غربت بنیادی مسئلہ ہے جو کسی بھی معیشت کی ترقی کے لیے مضر سمجھا جاتا ہے۔ غربت انسانی وسائل کی سرمایہ اندوزی کے عمل میں رکاوٹ ڈالتی ہے کیونکہ غربت کی وجہ سے عام لوگوں کو تعلیم اور اچھی غذا تک رسائی حاصل نہیں ہوتی‘ جو ان کی استعدادِ کار اور مہارتوں کو چمکانے کے لیے نہایت ضروری ہیں۔ نتیجتاً غربا کیلئے معیشت کے بارے میں ضروری معلومات کا حصول اور اپنی پیداواری صلاحیت بڑھانا مشکل ہوجاتا ہے اور معاشی ترقی اور پیداواری عمل سست روی کا شکار ہوجاتا ہے۔ غربت ایک ایسی صورتحال ہے جس میں مبتلا افراد کے وسائل اور آمدنی ناکافی ہوتی ہے یا سرے سے آمدنی ہوتی ہی نہیں۔ تاہم عالمی مالیاتی اداروں نے غربت کا معیار ایک سے دو ڈالر فی کس روزانہ یا اس سے بھی کم آمدنی مقرر کیا ہے۔ غربا آمدنی کم ہونے کی وجہ سے روزمرہ استعمال کی ضروری اشیاء خریدنے سے بھی قاصر رہتے ہیں۔ معاشرے اور عوام الناس کو غربت کی بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے کیونکہ غربت کے ستائے ہوئے کچھ لوگ مایوس ہو کر مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہوجاتے ہیں‘ جس سے معاشرے کا سکون منتشر ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ معاشرے کی نشو و نما اور ترقی کے لیے ضروری ہے کہ غربت پر قابو پایا جائے۔ پاکستان میں پائی جانے والی غربت کے بارے میں متضاد آراء رہی ہیں۔ ہرحکومت نے غربت کے اعداد و شمار کو گھٹا کر پیش کیا ہے تاکہ اس کی کارکردگی کے بارے میں منفی تاثر پیدا نہ ہو۔ اس کے برعکس خود مختار اداروں اور غیر جانبدار مبصرین کے مطابق پاکستان میں غربت میں مبتلا افراد کی تعداد حکومتی اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر حکومتی اعداد و شمار کے مطابق 2005ء میں غربت کی شرح 22.3 فیصد تھی اور 2007-8ء میں کم ہو کر 17.5 فیصد رہ گئی تھی جبکہ محبوب الحق سنٹر فار ڈویلپمنٹ کے مطابق 2008-09ء میں 73 فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہے تھے۔ اسی طرح پچھلے پانچ سالوں میں بھی غربت کی شرح گھٹا کر پیش کی جاتی رہی ہے۔ عالمی بینک کی تازہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں غربت کی شرح 51فیصد ہے۔ محدود وسائل، آبادی میں تیز رفتار اضافہ، جہالت و ناخواندگی اور انسانی وسائل میں ٹیکنالوجی اور انتظامی صلاحیتوں کے فقدان اور نااہلی ایسے عوامل ہیں جن کی وجہ سے غربت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ انرجی کے بحران، سیاسی عدمِ استحکام اور دہشت گردی کی وجہ سے ٹیکسٹائل ملوں اور دیگر اہم صنعتوں کی بندش سے بے روزگاری بلند شرح سے بڑھ رہی ہے جس سے غربت میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔ غذائی اشیاء کی گرانی‘ یوٹیلٹی بلوں میں بڑے اضافے اور غیرمنصفانہ اور جابرانہ ٹیکس نظام کی وجہ سے غربا اور امرا کے درمیان پائی جانے والی خلیج وسیع سے وسیع تر ہوتی جارہی ہے اور عام آدمی کے لیے کئی ایک معاشی اور سماجی مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ شہری علاقوں کی نسبت دیہی علاقوں میں غربت کی شرح بہت زیادہ ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 75فیصد غربا دیہات میں رہتے ہیں جنہیں زندگی کی بنیادی سہولتیں بھی میسر نہیں ہیں۔ دیہی معیشت کا زراعت پر بھاری انحصار ہے اور تقریباً 66 فیصدا فراد کا ذریعہ معاش زراعت ہے چونکہ زراعت دیہی عوام کی آمدنی کا بڑا ذریعہ ہے۔ زراعت کی ترقی غربت کم کرنے میںاہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ ایک ادارے کی رپورٹ کے مطابق اس وقت 100ملین سے زیادہ افراد غربت کی دلدل میں پھنس چکے ہیں۔ اس ادارے نے غربت کی مختلف جہتوں کا ایک انڈیکس تیار کیا ہے جس میں تعلیم، صحت، بجلی، کھانا پکانے کے ایندھن وغیرہ کو شامل کیا ہے۔ اس انڈیکس میں غربا کی تعداد کے علاوہ غربت کی شدت کا بھی اندازہ لگایا گیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تعلیم سے محروم لوگوں کی تعداد 20 فیصد سے زیادہ ہے‘ جو کبھی سکول نہیں گئے۔ غذائیت کے بارے میں صحیح اعداد و شمار دستیاب نہیں۔ بچوں کی شرح اموات 30فیصد ہے۔ جہاں تک معیار زندگی کا تعلق ہے‘ 10فیصد لوگ بجلی کی سہولت کے بغیر زندگی بسر کررہے ہیں‘ 33.3 فیصد کو صحت کی سہولتیں میسر نہیں‘ 8فیصد کو پینے کا خالص پانی دستیاب نہیں‘ 41فیصد کھانا پکانے کے ایندھن کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتے اور 26فیصد کے پاس کسی قسم کا کوئی اثاثہ نہیں۔ یہ محرومیاں غربت کے ہم جہتی مظاہر ہیں۔ اس رپورٹ میں غربا کی محتاجی کی سطح کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 34.3 فیصد آبادی کی محتاجی کی سطح 40فیصد ہے۔ 24فیصد آبادی کی 50فیصد 14فیصد کی 60فیصد اور 6.8فیصد کی 70فیصد اور 35فیصد آبادی کی محتاجی کی سطح 80 فیصد ہے۔ غربت کے پھیلائو کا صحیح اندازہ لگانے کے لیے ضروری ہے کہ محض آمدنی اورصرف کی کمی کے علاوہ انسانی محتاجی کے دیگر اہم پہلوئوں کا بھی جائزہ لیا جائے جن کا عوام کو ہر روز سامنا کرنا پڑتا ہے جیسا کہ معیاری تعلیم، بہتر غذائیت اور صحت کی مناسب سہولتوں کا فقدان اور سکیورٹی کی مخدوش صورتحال وغیرہ۔ وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو غربت مواقع کی عدم دستیابی سے جنم لیتی ہے جیسا معقول روزگار، اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے اور بنیادی صحت کی سہولتوں کی عدم دستیابی۔ مواقع کی غیرمساویانہ تقسیم آمدنی کی غیر مساویانہ تقسیم سے زیادہ غیر منصفانہ ہے۔ 2001ء کے بعد ایسا لگتا تھا کہ معاشی صورتحال بہتر ہورہی ہے کیونکہ مجموعی قومی آمدنی میں قدرے بلند شرح سے اضافہ ہو رہا تھا لیکن سماجی شعبے کی صورتحال پر اس کے مثبت اثرات مرتب نہیں ہوئے اور پچھلی کئی دہائیوں کی طرح سماجی شعبے کو نظرانداز کیا جاتا رہا ہے اور اس شعبے کو بہت ہی کم فنڈز مہیا کیے گئے۔ نتیجتاً نہ شرح خواندگی اور صحت عامہ کی سہولتوں میں بہتری پیدا ہوئی اور نہ ہی عام آدمی کی حالت میں کوئی سدھار آیا۔ پچھلے پانچ سالوں میں Cost of Livingمیں نہایت بلند شرح سے اضافہ ہوا ہے۔ اس عرصے میں غذائی اشیاء کی قیمتوں میں 100 سے 200فیصد تک اضافہ ہوچکا ہے۔ یوٹیلٹی بلز اور دیگر ضروریات پر اٹھنے والے اخراجات کے علاوہ سکول اور کالج کی فیسوں اور کتابوں کی قیمتیں بھی کئی گنا بڑھ چکی ہیں۔ حکومت نے اس عرصے میں اجرتوں میں تقریباً 100 فیصد اضافہ کیا ہے لیکن اس سے غرباء کی حالت زار میں کوئی بہتری نہیں آئی کیونکہ ان کی قوت خرید ساکن رہی یا پہلے سے بھی کم ہوگئی۔ مزید برآں اجرتوں میں اضافے سے صرف 30فیصد لوگوں کو فائدہ ہوتا ہے۔ کیونکہ ملک کی 70فیصد ورک فورس دیہات اور غیر رسمی سیکٹرز میں کام کرتی ہے جہاں نہ تو لیبر قوانین ہیں اور نہ ہی کم از کم اجرت اور ملازمت کی سکیورٹی کا سوال پیدا ہوتا ہے۔ لہٰذا ان کی صورتحال پہلے سے بھی بدتر ہوگئی ہے۔ انکم سپورٹ پروگرام بھی محتاج عوام کی زندگیوں میں کوئی بڑی بہتری نہیں لا سکا۔ بلکہ اس قسم کے پروگرام غربت میں کمی لانے کے بجائے محتاجی کو برقرار رکھنے کا باعث بنتے ہیں۔ غربت پر قابو پانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ملکی وسائل کو پیداواری مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے اور روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کیے جائیں۔ تعلیم اور صحت کی سہولتوں میں بہتری لائی جائے اور دولت کی تقسیم میں عدم مساوات کو ختم یا کم کیا جائے۔