پاکستان ایک ایسا روایت پرست معاشرہ ہے جو ابھی تک فرسودہ رسم و رواج اور دقیانوسی سوچ کا اسیر ہے جس کی وجہ سے خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ جہالت اور بے دلیل گمراہ کن اعتقادات کی وجہ سے انہیں بہتر غذائیت، تعلیم، صحت کی سہولتیں، صاف ستھرا ماحول اور انفرادی آزادی بھی میسر نہیں ہے۔ خواتین کو اپنی خودداری، قدر و قیمت، عزت نفس اور وقار کی حفاظت کرنے کے سلسلے میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اکثر خواتین محتاجی کی زندگی گزارتی ہیں کیونکہ ان کی معاشی سرگرمیاں خاندان کی آمدنی کے اعداد و شمار سے باہر رہتی ہیں اور ان کو زر کے پیمانے پر نہیں پرکھا جاتا۔ جیسا کہ خواتین کی جانب سے کھانا پکانے، کپڑے دھونے، گھر کی صفائی کرنے اور بچے پالنے کی سرگرمیوں کی مالیت خاندان کی آمدنی میں شمار نہیں کی جاتی۔ اسی طرح خواتین کے بہت سے دیگر کاموں کی مالیت کا احاطہ نہیں کیا جاتا۔ شہروں میں رہنے والی خواتین کی صورتحال قدرے بہتر ہے لیکن دیہی خواتین کی حالت بہت ہی ناگفتہ بہ ہے۔ باوجود اس کے کہ وہ زرعی معیشت میں گرانقدر خدمات سرانجام دیتی ہیں۔ پاکستان کا شمار ان خوش قسمت ملکوں میں ہوتا ہے جو ایک نہایت ہی محنتی اور جفاکش دیہاتی خواتین کی لیبر فورس کے وارث ہیں۔ اگرچہ اب خواتین تقریباً ہر شعبے میں تھوڑا بہت حصہ لیتی ہیں لیکن ان کا سب سے زیادہ اجتماع زراعت کے شعبے میں ہے۔ دیہی خواتین زراعت اور اس سے متعلق دیگر سرگرمیوں میں کلیدی کردار کی حامل ہیں۔ وہ فصلوں کی کٹائی، گھاس کاٹنے، کپاس چننے اور اس کی سوکھی چھڑیوں کو اکٹھا کرنے، فصلوں سے جڑی بوٹیاں تلف کرنے، نلائی اور فائبر سے بیج علیحدہ کرنے جیسے بے شمار کام سر انجام دیتی ہیں۔ خواتین کھیتوں سے لکڑیاں اکٹھا کرتی ہیں جو کھانا پکانے میں ایندھن کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔ دیہات میں پینے کیلئے صاف پانی کی دستیابی بھی ایک مسئلہ ہے۔ دور دراز علاقوں سے صاف پانی لانا بھی عورت کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ دیہاتی عورت کھیتوں میں ہونیوالی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے علاوہ لائیو سٹاک کی پرورش افزائش اور ان سے متعلق دیگر امور جیسا کہ دودھ دوہنے ، دودھ سے گھی اور پنیر وغیرہ تیار کرنے کے فرائض بھی سر انجام دیتی ہے۔ لائیو سٹاک دیہی معیشت کا بنیادی عنصر ہے جس سے نہ صرف خاندان کی خوراک کی ضروریات پوری کرنے میں مدد ملتی ہے بلکہ خاندان کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ اکثر کسان لائیو سٹاک کے بھی مالک ہوتے ہیں۔ لائیو سٹاک کی افزائش کئی ایک عوامل کی مرہون کی منت ہوتی ہے جیسا کہ ملکیت کا سائز، فصل اگانے کے طریقے اور چراگاہوں کی دستیابی وغیرہ۔ تاہم دیہی خواتین لائیو سٹاک کی پرورش اور افزائش کیلئے ہر قسم کی مشکلات کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہتی ہیں۔ اکثر خواتین بھیڑیں اور بکریاں بھی پالتی ہیں اور ان کی فروخت سے بھی خاندان کی آمدنی میں اضافہ کرتی ہیں۔ دیہی خواتین کی ایک بڑی تعداد مویشیوں کو پانی پلانے، دودھ دوہنے اور ان کے شیڈ صاف کرنے کی بھی ذمہ داری نبھاتی ہیں۔ مویشیوں کے گوبر سے پاتھیاں، اوپلے بنانا بھی دیہی خواتین کے فرائض میں شامل ہے۔ مختصر یہ کہ دیہی خواتین لائیو سٹاک سے متعلق تمام سرگرمیوں میں انتہائی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ 2008ء میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق 31فیصد خواتین مویشیوں کے چارے کا انتظام کرتی ہیں جبکہ دودھ دوہنے، مکھن، گھی اور پنیر وغیرہ تیار کرنے کا کام 58فیصد، گوبر سے پاتھیاں، اوپلے بنانے کا کام 90فیصد، مویشیوں کے شیڈ صاف کرنے کا کام 90فیصد اور کھیتوں کے لیے کھاد وغیرہ اکٹھا کرنے کا کام 85فیصد دیہی خواتین کرتی ہیں۔ بہت سی عورتیں کھیتوں کو پانی دینے کا کام بھی کرتی ہیں۔ بیمار مویشیوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داریوں میں عورتیں مردوں کا ہاتھ بٹاتی ہیں۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مویشیوں کی پرورش، افزائش اور ان کی دیکھ بھال میں خواتین کا کلیدی کردار ہے۔ مرغبانی بھی دیہی معیشت کا ایک اہم شعبہ ہے۔ خاندانوں کی سطح پر مرغبانی میں دیہی خواتین کا کردار نمایاں ہے۔ اگرچہ وہ جدید ٹیکنیک، ویکسینیشن اور بہتر فیڈ کا استعمال کرنے سے قاصر رہتی ہیں، لیکن ان کی مرغبانی کی تنظیم کافی متاثر کن ہے اور مرغبانی سے اپنے خاندان کی آمدنی میں اضافہ کرتی رہتی ہیں۔ زیادہ سے زیادہ آمدنی حاصل کرنے کے لیے خواتین تمام انڈے اور گوشت فروخت کر دیتی ہیں اور اپنے استعمال کے لیے وہ کچھ بھی نہیں بچاتیں۔ دیہی خواتین کو پوری خوراک بھی نہیں ملتی۔ غربت اور غذائی اجزا یعنی پروٹین وغیرہ کی مطلوبہ مقدار میں عدم دستیابی کی وجہ سے اکثر خواتین کی صحت بہت کمزور ہوتی ہے۔ اس کے باوجود وہ کاشتکاری میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ روایتی طور پر کپاس کی چنائی صرف خواتین کرتی ہیں۔ لیبر سروے کے مطابق 89فیصد عورتیں اس کام میں مصروف ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ گڈائی اور جڑی بوٹیاں تلف کرنے میں بھی مردوں کا ہاتھ بٹاتی ہیں۔ کپاس کی چنائی کے لیے خواتین کا انتخاب کرنے کے بارے میں خواتین سے مشورہ کیا جاتا ہے۔ کپاس کی چنائی کے وقت چنائیوں کی تعداد اور کپاس کو سٹور کرنے کی جگہ کے بارے میں بھی خواتین سے مشورہ لیا جاتا ہے۔ 28 سے 42فیصد فصلوں کے ادل بدل، فصل بونے کے وقت بیج حاصل کرنے کے ذریعے اور اپنی فصل سے بہتر کوالٹی کا بیج علیحدہ رکھنے کے بارے میں بھی مشورہ دیتی ہیں۔ 14 فیصد عورتیں سنڈی کے حملے سے بچائو کے طریق کار، کیڑے مار ادویات کے انتخاب اور کیڑے مار ادویات چھڑکنے کے بارے میں بھی معلومات فراہم کرتی ہیں۔ 21 فیصد خواتین پودوں کی حفاظت کیلئے متبادل طریقوں پر مشورہ دیتی ہیں۔ 22 سے 27 فیصد خواتین مزراعت کے لیے لینڈلارڈ کے انتخاب، مداخل کی خرید، کھیتوں کو ٹیوب ویل سے پانی دینے اور پیداوار کی فروخت کے سلسلے میں ایجنسی کے انتخاب کے بارے میں بھی اپنی رائے دیتی ہیں۔ دیہی خواتین کا دن پو پھٹنے سے بہت پہلے شروع ہوجاتا ہے اور سورج غروب ہونے کے بعد کئی گھنٹوں تک جاری رہتا ہے ۔وہ دن میں 16 سے 18 گھنٹے تک کام کرتی ہے۔ اس کے دن کا آغاز گھر کی صفائی سے شروع ہوتا ہے جس کے بعد پینے کے تازہ پانی کا انتظام کرتی ہے ۔برتن دھونے، لانڈری، خاندان کے لیے کھانا تیار کرنے، بچوں کی دیکھ بھال، کپڑوں کی سلائی کا کام بھی نہایت عمدہ طریقے سے سرانجام دیتی ہے۔ ان کاموں کے علاوہ زراعت کے تمام شعبوں میں بھی دیہی خواتین کا بڑا کردار ہے۔ ان کا کام فصل کی پیدائش، لائیو سٹاک کی پرورش و افزائش، گھریلو صنعتوں کی عملداری، اہل و عیال اور خاندان کی پرورش اور محافظت سے متعلق سرگرمیوں، پانی، ایندھن او رمویشیوں کے لیے چارے کی نقل و حمل کا انتظام کرنا بھی شامل ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کی غذائی خوراک کی پیدائش میں دیہی خواتین 50فیصد حصہ ڈالتی ہیں لیکن اس کے اپنے نصیب میں دو وقت کی روٹی کا میسر ہونا بھی مشکل ہوتا ہے۔ باوجودیکہ دیہی خواتین کی ان تمام کاموں اور زراعت کے شعبے میں اتنی وسیع شمولیت ہے پھر بھی ان کی تعظیم و تکریم ،کردار اور عظمت کی کوئی شناخت نہیں اور تمام سماجی، معاشی اور سیاسی مظاہر کے مطابق انہیں کمتر درجے کی مخلوق سمجھا جاتا ہے۔ بڑے زمیندار اور جاگیردار بھی ان کا استحصال کرتے ہیں اور اپنے ذاتی مفاد اور فائدے کے لیے انہیں غلام اور پراپرٹی کی طرح استعمال کرتے ہیں۔ کیا سول سوسائٹی اور حکومت ان کے جائز حقوق اور عزت وقار کے تحفظ کے لیے ضروری اقدامات کرے گی؟