پاکستانی عوام مہنگائی اور افراطِ زر کے عذاب میں مبتلا ہیں۔ گرانی مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔ خدشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں بھی افراطِ زر میں کمی نہیں آئے گی کیونکہ افراطِ زر کو کنٹرول کرنا تو درکنار حکمرانوں کا ہر اقدام گرانی کی شدت میں اضافہ کا باعث ہے۔ ارباب اختیار کی پالیسیاں بے لگام افراطِ زر کی راہ ہموار کر رہی ہیں۔ جو افراد 100روپے روزانہ کماتے ہیں۔ ان کے لئے افراطِ زر میں 55فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ محکمہ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق حساس پرائس انڈکس SPIمیں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ۔ اور اکتوبر کے دوسرے ہفتے میں پچھلے سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 11فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اس بلند شرح مہنگائی کی بڑی وجہ غذائی اشیاء کی قیمتوں میں بڑا اضافہ تھا۔ جس سے غربت میں مبتلا افراد کی معاشی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ یہ ہفتہ وار افراطِ زر 8000اور 8000سے 12000ماہانہ آمدنی والے خاندانوں کے لئے بہت تکلیف دہ تھا۔ کیونکہ ان کے لئے مہنگائی کا بوجھ بالترتیب 33.95اور 32.69فیصد بڑھا ہے۔ اس ماہ 8001سے 12000روپے ماہانہ آمدنی والے گروپس یا افراد کے لئے SPIمیں 32.01فیصد اور 12000روپے سے زیادہ آمدنی والے گروپس کے 31.42فیصد اضافہ ہوا۔ اکثر معاشی تجزیہ کاروں نے اس پر فکر مندی کا اظہار کیا۔ کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ فوڈ سکیورٹی کی مخدوش صورتحال کی وجہ سے افراطِ زر میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ ضروری غذائی اشیاء کی گرانی میں مسلسل اضافے سے سب سے زیادہ کم آمدنی والے افراد متاثر ہوتے ہیں۔ پٹرولیم اور بجلی کے محصول میں اضافے سے صورتحال مزید سنگین ہو گئی ہے ۔ اس کے نتیجے میں ٹرانسپورٹ کے اخراجات میں فوری اضافہ کر دیا گیا ہے۔ محکمہ شماریات کے مطابق پچھلے چند مہینوں میں 53میں سے 47اشیاء کی قیمتوں میں گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں بلند شرح سے اضافہ ہوا ہے اور کچھ اشیاء کی قیمتیں تو 125فیصد سے بھی زیادہ بڑھ گئیں۔ عام طور پر روٹی ،دال اور چاول غریب افراد کی خوراک کے لازمی اور بڑے جزو ہوتے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق دالوں کی قیمتوں میں 70فیصد اضافہ ہو چکا۔ گندم کی قیمت میں 93فیصد اور باسمتی اور عام چاول کی قیمتوں میں 30فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ غریب اور کم آمدنی والے افراد فاقہ کشی پر مجبور ہیں۔ چند سال پہلے تک ایسی صورتحال کا گمان بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ پاکستان کو اس وقت اپنی 67سالہ تاریخ کے بدترین افراطِ زر کا سامنا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 1949-50ء سے 2012-13کے دوران پاکستان کا CPI،45گنا بڑھ چکا ہے۔ غذائی اشیاء کی قیمتوں میں پچھلے تیس سالوں سے اضافہ ہو رہا ہے Core Inflationکو ر افراطِ زر (جس میں غذائی اشیا اور انرجی شامل نہیں کی جاتیں) جون 2012ء میں 5.7فیصد تھا جو بڑھ کر جون 2013ء میں 13فیصد ہو گیا۔ اکتوبر کے دوسرے ہفتے تک افراطِ زر 9فیصد سے تجاوز کر چکا تھا۔ جبکہ جون 2013ء میں 5.9فیصد تھا حکومت بینکوں سے بھاری قرض لے رہی ہے ۔ نئے کرنسی نوٹ دھڑا دھڑ چھاپے جا رہے ہیں‘ جس سے زر کی مقدار میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس سے افراطِ زر میں تیز رفتاری سے اضافہ ہوتا رہیگا۔ سرکاری اعداد و شمار میں افراط ِ زر کو گھٹا کر دکھایا جاتا ہے۔ ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹنگ کے سدباب کے لئے تادیبی کارروائی ہونی چاہئے۔ چونکہ حکومت صنعت کاروں تاجروں اور کاروباری افراد پر مشتمل ہے‘ اس لئے کسی کے خلاف کارروائی نہیں ہوتی‘ منافع خوری میں سب ایک ہیں۔ ہر سال رمضان اور عید کے موقع پر خود غرض، حریص تاجر اور پرچون فروش مصنوعی قلت، مہنگائی پیدا کرکے خوب مال کماتے ہیں۔ ملک میں اجارہ داریاں اور کارٹل (شوگر‘ چینی‘ سیمنٹ اور فرٹیلائزر وغیرہ کے مالکان) ناجائز منافع خوری میں ملوث ہیں۔ پاکستان کا مسابقتی کمیشن Competetive Commision of Pakistanان کے سامنے بے بس ہے اور ان کے خلاف کسی قسم کا ایکشن لینے سے قاصر ہے؛ جبکہ یہی کارٹل اور اجارہ دار کاشتکاروں کو غیر معیاری کیڑے مار ادویات، کھاد اور دیگر مداخل مہنگے داموں بیچ کر انہیں لوٹ رہے ہیں اور یہی لوگ سرکاری اداروں سے ملی بھگت کر کے مصنوعی قلت پیدا کر کے اونچی قیمتیں مقرر کرتے ہیں۔ گرانی کی ایک اور بڑی وجہ بالواسطہ ٹیکسوں میں مسلسل اضافہ ہے۔ بالواسطہ ٹیکسوں میں کمی کر کے مہنگائی میں کمی کی جا سکتی ہے‘ لیکن زری اور مالیاتی پالیسیوں کو ری سٹرکچر کر کے رسد اور طلب میں پائے جانیوالے فرق پر قابو پائے بغیر مہنگائی کے جن کو بوتل میں بند نہیں کیا جا سکتا۔ مہنگائی سے SPIبڑھتا ہے اور یہ براہِ راست غربت میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ عالمی بنک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنیوالوں کی تعداد دس کروڑ کے قریب ہے ان میں 32فیصد Chronicاور 5فیصد مطلق غربت کا شکار ہیں۔ جو لمبے عرصے تک غربت کا شکار رہتے ہیں۔ اس کے برعکس غربت کی لکیر سے اوپر زندگی بسر کرنیوالوں میں 21فیصد عارضی طور پر غربت کی لکیر سے اوپر زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اور 13فیصد عارضی غیر محفوظ ہیں۔ افراطِ زر اکثر معاشی بیماریوں کی جڑ ہے۔ اس سے معیشت میں غیر یقینی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے معاشی استحکام خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ اس سے غریب اور کم آمدنی والے افراد پر زیادہ مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ کیونکہ غربا کے وسائل محدود ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ زیادہ غیر محفوظ ہیں۔ افراطِ زر میں کمی سے غربا اور کم آمدنی والے افراد کو فائدہ ہوتا ہے۔ پچھلے کئی سالوں سے سخت زری پالیسی جاری رہنے کے باوجود افراطِ زر پر قابو نہیں پایا جا سکا۔ کیونکہ ہماری آبادی بلند شرح سے بڑھتی رہی ہے۔ ہماری آبادی ساڑھے اٹھارہ کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے اور 2فیصد سالانہ کی شرح سے بڑھ رہی ہے۔ اگر یہ شرح جاری رہی تو 2050ء میں 300ملین یعنی تیس کروڑ ہو جائیگی۔ لیکن اشیاء و خدمات مطلوبہ مقدار میں پیدا کرنے میں ناکامی اور سپلائی میں بدانتظامی کی وجہ سے قیمتوں میں اضافہ ہوتا رہیگا۔ مہنگائی کثیر جہتی عمل ہے ۔ دوہری معیشت بھی اس کی ذمہ دار ہے۔ کیونکہ متوازی معیشت میں کرپشن اور جرائم بھی ساتھ ساتھ چلتے ہیں جن پر قابو پانا مشکل ہوتا ہے۔ اگر صورتحال میں بہتری کے لیے اقدامات نہ کیے گئے تو اگلے چند مہینوں میں SPI،40فیصد سے بھی تجاوز کر سکتا ہے۔ اس سے غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنیوالوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہو جائیگا۔ غیرمنصفانہ معاشی پالیسیاں‘ دولت کی غیر مساویانہ تقسیم اور ری گریسو اور بالواسطہ ٹیکس بھی غربت میں اضافے کا باعث ہیں ، حکمرانوں نے معاشی اور سماجی انصاف کی فراہمی کے لئے کوئی کوشش نہیں کی۔ ملک قرض کے جال میں بری طرح پھنسا ہوا ہے۔ اور حکمرانی کا بحران بھی درپیش ہے۔ کیا حکومت افراطِ زر اور غربت پر قابو پانے کے لئے کوئی اقدامات کر سکے گی ؟یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔