"DLK" (space) message & send to 7575

کامریڈ بھگت سنگھ

23مارچ1931ء کو برِ صغیر کے عوام کی آزادی اور نجات کے انقلابی ہیرو اور اس جدوجہد میں اس کے شریک کامریڈوں سُکھ دیو تھاپر اور شیوا رام راج گرو کو لاہور سنٹرل جیل میں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا تھا۔برطانوی سامراجی حکومت سامراج کے خلاف عوامی تحریک میں بائیں بازو کے ریڈیکل رجحان کے ابھرنے سے بہت خوفزدہ تھی۔ان نوجوان انقلابیوں کو تو موت کی نیند سلا دیا گیا لیکن ان کے قتل کے بعد ابھرنے والے عوامی غم و غصے اور بغاوت نے نو آبادیاتی حکومت کو ہلا کر رکھ دیا۔ہندوستان کی صورتحال کے متعلق 1932ء میں یہاں آئے ہوئے ایک برطانوی سی ایف اینڈریوز نے لکھا کہ ’’ہندوستان کی موجودہ کیفیت انیس سو سال قبل کی سلطنتِ روم جیسی ہے۔وہاں بھی ظاہری طور پر ایسا ہی شاندار امن قائم تھالیکن بظاہر پُر امن نظر آنے والے اس علاقے کے اندر ایک سلگتا ہوا خلفشار یک دم آتش فشانی لاوے کی طرح دھرتی کو پھاڑکر باہر آنا شروع ہو گیا‘‘۔ 1917ء میںروس میں ہونے والے بالشویک انقلاب نے ہندوستان کی تحریک آزادی کو بہت متاثر کیا اور ساری دنیا کی طرح یہاں بھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ خصوصاً نوجوان اس انقلابی اُبھار سے بہت متحرک ہوئے۔ ہندوستان سوشلسٹ ریولوشنری آرمی (ایچ ایس آر اے) کا قیام شعور میں آتی ہوئی تبدیلی کا اظہار تھا۔ بھگت سنگھ، سُکھ دیو، راج گرو، چندر شیکھر آزاد، بی کے دت اور دیگر نوجوان انقلابیوں کے جرأت مند کارناموں نے پورے برِ صغیر میں مجبور عوام کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔لیکن انقلابی نجات پانے کے لیے ایک مارکسی راستہ نہ ہونے کی وجہ سے ان نوجوانوں نے مسلح جدوجہد کا طریقہ اختیار کیا۔ لاہور ریلوے اسٹیشن پر سائمن کمیشن کے خلاف مظاہرہ کرتے ہوئے کسانوں کے ریڈیکل رہنما لالہ لاجپت رائے پر پولیس کے بہیمانہ تشدد اور انہیں شدید زخمی کرنے سے واقعات کے اس سلسلے کا آغاز ہوا۔17نومبر1928ء کو وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔ انتقاماً ایچ ایس آر اے کے چند مسلح کارکنوں نے 8اپریل 1929ء کو اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ پولیس جان پویانٹس سانڈرز کو گولی مار کر قتل کر دیا۔بھگت سنگھ اور دوسرے کامریڈوں کو اس قتل اور دہلی میں مرکزی قانون ساز اسمبلی کے سرکاری بنچوں پر بے ضرر بم پھینکنے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔پانچ ماہ تک ان پر مقدمہ چلایا گیا جس کی کارروائی کے دوران ملزمان کے انقلابی بیانات نوجوانوں کو گرما تے رہے اور ان کی تحریک کو عوامی حمایت حاصل ہو گئی۔اس سے نہ صرف سامراجی اقتدار کے ایوان بلکہ مقامی بورژوا لیڈر بھی لرز اُٹھے جو خوفزدہ تھے کہ اس ریڈیکل رجحان کے ہاتھوں وہ آزادی کی جدوجہد کی قیادت سے باہر ہو جائیں گے۔ 7اکتوبر1930ء کو جسٹس اے آر کولڈ سٹریم نے فیصلہ سنا دیا۔ حکومت نے لاہور سازش کیس آرڈیننس جاری کیا جس سے سماعت کے دوران وکیلِ صفائی، گواہان اور ملزمان کی موجودگی کی ضرورت ختم کر دی گئی۔شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ گاندھی اس وقت کے برطانوی وائسرائے لارڈ اروِن کے ساتھ مذاکرات اور معاہدے کے دوران رحم کی اپیل کر کے ان انقلابیوں کی زندگیاں بچا سکتا تھا۔گاندھی اروِن معاہدہ 19مارچ1931ء کو طے پایا جس میں ثالثی کا کردار تیج بہادر سپرو اوردیگر نے انجام دیا۔ عوام میںاس معاہدے کے خلاف شدید نفرت اور غصہ تھا کیونکہ اس میں بھگت سنگھ، راج گرو اور سُکھ دیو کو نظر انداز کر دیا گیا تھا۔ کانگریس کے اہم رہنما ڈاکٹر سبھاش چندر بوس نے انتہائی غصے کے عالم میں کہا کہ’’ہمارے اور برطانویوں کے درمیان خون کا ایک دریا اور لاشوں کا ایک پہاڑ کھڑا ہے۔گاندھی کی جانب کیے گئے سمجھوتے کو ہم کسی صورت قبول نہیں کر سکتے‘‘۔ گاندھی اور اروِن کی ملاقات کے دن بھگت سنگھ اور اُس کے ساتھیوں نے وائسرائے کو ایک خط بھیجا۔رحم کی اپیل کی بجائے انہوں نے جنگی قیدیوں جیسے سلوک اور پھانسی کی بجائے گولی کے ذریعے موت کا مطالبہ کیا۔بعد ازاں کراچی میں ہونے والی آل انڈیا کانگریس کمیٹی (اے آئی سی سی) کے اجلاس میں یہ نعرہ لگتا رہا کہ ’’ گاندھی کے معاہدے نے بھگت سنگھ کو مار ڈالا‘‘۔ بھگت سنگھ کو پھانسی دیئے جانے کے کئی دہائیوں بعد ہندوستان اور پاکستان میں منظرِ عام پر موجود دانشوروں اور سیاسی اشرافیہ نے اس کی میراث کو مسخ کر دیا ہے۔پاکستان میں ماضی پرست ریاستی قوتوں اور قدامت پرست اشرافیہ نے اسے کافر قرار دے کر اس کے میراث کو پامال اور اس پر پردہ ڈالا۔ ہندوستان میں اس کے تشخص کو آزادی کے لیے لڑنے والے قوم پرست تک محدود کر دیا گیا اور اس کے سوشلسٹ اور انقلابی کردار کو داغدار اور مسخ کردیا گیا۔ اگرچہ برطانوی راج کے خلاف جدوجہد کے آغاز سے ہی بھگت سنگھ کوئی مارکسی نہیں تھا، لیکن مسلح جدوجہد کے تجربات اور مارکس، اینگلز، لینن اور ٹراٹسکی کو پڑھنے کے بعد وہ ایک انقلابی سوشلسٹ بن چکا تھا۔بھگت سنگھ آرکائیوز میں ایک اخباری رپورٹ موجود ہے جس میں لکھا ہے کہ ’’21جنوری1930ء کو لاہور سازش کیس کے ملزمان کو عدالت میں پیش کیا گیا جنہوں نے سر پر سرخ پٹیاںباندھ رکھی تھیں۔ مجسٹریٹ کے بیٹھتے ہی وہ نعرے لگانا شروع ہو گئے کہ ’لینن کا نام امر ہے‘ اور’سامراج مردہ باد‘۔ پھر بھگت سنگھ نے عدالت میں ایک ٹیلی گرام کا متن پڑھا اور مجسٹریٹ سے مطالبہ کیا کہ اسے تیسری انٹر نیشنل کو ارسال کیا جائے‘‘۔ شری رام بخشی نے اپنی کتاب ’بھگت سنگھ اور اس کا نظریہ‘ میں بھگت سنگھ کا قول لکھا ہے کہ ’’ ’انقلاب ‘ سے ہماری مراد ایک ایسے سماجی نظام کا قیام ہے جسے کوئی خطرہ نہ لاحق ہو، جس میں پرولتاریہ کا اقتدار تسلیم کیا گیا ہو اور ایک عالمگیر فیڈریشن کے ذریعے نسلِ انسانی سرمایہ داری، مصائب اور سامراجی جنگوں کی غلامی سے آزادی پا لے۔ـ‘‘ یہ اور ایسے کئی اور اقوال اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ بھگت سنگھ قوم پرست نہیں بلکہ عالمگیر یت کا داعی تھا۔وہ مارکسی پوزیشن کے بہت قریب پہنچ چکا تھا اور اس کا ماننا تھا کہ برِصغیر میںایک سوشلسٹ انقلاب ہی تحریکِ آزادی کا منطقی انجام ہے۔یہاں ایک سوشلسٹ فتح ساری دنیا میں انقلاب کے پھیلائو کا نقطہ آغاز ہو گی۔بھگت سنگھ اوراس کے کامریڈوں کو مقامی اشرافیہ جنہیں ’بھُورے صاحب‘ بھی کہا جاتا تھاکے غداری پر مبنی کردار کے متعلق کوئی غلط فہمی نہ تھی۔ بہت تحقیق پر مبنی راج کمار سنتوشی کی 2002ء میں بننے والی فلم ’دی لیجنڈ آف بھگت سنگھ‘ میں بھگت سنگھ تقریر میں کہتا ہے’’ہمیں آزادی نہیں چاہیے! ہمیں ایسی آزادی نہیں چاہیے جہاں انگریز حکمرانوں کی جگہ مقامی اشرافیہ لے لے۔ہمیں ایسی آزادی نہیں چاہیے جس میں غلامی اور استحصال پر مبنی یہ بوسیدہ نظام قائم رہے۔ ہماری لڑائی ایسی آزادی کے لیے ہے جو اس ظالمانہ نظام کو ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے بدل کر رکھ دے‘‘۔ تقسیم کے بعد نام نہاد آزادی کے پینسٹھ برسوں میں جنوبی ایشیا کے ان حکمران طبقات نے سماج کو تاراج اور کروڑوں عوام کو برباد کر ڈالا ہے۔یہ مجبور طبقات استحصال، سامراجی لوٹ مار، مصائب،غربت اور بیماری کے ہاتھوں تباہ ہو گئے ہیں۔نئی نسلوں کی یہ تاریخی ذمہ داری ہے کہ بھگت سنگھ کی انقلابی میراث کو پھر سے تلاش کرتے ہوئے اس کی زندگی اور موت کے مقصد کی تکمیل کریں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں