سال 2014-15ء کے بجٹ کا اعلان ہو چکا ہے۔ حکومت بڑے بلند بانگ دعوے کر رہی ہے کہ یہ کاروبار دوست بجٹ ہے‘ اس سے سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا‘ معاشی ترقی کو تحریک ملے گی‘ ترقیاتی اخراجات میں بلند شرح سے اضافہ ہوگا اور پبلک سیکٹر میں بلند نظر اور پروقار میگاپروجیکٹس شروع کیے جائیں گے ۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ غریب دوست بجٹ ہے۔ اس میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا‘ اس سے افراطِ زر پر قابو پانے میں مدد ملے گی اور یہ بجٹ پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانے کی طرف ایک بڑا قدم ہوگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان وسائل سے مالا مال ہے اور پاکستان میں ایشین ٹائیگر بننے کی تمام صلاحیتیں موجود ہیں۔ پاکستان واقعی اب تک ایشین ٹائیگر بن سکتا تھا اگر ہماری حکومتیں مخلص ہوتیں اور اپنے وعدوں کے مطابق مطلوبہ معاشی پالیسیوں پر عملدرآمد کر پاتیں لیکن ایسا نہیں ہو سکا کیونکہ حکومتیں مخلص نہیں تھیں۔
ہمارے ملک پر غیر حاضر لینڈ لارڈز‘ شہروں میں بسنے والی Rentier Class اور اقتدار کے خواہش مند جرنیلوں کی حقیر سی اقلیت حکمران رہی ہے۔ ان کی واحد مشترکہ قدر فیوڈل مائنڈ سیٹ ہے۔ ان کی پالیسیوں کا محور خودپرستی تھا لیکن ایسی پالیسیاں ملک اور عوام کے مفاد کے منافی تھیں۔ انہوں نے اسراف اور اپنے ذاتی فائدے کے لیے بھاری قرض لے کر ملک کے مستقبل کو گروی رکھنے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ملک کے طاقتور افراد/ طبقات نے دولت کے انبار لگا رکھے ہیں اور اپنی دولت رئیل اسٹیٹ، سٹاک مارکیٹ‘ شاہانہ رہائشگاہوں‘ زیر زمین معیشت‘ بیرون ملک بینکوں اور کاروبار میں لگا رکھی ہے۔ ابھی تک موجودہ حکومت بھی اپنے پیش رو حکمرانوں کے نقش قدم پر چل رہی ہے۔ اگر حکومت ملکی آبادی کی اکثریت کی فلاح و بہبود کے لیے پائیدار اور بنیادی نوعیت کا کام کرنا چاہتی ہے تو اسے بڑے پیمانے پر بجٹ اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے۔ بجٹ تیار کرنے کا مروجہ طریقہ یہ ہے کہ ریونیو کی دستیابی سے قطع نظر سیاسی ضروریات/ مصلحتوں کے پیش نظر اخراجات کا تخمینہ لگایا جاتا ہے۔ اس کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس پالیسی کا کوئی معاشی جواز نہیں کہ قطع نظر ریونیو کے پہلے اخراجات کا تخمینہ لگایا جائے اور اس کے بعد غریب اور محروم طبقات پر بالواسطہ ٹیکسوں اور افراط زر کا بوجھ ڈال دیا جائے۔ ملکی اور بیرونی ذرائع سے قرض لے کر اخراجات پورے کیے جائیں اور قرضوں کی خدمت اور واپسی کا بوجھ آنے والی نسلوں پر ڈال دیا جائے۔ بجٹ تیار کرنے کا موجودہ طریقہ ترک کر کے ریونیو سائڈ سے بجٹ تیار کیا جائے اور ریونیو کی دستیابی کے مطابق اخراجات کی منصوبہ بندی کی جائے۔ مزید وسائل حاصل کرنے کے لیے بالواسطہ کی بجائے براہ راست ٹیکسوں پر انحصار کرنا چاہیے۔ بالواسطہ ٹیکسوں کا بوجھ غریب عوام کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ جن کی قوت خرید روز بروز گھٹتی رہتی ہے‘ اس لیے مالیاتی ریفارمز کا پہلا ہدف یہ ہونا چاہیے کہ ٹیکس ریونیو کا بڑا حصہ براہ راست ٹیکسوں سے حاصل کیا جائے۔
ایک جامع انکم ٹیکس پالیسی ٹیکس نظام کا کلیدی عنصر ہونی چاہیے۔ آمدنی کے ذریعے سے قطع نظر جس شخص کی آمدنی قابل ٹیکس سطح سے زیادہ ہو‘ اسے ٹیکس ادا کرنے کا پابند بنایا جائے اور جیسے جیسے آمدنی بڑھتی جائے‘ ٹیکس کی شرح میں اضافہ ہوتا جائے۔ اگر ٹیکس نظام کو منصفانہ بنانے یا اگر ہر کسی کو ایک جیسا ٹیکس ادا کرنے کا پابند بنانے میں کوئی آئینی رکاوٹ ہو تو اس کو قانونی اور آئینی اصلاحات کے ذریعے دور کیا جائے۔ ایک جتنی آمدنی والے لینڈ لارڈ اور صنعتکار پر ایک جیسا ٹیکس نافذ ہونا چاہیے۔ اسی طرح جس دکاندار کی آمدنی تنخواہ دار ملازم کے برابر ہو‘ اس کو بھی تنخواہ دار ملازم جتنا ٹیکس ادا کرنے کا پابند بنایا جائے اور جو شخص زیادہ کما رہا ہے اس پر بلند شرح ٹیکس عاید ہونا چاہیے۔ یہ افقی اور عمودی مساوات کے بنیادی اصول ہیں۔ انکم ٹیکس لاز کی ان تمام خامیوں پر قابو پانا ضروری ہے‘ جن سے ٹیکس چور اور مفادپرست افراد فائدہ اٹھاتے ہیں۔ مفادپرست افراد/ طبقے کو جو ٹیکس چھوٹیں‘ رعائتیں اور استثنا حاصل ہے‘ اس کی وجہ سے قانوناً نافذ ٹیکس ریٹس اور موثر ٹیکس ریٹس میں وسیع رخنہ پایا جاتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ تمام ٹیکس چھوٹیں‘ رعائتیں اور ایگزمپشن ختم کر کے ٹیکس کے دائرہ کار کو وسیع اور یکجا کر کے نافذ العمل ریٹس میں کمی کرے۔
عام اندازے کے مطابق زیر زمین یا متوازی معیشت کا حجم شاید رسمی/ دستاویزی معیشت سے بھی بڑا ہے۔ اس میں جتنی بھی آمدنی ہوتی ہے وہ ٹیکس نیٹ میں نہیں آتی۔ زیر زمین معیشت کی بیخ کنی کے لیے قانون کی حکمرانی قائم کر کے غیر رسمی معیشت کو ڈاکومنٹ کیا جائے۔ بے نامی سرمایہ کاری اور ڈالر اکائونٹ پر پابندی عائد کی جائے۔ ٹیکس چوروں اور مفاد پرست عناصر کو ایمنسٹی سکیموں سے نوازنے کی پالیسی ترک کی جائے۔ بچتوں کے انسٹرومنٹس اور فنانشل سودوں پر ٹیکس نہیں عائد ہونا چاہیے اور ودہولڈنگ ٹیکس کے ذریعے ریونیو اکٹھا کرنے کی روش بند ہونی چاہیے۔ اس سے غیر موافق ترغیبات کا سٹرکچر وجود میں آتا ہے‘ جو فنانشل Intermediation میں حائل ہوتا ہے اور بچتوں اور معاشی ترقی کو بھی پنپنے نہیں دیتا۔ ٹیکس ایڈمنسٹریشن میں شفافیت لانی ہوگی۔ ٹیکس نادہندہ متمول افراد اور ٹیکس ایڈمنسٹریشن کے گٹھ جوڑ کو توڑنا ہوگا۔ کرپشن اور ٹیکس چوری کا قلع قمع کرنا ہوگا۔ فیڈرل اور پروونشل ریونیو بورڈز میں پروفیشنل لوگوں کو تعینات کیا جائے اور انہیں خودمختاری دی جائے تاکہ وہ ٹیکس لاز کے مطابق ٹیکس اکٹھا کر سکیں۔ اس سلسلے میں کسی قسم کی سیاسی یا بیوروکریٹک مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔ تمام بالواسطہ ٹیکس جن سے بہت کم ریونیو حاصل ہوتا ہے‘ ختم کر دینے چاہئیں۔ اس کے بجائے باقی تمام اشیا (ماسوائے بنیادی ضروریات زندگی کی اشیا کے) پر 5 فیصد جامع ویلیو ایڈڈ صارفی ٹیکس عاید کردیا جائے۔ تمام سبسڈیز ختم کردینی چاہئیں کیونکہ وہ کرپشن اور ٹیکس چوری کا ذریعہ بنتی ہیں اور مخصوص طبقات تک پہنچتی بھی نہیں۔ حکومتی کنٹرول میں نقصان میں چلنے والے اداروں کو سود مند اور کمرشل خطوط پر چلایا جائے یا پرائیویٹائز کردیا جائے۔ صوبائی حکومتیں اپنے ذرائع سے ٹیکس اکٹھا کریں اور مرکزی پول سے ان کا حصہ ان کی
ٹیکس اکٹھا کرنے کی کارکردگی کے مطابق کم و بیش کیا جا سکے۔ انکم ٹیکس کا دائرہ کار یکجا کرنے‘ ٹیکس جمع کرنے کے لیے من مانے طریقوں کے خاتمے اور ویلیو ایڈڈ صارفی ٹیکس کے نفاذ سے حکومت ٹیکس جی ڈی تناسب میں معقول اضافہ کر سکتی ہے۔ ٹیکس ریفارم کے ذریعے جو ریونیو حاصل ہو‘ اس کی دستیابی کے حقیقت پسندانہ جائزے کے بعد عوام کی فلاح و بہبود پر زیادہ سے زیادہ اخراجات کرنے کو ترجیح دی جائے۔ ڈیفنس کے لیے اشد ضروری اخراجات اور پبلک سیکٹر قرض کی خدمت پر اٹھنے والے اخراجات کے علاوہ غیر ترقیاتی اخراجات میں شدید کفایت شعاری اور سادگی اپنائی جائے۔ میگاپروجیکٹس شروع کرنے سے احتراز کیا جائے۔ تعلیم‘ صحت اور حاصل یافت پروجیکٹس کو ترجیح دی جانی چاہیے۔ ملکی اور بیرونی ذرائع سے بھاری مقدار میں قرض لینے سے احتراز کیا جائے اور غربا پر افراطِ زر کے ذریعے ٹیکس عاید کرنے کی روش ترک کر دینی چاہیے۔ معاشی اداروں کو مضبوط کرنا چاہیے۔ ان کو بغیر کسی مداخلت کے قانون کے دائرہ کار میں اپنے فرائض انجام دینے کی آزادی ہونی چاہیے۔ مالیاتی خسارے کے رخنے پورے کرنے کے لیے سٹیٹ بینک کو کرنسی نوٹ چھاپنے کی مشین کی طرح استعمال کرنے کی روش ترک کر دینی چاہیے۔ سٹیٹ بینک کو صائب زری پالیسی بنانے اور اس پر عملدرآمد کی آزادی ہونی چاہیے اور زری پالیسی مالیتی پالیسی کے تابع نہ ہو۔ آزاد اور خودمختار سٹیٹ بینک حکومت اور ملک دونوں کے مفاد میں ہے۔ بجٹ سے متعلق بڑی سٹرکچرل ریفارم کرنے میں ناکامی‘ مالیاتی خسارے کے رخنے پورے کرنے کے لیے ملکی اور بیرونی قرض پر انحصار کی پالیسی جاری رہی تو حکومت قرض کے منحوس چکر میں پھنس جائے گی اور ملک نہایت شدید معاشی جمود‘ بلند شرح‘ افراطِ زر اور بیرونی ادائیگیوں کے بحران کا شکار ہو جائے گا۔