حکمرانی کا بحران

موجودہ حکومت کو اقتدار میں آئے ہوئے چار ماہ ہو چکے ہیں۔ اس کی ابھی تک کی کارکردگی دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ ملک کے معاملات جیسے کیسے خود ہی چل رہے ہیں‘ حکومت یا حکمرانی نام کی کوئی چیز نظر نہیں آ رہی۔ حکومت نے اقتدار میں آتے ہی سب سے پہلا بڑا فیصلہ یا کارنامہ 500 ارب روپے گردشی قرض کی ادائیگی کا کیا تھا لیکن اس فیصلے کا بھرم بھی دو ماہ میں ہی کھل گیا کیونکہ گردشی قرض نے پھر سر اٹھانا شروع کردیا ہے اور دو ماہ کے عرصے میں دوبارہ 165 ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔ بجٹ کے موقع پر حکومت نے انتظامی اخراجات کم کرنے اور ملکی وسائل کو بڑھانے کے بلند بانگ دعوے کیے تھے لیکن اشرافیہ کے طاقتور طبقوں سے ان کی استعداد کے مطابق ٹیکس حاصل کرنے کے لیے کوئی کارروائی نہیں کی بلکہ کاروباری افراد کو 156 ارب روپے کی مزید ٹیکس رعائتوں سے نوازا گیا ہے۔ اس کے برعکس بالواسطہ ٹیکسوں اور یوٹیلٹیز کی قیمتوں میں بار بار اضافہ کر کے مہنگائی کا طوفان برپا کردیا گیا‘ جس کے بوجھ تلے غریب اور پسماندہ طبقات بُری طرح پس رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ غیر ترقیاتی اخراجات بھی کم نہیں ہوئے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو حکومت کو ترقیاتی پروگرام میں 120 ارب روپے کی کٹوتی نہ کرنا پڑتی‘ جسے 540 ارب روپے سے کم کر کے 420 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔ حکومت نے اقتدار میں آتے ہی آئی ایم ایف سے قرض حاصل کرنے کے لیے ہاتھ پائوں مارنے شروع کردیے تھے۔ 4 ستمبر کو آئی ایم ایف کے بورڈ نے 6.7 ارب ڈالر قرض کی منظوری دے دی جس کے ساتھ زرمبادلہ کی آزادانہ حرکت‘ معیشت کو آزاد کرنے کے وعدے‘ سرکاری مداخلت میں کمی‘ درآمدی کنٹرول کے خاتمے‘ پرائیویٹائزیشن کے عمل کو فروغ‘ جی ایس ٹی اور دیگر ٹیکسوں میں اضافہ‘ سبسڈیز کا خاتمہ اور نہ جانے کیا کیا شرائط رکھی گئیں۔ اس سے پوری معیشت آئی ایم ایف کی یرغمال بن کر رہ گئی ہے اور معیشت مکمل ڈالرائزیشن کی طرف بڑھ رہی ہے‘ جس کی وجہ سے روپے کی قدر پر دبائو بڑھتا جا رہا ہے اور آنے والے دنوں میں روپے کی قدر میں گراوٹ کا رجحان جاری رہ سکتا ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد کے سلسلے میں جولائی اور اگست کے مہینے میں سٹیٹ بینک آف پاکستان نے اوپن مارکیٹ سے 125 ملین ڈالر خریدے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے مطابق پاکستان کو جون 2014ء تک زرمبادلہ کے ذخائر 9 ارب ڈالر تک بڑھانا ہوں گے۔ اس مقصد کے لیے دیگر ڈونرز سے قرض حاصل کرنے کے علاوہ اوپن مارکیٹ سے بھی بھاری مقدار میں ڈالر خریدنا پڑیں گے۔ اس سے ڈالر کی قلت پیدا ہوگی اور پاکستانی کرنسی مزید دبائو کا شکار ہوگی۔ چونکہ حکومت کمرشل بینکوں اور اوپن مارکیٹ سے ڈالر خرید رہی ہے‘ ڈالر مارکیٹ سے غائب ہو رہے ہیں اور روپے کی قدر تنزلی کا شکار ہے۔ ایف ایکس مارکیٹ پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ میں پائے جانے والے گیپ کی وجہ سے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں میں اپنی ترسیلاتِ زر ’’ہنڈی یا حوالہ‘‘ کے ذریعے بھیجنے کا رجحان پیدا ہو رہا ہے۔ یہ ملکی مفاد میں نہیں کیونکہ اس سے حکومتی خزانے میں جمع ہونے والی ترسیلاتِ زر کم ہو سکتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آئی ایم ایف چاہتا تھا کہ روپے کو Devalue کردیا جائے لیکن حکومت نے روپے کی قدر مرحلہ وار کم کرنے کو ترجیح دی۔ آئی ایم ایف کا خیال تھا کہ ایسا کرنے سے پاکستانی برآمدات میں اضافہ ہوگا لیکن روپے کی قدر میں کمی سے درآمدات مہنگی ہو رہی ہیں اور ہماری بہت سی برآمدی اشیاء کی تیاری میں درآمدی خام مال استعمال ہوتا ہے۔ جس سے ان اشیاء کی لاگت بڑھ جائے گی۔ نتیجتاً ہماری برآمدی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا اور علاقائی ملکوں کے مقابلے میں ہماری مسابقتی پوزیشن کمزور ہو جائے گی۔ پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے ہمارے قرض کے بوجھ میں 420 ارب روپے کا اضافہ ہو چکا ہے۔ دہشت گردی کے معاملے نے بھی حکومت کو الجھا رکھا ہے اور دہشت گردوں کی پے در پے کارروائیوں کی وجہ سے ان سے مذاکرات کا معاملہ بھی کھٹائی میں پڑتا نظر آ رہا ہے۔ تیل کی قیمتوں میں اضافے اور روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے درآمدات پر اٹھنے والے اخراجات میں اضافہ ہو رہا ہے اور درآمد کی جانے والی اشیاء کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ اس سے ملک میں غذائی اشیاء کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس سال کے شروع سے ہی افراطِ زر کے دبائو میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا تھا۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے زری پالیسی بیان میں خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس سال اوسط افراطِ زر 12 فیصد سے بھی تجاوز کر سکتا ہے جبکہ بجٹ میں افراطِ زر کا ہدف 8 فیصد مقرر کیا گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس سال کے اختتام تک افراطِ زر 16 فیصد کی شرح کو چھو سکتا ہے۔ حکومت نے 8 جون سے 30 اگست تک سٹیٹ بینک آف پاکستان سے 650 ارب روپے کا قرض لیا ہے یعنی ہر روز 7.5 ارب روپے کے حساب سے۔ بجٹ تقریر میں حکومت نے قرض کم کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ اس کے برعکس حکومت نے قرض کی مقدار میں اضافہ کردیا ہے۔ پچھلے سال مالیاتی خسارہ 8.8 فیصد تھا۔ حکومت نے اس سال کا ہدف 6.3 فیصد مقرر کیا ہے لیکن ابھی تک کی آمدنی اور اخراجات کے اعدادو شمار سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس سال بھی مالیاتی خسارہ 8 فیصد سے کم نہیں رہے گا۔ جہاں تک انرجی کے شعبے کا تعلق ہے‘ بجلی کے ڈسٹری بیوشن نقصانات (Line Losses) میں جولائی 2012ء کی نسبت جولائی 2013ء میں 3.16 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ بجلی کے بقایات جات جون میں 411 ارب روپے تھے۔ جولائی میں بڑھ کر 440 ارب روپے ہو گئے ہیں۔ حکومت نہ تو ڈسٹری بیوشن نقصانات کم کرنے میں کامیاب ہو سکی ہے اور نہ ہی صارفین سے بلوں کی وصولی میں بہتری لا سکی ہے اور صورتحال پہلے سے بھی بدتر ہے۔ امن و امان کی خراب صورت حال کی وجہ سے کسی مثبت پیشرفت کی امیدیں ماند پڑتی جا رہی ہیں۔ حکومت کے ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت نے ملکی وسائل میں کسی قابل ذکر اضافے اور دیگر چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ابھی تک کوئی موثر کارروائی نہیں کی۔ معاشی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ دہشت گردی‘ لوڈشیڈنگ اور سیاسی عدم استحکام ہیں۔ اس وجہ سے ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ لگانے سے احتراز کر رہے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں سرمایہ کاری کی شرح صرف 12 فیصد ہے۔ معاشی ترقی کے حصول کے لیے اسے 17 سے 20 فیصد تک بڑھانا ہوگا۔ 2008ء میں بیرونی سرمایہ کاری 5 ارب ڈالر تھی جو کہ ایک ارب ڈالر رہ گئی ہے۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ سکیورٹی کی صورت حال میں بہتری کی امید نظر نہیں آ رہی۔ اس لیے بیرونی سرمایہ کاری میں بھی کسی بہتری کی گنجائش نہیں ہے۔ پچھلے پانچ سالوں میں ہماری معیشت کی شرح نمو صرف 3 فیصد رہی ہے۔ ٹیکس جی ڈی پی تناسب 9 فیصد کی پست ترین سطح تک گر چکا ہے۔ بے روزگاری کی سطح 7 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے۔ اس وقت سب سے بڑا چیلنج قانون کی حکمرانی بحال کرنا ہے۔ حکومت کے بلند بانگ دعوئوں اور کوششوں کے باوجود معاشی ترقی کے سلسلے میں کوئی پیشرفت نہیں ہو رہی اور افراطِ زر میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومت کی اعلیٰ ترین سطحوں پر کرپشن جڑ پکڑ چکی ہے جس سے قومی وسائل کا خون نچوڑا جا رہا ہے۔ ایف بی آر ٹیکس ریونیو میں اضافہ کرنے سے قاصر ہے۔ کاروبار دوست حکومت کے لیے ٹیکس ریونیو بڑھانا درد سر بن چکا ہے۔ حکومت نے یوتھ کے لیے 22 ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کیا ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ فنڈز کہاں سے آئیں گے۔ 540 ارب روپے کے ترقیاتی پروگرام میں پہلے ہی 120 ارب روپے کی کٹوتی کردی گئی ہے۔ بجٹ میں وزیراعظم کے خصوصی ترقیاتی پروگرام کے لیے 115 ارب روپے کی بلاک الاٹمنٹ رکھی گئی تھی۔ کہا جا رہا ہے کہ وسائل کی کمی کی وجہ سے وہ بھی ختم کردی گئی ہے۔ کاروباری برادری کو مطمئن کرنے کے لیے ٹیکس رعائتیں دینے کے علاوہ شناختی کارڈ اور ٹیکس نمبر ظاہر کرنے کی شرط بھی ختم کردی گئی ہے۔ مالیاتی خسارہ بڑھتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے بیرونی وسائل پر انحصار بڑھتا جا رہا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ابھی تک جاری پالیسیوں کا نہایت گہرائی سے جائزہ لے اور یہ پتہ لگانے کی کوشش کرے کہ کہاں غلطی ہوئی ہے تاکہ مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے عوام کو کچھ ریلیف مہیا کیا جا سکے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں