاب کیا جسے پاکستان کی تاریخ کی بہترین تقریر تسلیم کیا جاتا ہے۔ بھٹو صاحب نے اپنے خطاب میں کہا کہ جموں و کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں ہے اور یہ کبھی بھی بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں رہا۔ جموں و کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان متنازعہ علاقہ ہے دراصل یہ بھارت سے کہیں زیادہ پاکستان کا حصہ ہے۔
کشمیر کے لوگ پاکستانیوں کا حصہ ہیں ہم ایک ہیں ہمارا تعلق خون کا تعلق ہے۔ ہم ایک جسم کی مانند ہیں ہمارا جینا مرنا ایک ساتھ ہے ہم ایک ہی خاندان ہیں اور ایک ہی قبیلہ ہیں۔ ہماری ثقافت ہمارا جغرافیہ ہماری تاریخ ہر طرح سے ہر لحاظ سے کشمیری پاکستان کے عوام کا حصہ ہیں۔ ''ہم ہزار سال تک جنگ لڑنے کیلئے تیار ہیں یہ جنگ ہماری بقاء کی جنگ ہے۔‘‘
بھٹو صاحب کا کشمیر پر یہ ٹھوس جاندار اور بلند آہنگ موقف اور بھارت کے ساتھ ایک ہزار سال تک جنگ لڑنے کا منفرد نعرہ پاکستان کی قوم کو متحد اور یکجا کرنے کی بنیاد بن گیا۔ بھٹو صاحب بھارت کی ایٹمی استعداد حاصل کرنے کی پالیسی سے بخوبی آگاہ تھے اسی لئے بھارت کو بھرپور جواب دینے کے پختہ عزم کا اظہار کرتے ہوئے اُنھوں نے بھارتی سورمائوں کو یہ پیغام دیا تھا کہ ہم گھاس کھا لیں گے مگر ایٹم بم بنائیں گے۔
بھٹو صاحب کا مسئلہ کشمیر پر ایوب خان سے اختلاف اور حکومت سے علیحدگی کا فیصلہ ہی پیپلز پارٹی کے قیام کی وجہ بنا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی کشمیر پالیسی کو اُن کی صاحبزادی محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی آگے بڑھایا اور اپنے والد کی طرح دلیرانہ انداز سے مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کیا۔1989ء میں دوبارہ مسئلہ کشمیر عالمی مسئلہ بن کرابھرا اور تحریک آزادی کشمیر کو دنیا بھر میں اخلاقی مدد حاصل ہوگئی۔ کشمیر کے محکوم عوام کے حقوق کے لئے محترمہ نے دنیا کے ہر فورم پر آواز بلند کی اور آل پارٹیز حریت کانفرنس کو کشمیری عوام کی نمائندہ تنظیم قرار دیتے ہوئے اسے اپنی پارٹی پالیسی کا جزو ٹھہرایا۔ محترمہ نے 5فروری 1990کو بطور وزیر اعظم اس دن کوکشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔ محترمہ نے دونوں ممالک کے درمیان پر امن تعلقات کے فروغ کی ضرورت پر زور دیا اور مسئلہ کشمیر کے حل کی اہمیت کو اجاگر کیا جس نے دونوں ملکوں کو یرغمال کیے رکھا ہے۔ محترمہ کے مطابق دونوں ملکوں کو اس کے حل کیلئے نئی سوچ اپنانے کی ضرورت ہے۔ محترمہ کے مطابق اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو برقرار رکھتے ہوئے یہ کوشش کی جانی چاہیے کہ کشمیر کے دونوں اطراف کے شہریوں کو ایک دوسرے سے ملاقات کی اجازت ہو۔ محترمہ نے ہی سافٹ بارڈر کا تصور پیش کیا کہ دونوں اطراف کشمیریوں کے رشتہ دار بستے ہیں اس لئے انہیں ایک دوسرے سے ملنے کی سہولت حاصل ہو،تاکہ اعتماد سازی کی فضا قائم ہو۔ محترمہ اپنے بھارت کے دوروں کے دوران ہمیشہ کشمیر کے مسئلہ کو جرأت مندانہ انداز میں پیش کیا۔ محترمہ کے قریبی دوست جناب بشیر ریاض صاحب کے مطابق محترمہ کے دلیر اور مدلل موقف کی بناء پر بھارت کے دانشور یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے کہ ''یہ بھٹو کی بیٹی ہے لہٰذا اِن کی چکنی چپڑی باتوں سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔‘‘ حریت کانفرنس کے بزرگ رہنما سید علی گیلانی محترمہ کی کاوشوں کا اعتراف یوں کرتے کہ مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اُجاگر کرنے کے لئے محترمہ بے نظیر بھٹو نے جو کردار ادا کیا آج تک وہ کسی فوجی حکمران نے بھی نہیں کیا۔
آج بھٹو کا نواسہ بے نظیر بھٹو کا بیٹا بلاول بھٹو جب گرج دار لہجے اور دلیری کے ساتھ یہ نعرہ لگاتا ہے کہ ''لواں گے لواں گے پورا کشمیر لواں گے‘‘ تو دراصل وہ بھٹوز کی شاندار روایت کے امین ہونے کا ثبوت دیتا ہے۔ بلاول بھٹو کا یہ اعلان پاکستان اور کشمیر کے عوام کے دل کی آواز ہے۔ بلاول بھٹو اقوام متحدہ کی افادیت پر سوال اٹھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ادارہ مسئلہ کشمیر کے حل میں ناکام ہو چکا ہے اور کشمیری آج بھی اقوام عالم کے اُس وعدے کی تکمیل کے انتظار میں ہیں جو اُن سے حق خود ارادیت کی صورت میں کیا گیا۔ بلاول بھٹو کے مطابق برصغیر میں کشیدگی کی سب سے بڑی وجہ کشمیر کے مسئلہ کا حل نہ ہونا ہے۔ ہم عالمی امن کا احترام کرتے ہیں اقوام عالم کو بھی انسانی حقوق اور حق خود اختیاری کا احترام کرنا ہوگا اس سے پر امن اور بہتر دنیا وجود میں آ سکتی ہے۔ بلال بھٹو کا بیک وقت دہشت گردی کے خلاف توانا انداز میں آواز اُٹھانا اور محکوم کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنا اس بات کا اظہار ہے کہ دہشت گردی نے تحریک آزادی کشمیر کو بھی نا قابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ دہشت گردی کے عفریت کے خاتمہ کے بعد کشمیر کے عوام غلامی کی زنجیروں سے ضرور آزاد ہو گے۔