مسیحا کہکشاؤں میں جگمگاتے ہیں!

نام کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ گلاب کو کسی بھی نام سے پکاریں‘ اس کی خوشبو‘ اس کی رنگت اس کی مہک ذہنوں کو بالیدگی اور روحوں کو تازگی اور فرحت بخشتی ہے۔
مسیحا درد کا درماں اور تکالیف دور کرنے والے کو کہتے ہیں۔ کئی شخصیات کو مسیحا صفت کہا جا سکتا ہے۔ یہ نیلسن منڈیلا ہو سکتے ہیں جنہوں نے ساری عمر قید کی مشقت برداشت کی لیکن اپنی قوم کو آزادی کی نعمت سے مستفیض کیا۔ یہ محمد علی جناح ہو سکتے ہیں جنہوں نے روئے زمیں پر مملکت خداداد پاکستان قائم کی اور برصغیر کے مسلمانوں کو الگ وطن کا تحفہ دیا۔ لی کوآن یو کو مسیحا کہا جا سکتا ہے جنہوں نے سنگاپور جیسے ایک سٹی سٹیٹ کو دیکھتے ہی دیکھتے خوشحالی کا جزیرہ بنا دیا۔ یہی لقب مہاتیر محمد کو دیا جا سکتا ہے جنہوں نے پسی ہوئی ملایا قوم کو فرش سے اٹھا کر عرش تک پہنچا دیا۔ ایک مسیحا صفت ابراہم لنکن بھی تھا جس نے براعظم امریکہ کو خود مختار بنایا اور ایک قوم کی شکل میں ڈھالا اور مسیحا برہان مظفر وانی کو بھی قرار دیا جا سکتا ہے‘ جن کے خون نے چناروں کو سیراب کیا اور ان چناروں کے خوں رنگ جھونکوں نے کشمیری گھاٹیوں اور وادیوں میں آزادی کی نئی امنگ بیدار کی۔ اور ان سب کے نقش قدم پر چلنے والے‘ ان سب کو ہیرو ماننے والے اور ان کی عظمتوں کی مثال دینے والے عمران خان صاحب بھی تو مسیحا صفت ہی ہیں‘ جنہوں نے کچلی ہوئی پاکستانی معیشت میں نئی روح پھونکی‘ اور ملکی صنعت اور کاروبار کی اکھڑتی سانسوں کو آئی سی یو کے وینٹی لیٹر سے نجات دلائی۔ وہ مسیحا ہی تو ہیں جنہوں نے کورونا کی پھنکارتی تباہی میںجانیں بھی بچائیں اور دیہاڑی دار اور ریڑھی والوں کا چولہا بھی بجھنے نہیں دیا۔ عمران خان صاحب نے اربوں روپے بیواؤں‘ یتیموں اور لاچاروں کی دہلیز تک پہنچائے اور وہ بھی ایک ایسے ملک کے خزانے سے جس کو اژدھے ڈس چکے‘ مگر مچھ نگل چکے تھے اور ریاست کو ڈیفالٹ کے دہانے پر پہنچا گئے تھے۔ وہ جو فالودے والوں کے پیچھے چھپے تھے‘ مالشیوں اور خانساموں اور مالیوں کے بے نامی اکائونٹس کے پس پردہ تھے۔
عمران خان صاحب کے سامنے بھاری ایجنڈا تھا۔ ہمالیہ سے بڑے چیلنجز کے پہاڑ کو انہوں نے قومی معیشت کے راستے سے ہٹانا تھا۔ یہ کام انہوں نے دو سال کے مختصر عرصے میںکر دکھایا۔ اب معیشت کی سانس بحال ہے۔ خزانہ پھر سے بھر ا ہوا ہے۔کورونا نے ساری دنیا کو کنگال کیا‘ مگر مسیحا نفس وزیر اعظم عمران خان نے قوس قزح کی طرح دلوں میں آس کی روشنیاں بکھیریں اور ہر طرح کے کاروبار کا مستقبل تابناک بنا دیا۔ کنسٹرکشن کے شعبے نے نئی جہت کے دروازے کھولے اور سی پیک کے اجڑے دیار میں پھر سے بہار کے جھونکے چلنے لگے۔ ایم ایل ون کے منصوبے پر دستخط ہوئے اور اب کوئی دن آیا چاہتا ہے جب ٹرین پشاور سے کراچی تک فاصلے کو سکیڑ دے گی اور غریب کو سستی اور تیز رفتار سواری میسر آئے گی۔ اسی مختصر عرصے میں پن بجلی کے ڈیڑھ بلین ڈالر کے منصوبے کی راہ ہموار ہوئی جو قومی گرڈ کو چند برسوں کے اندر سستی تریں بجلی فراہم کرے گا اور غریب کی کٹیا بھی بھاری بلوں کے بغیر جگمگا اٹھے گی۔ شاہراہ ریشم پر تجارتی کارواں رواں دواں ہوں گے اور گوادر کی گہرے پانیوں کی بندرگاہ دنیا کے تین براعظموں کو تجارتی روابط میں جوڑ دے گی۔ پاکستان کچھ بھی نہ کرے تو صرف راہداری کی مد میں سیٹھ کی تجوری کی طرح مالامال ہو جائے گا۔ پاکستان سی پیک کے روٹ پر نئے صنعتی زونز میں سرمایہ کاری کی وجہ سے لاکھوں کے حساب سے پیدا ہونے والے روزگار کے نئے مواقع سے مستفید ہو گا اور گوادر میں تعمیروترقی سے ایک نیا سنگاپور‘ ایک نیا ہانگ کانگ اور ایک نیا دبئی فخر سے سینہ تانے کھڑا ہو گا۔ بلوچستان میں بی ایل اے اور اس کی پشت پناہ بھارتی 'را‘ ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔ بھارت نے پاکستان کا ہاتھ پچھلے سال ستائیس فروری کو ہی دیکھ لیا تھا جب وہ سرجیکل سرجیکل کی گردان کر رہا تھا اور ہمارے دو میزائلوں نے اس سرجیکل سٹرائیک کے غبارے سے ہوا نکال دی۔ ایک بھارتی لڑاکا طیارہ کشمیر میں جا گرا اور ایک ہمارے ہاتھ لگ گیا‘ جس کے ملبے سے زندہ ونگ کمانڈر ابھینندن کو ہم نے چائے پلا کر ٹی وی پر دنیاکو دکھا دیا کہ ہم سرجیکل سٹرائیک والوں کی کیسے درگت بناتے ہیں۔ بھارت پاکستان سے مار کھانے کے بعد چین سے الجھا تو لاتوں‘ گھونسوں‘ مکوں‘ کنگ فو اور چاقوؤں سے بیس بھارتی سورما ڈھیر ہو گئے۔ مودی‘ جس نے آج تک ماسک نہیں پہنا تھا‘ لیہہ گیا تو اس نے شرم سے منہ چھپانے کے لئے ماسک پہن لیا۔ اب بھارت کو پتہ چل چکا ہے کہ پاکستان اور چین تو کیا وہ نیپال کی طرف بھی میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔ جو بھارت کچھ عرصہ پہلے بڑے دعوے کرتا تھا کہ وہ اس خطے میں چین کی راہ روکے گا‘ اس پر واضح ہو چکا ہے کہ وہ چین کے مقابلے میں تو کیا‘ نیپال کے مقابلے میں بھی کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا۔ بھارت کو یہ باور کروا دیا گیا ہے کہ وہ اس خطے کی پاور نہیں اور چین کے مقابلے میں اس نے اپنی دفاعی اہمیت اور طاقت کا غلط اندازہ لگایا تھا۔ اب بھارت کی یہ غلط فہمی بھی دور کر دی گئی ہے۔ 
مسیحا نفس وزیر اعظم عمران خان نے تہیہ کر رکھا ہے کہ وہ احتساب کے عمل سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ وہ اپنے ساتھیوں کی کرپشن کی انکوائری بھی کرواتے ہیں اور ان کے اندر اتنی جرأت ہے کہ یہ انکوئری رپورٹ منظر عام پر بھی لاتے ہیں۔ شوگر مافیا اور آٹا مافیا کی انکوائری رپورٹیں منظر عام پر لا کر عمران خان صاحب کی حکومت نے وہ کام کیا ہے جو اس ملک کی تاریخ میں آج تک کوئی نہیں کر سکا۔ اس لیے نہیں کر سکا کہ یہ کام بے حد مشکل ہے۔ طاقتور انڈسڑیز کا احتساب کرنے کی جرأت آج تک کسی کو نہیں ہو سکی۔ یہ کام بھی قدرت نے عمران خان صاحب ہی سے لیا ہے۔ اپوزیشن چیختی ہے کہ اسے انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے‘ لیکن وزیر اعظم عمران خان تو ان اپوزیشن لیڈروں کو اس لئے کٹہرے میں لا رہے ہیں کہ انہوں نے اس بد قسمت قوم کو مالی انتقام اور لوٹ کھسوٹ کا نشانہ بنایا تھا‘ جبکہ عمران خان صاحب نے اس قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ لوٹی ہوئی دولت کا حساب لیں گے اور عوام کی دولت واپس لائی جائے گی۔ یہ ہرگز شخصی انتقام نہیں‘ نہ ہی یہ سیاسی بنیادوں پر کئے جانے والے اقدامات ہیں بلکہ یہ تو وہ حساب ہے جو اس قوم اور ملک کی خاطر لیا جانا ناگزیر ہے۔ چین تو کرپشن پر کڑی سزا دیتا ہے اور سعودی ولی عہد نے بھی کڑے احتساب کا نمونہ پیش کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک سخت احتساب کی روایت قائم نہیں ہوتی عوام کی دولت لوٹنے والوں سے حساب بیباق نہیں ہو گا۔
کوئی شبہ نہیں کہ وزیر اعظم عمران خان ملک میں ہر لحاظ سے استحکام لا رہے ہیں۔ معاشی استحکام کے واضح آثار ہر ایک کو نظر آ رہے ہیں۔ اب جمہوری اور سیاسی استحکام کی بھی ایک روشن مثال قائم کی جائے گی۔ وزیر اعظم اپنے ساتھیوں کی تند و تیز تنقید کو بھی خندہ پیشانی سے سنتے ہیں کہ اختلافِ رائے جمہوریت کا حسن ہے۔ جمہوریت کی یہی روح بیدار ہو کے رہے گی اور وزیرا عظم عمران خان کو یہ بھی کریڈٹ ملے گا کہ انہوں نے ایک صاف ستھرے جمہوری نظام کو پنپنے کا موقع عطا کیا۔ وزیر اعظم کا یہ کردار انہیں عالمی افق پر روشن اور تاباں جمہوری کہکشاں میں چمکنے دمکنے کا موقع دے گا۔
اس روشن قوس قزح کے سائے میں ہم نے پچھلے دنوں حوالدار لالک جان شہید (نشانِ حیدر)‘ کیپٹن کرنل شیر خان شہید (نشانِ حیدر) اور نشان کشمیر برہان مظفر وانی شہید کو خراج تحسین پیش کیا۔ بھارت کی اگلی سات نسلیں یہ نام سن کر کانپتی رہیں گی۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

بلال اشرف کے مزید کالمز