عسکری قیادت کی ہمراہی میں عمران خان کا دورہ امریکہ ایک مرتبہ پھر پاکستان کی خارجہ پالیسی اور عالمی طاقتوں کی دھڑے بندی میں بدلتی ترجیحات کی غمازی کرتا ہے۔ میرا اندازہ تھا جو خاصی حد تک درست رہا کہ جہاں ملاقاتوں کے ان سلسلوں میں افغانستان کے بحران میں امریکی سامراج کے لئے معاونت پر بات چیت ہو گی‘ وہاں معاشی امداد کی استدعا بھی کی جائے گی، چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات اور سی پیک پر بھی پوچھ گچھ ہو گی، اور حتمی اعلامیے میں کشمیر اور بھارت سے تعلقات کا بھی ذکر ہو سکتا ہے۔
جب سے پاکستان معرضِ وجود میں آیا ہے یہاں کے حکمرانوں کے امریکی دورے کو عمومی طور پر کسی بھی دوسرے ملک کے دورے سے زیادہ اہمیت دی جاتی رہی ہے۔ پاکستان میں سرمایہ داری نظام کو چلانے اور بچانے کے لئے ہمارے حکمرانوں نے اس نظام کے ان داتا اور اس سامراجی آقا سے جو مدد حاصل کی وہ ایک ایسا زہر قاتل تھی کہ اس سے پاکستان کی معیشت مسلسل سامراجی جکڑ میں گھرتی چلی گئی اور معاشی محکومی بڑھتی رہی۔ لیکن ان پالیسیوں اور اس نظامِ زر کے رجعتی استحصالی کردار کی وجہ سے یہاں کے عوام غربت، ذلت اور محرومی کی اذیت کا مزید شکار ہوتے چلے گئے۔ متضاد سامراجی پالیسیوں کے پیش نظر بعض اوقات پاکستان کے ریاستی مفادات کو نقصانات بھی اٹھانا پڑے اور ایک مقام پر جا کر افعانستان میں امریکہ اور پاکستانی اشرافیہ حلیف سے حریف بھی بن گئے۔
1960ء کی دہائی سے پاکستانی ریاست نے چین کا متبادل سہارا لینے کی جو پالیسی اپنائی وہ بھی اس کو سامراجی چنگل سے چھڑا نہ سکی۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ چونکہ امریکہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہے اس لیے اس نظام میں رہتے ہوئے اس بحران زدہ سامراجیت سے بھی انحراف کرنا ممکن نہیں ہے ۔ جیسے دریا میں رہتے ہوئے مگر مچھ سے بیر نہیں کیا جا سکتا ۔ لیکن ماضی کے دوروں سے یہ دورہ ایک حوالے سے مختلف ہے ۔ یہ ڈونلڈ ٹرمپ اور عمران خان صاحب کی مشترکہ قدریں ہیں ۔ میری نظر میں یہ رہنما عوام کے ایسے حصوں جو جمود کے عہد میں ایک رجعت، خوف اور مایوسی میں مبتلا ہو کر انتہا پسندی کے اسیر بنے ہوئے ہیں‘ اور ریاست کے دھڑوں کی حمایت سے اقتدار پر براجمان ہوئے ہیں۔ بنیادی طور پر ٹرمپ اور خان کا اقتدار میں آنا پاکستان اور امریکہ میں شدت پکڑتے ہوئے بحران کی بدولت ہے ۔ اس کیفیت میں جب عوام اس نظام کے بڑھتے ہوئے جبر میں پس رہے ہیں وہاں اس وقت کم از کم سیاسی و سماجی افق پر کوئی بڑی انقلابی قوت اور ترقی پسند قیادت نظر نہیں آ رہی‘ بائیں بازو کی پسپائی نے عوام کی یاس و نا امیدی میں اضافہ کر دیا ہے اور اس سیاسی ویکیوم یا خلا میں یہ رجعتی اور پُر انتشار حاکمیتیں مسلط ہوئی ہیں۔
موجودہ دور میں جہاں ایک طرف دائیں بازو کی بے ہودہ تعصباتی سیاست حاوی محسوس ہوئی ہے وہاں مختلف ممالک میں عوامی تحریکیں اور بغاوتیں بھی چل رہی ہیں ۔ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ، بھارت میں نریندر مودی، پاکستان میں عمران خان، برازیل میں بالسنارو، فلپائن میں ڈیوٹرٹے وغیرہ دنیا میں دائیں بازو کی ایسی پاپولسٹ مثالیں ہیں جو فسطائیت کی پالیسیوں کو مسلط کر کے سماجوں پر ظلم و جبر کی ایک نئی زہریلی واردات جارحانہ انداز میں لاگو کر رہے ہیں ۔ کبھی قوم پرستی، کبھی مذہبیت اور کبھی نسل پرستی و فرقہ واریت کے تعصبات کے ذریعے محنت کش طبقے کو تقسیم کر کے منافرتوں اور دشمنیوں کا بازار گرم کر رہے ہیں ۔ ایسے رجعتی لیڈروں کی زیادہ تر حمایت درمیانے طبقے یا پیٹی بورژوا طبقے میں ہے ۔ یہ طبقہ اپنی بے صبری کی خصلت کی وجہ سے موجودہ وقت میں اس نیم فسطائیت کی جانب جھکائو کا شکار ہے ۔ تاریخ کا یہ قانون ہے کہ یہ پیٹی بورژوا رجحانات موضوعی اور فطری طور پر ذاتی اور فروعی مسائل کو سیاسی مسائل سے الگ کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے ۔ شکل و صورت، چال ڈھال، لباس، رنگت اور ظاہریت کے عناصر کو اتنی اہمیت دیتے ہیں کہ اصل ایشوز ذاتیات اور سطحی عناصر میں دبا دیے جاتے ہیں ۔ اس سے سیاسی اور سماجی حالات پیچیدہ اور کنفیوزڈ ہو جاتے ہیں۔
آج اگر ہم نئے امریکہ، نئے پاکستان یا نئے بھارت کی صورتحال کا جائزہ لیں تو یہ معاشرے ثقافتی طور پر بنجر، نظریاتی اور دانش کے اعتبار سے خالی، جذباتی طور پر مجروح، کھوکھلے، تلخ، بڑبولے، شیخی باز اور ایک مسلسل رنج کا شکار محسوس ہوتے ہیں ۔ جعل سازی، جھوٹ اور فریب جیسی سماجی برائیاں سماجی اقدار بن رہی ہیں ۔ یہ معاشرے مذہبی فرقہ واریت اور نسلی و قومی منافرتوں سے زہر آلودہ ہو رہے ہیں ۔ حکمران بے نیازی، رعونت اور پراگندگی کا شکار ہو کر عوام کی جانب تضحیک آمیز اور جابرانہ رویے اپنائے ہوئے ہیں ۔ نمود و نمائش اور خود غرضی میں شدت سے اضافہ ہو رہا ہے ۔ ہر پالیسی سے عوام کے مفادات کو تقریباً خارج کر دیا گیا ہے ۔ حکمرانوں میں ایک سفاکی ہے جس کے ذریعے ہر مثبت سماجی قدر، اخلاقیات اور ترقی پسندی کو کچلنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ پاکستان اور امریکہ کی باہمی سفارت کاری بھی انہی تعصبات سے رنگی ہوئی ہے۔ بالا دستوں کے مفادات میں یہ مذاکرات اور سفارت کاری محض عوام سے ریا کاری ہے ۔ امریکہ اور پاکستان کے درمیان معاشی، فوجی اور ریاستی طاقت کا چونکہ شدید عدم توازن ہے اس لیے ان کے درمیان معاہدے اور تعلقات بھی حاکم اور محکوم والے ہوتے ہیں۔
امریکہ اگر اپنے آئی ایم ایف وغیرہ کے ذریعے مالیاتی جبر کو استعمال کر کے خطے میں اپنے معدوم ہوتے ہوئے مفادات کو پاکستانی ریاست سے تحفظ دلوانے کی کوشش کرتا بھی ہے تو پچھلے 50 سالوں میں جس حد تک ان حکمرانوں کے باہمی رشتوں کی وجہ سے افغانستان اور پورے خطے میں دہشت گردی ، عدم استحکام اور انتشار پھیلا ہے وہ اتنا بگاڑ پیدا کر چکا ہے کہ اس کو اب سنبھالنا ان کے بس کی بات نہیں رہی۔ اس ناکامی میں امریکہ کا زیادہ ہاتھ ہے لیکن پھر بھی ''ڈو مور‘‘ کی رَٹ اور دبائو کمزور حلیف پر جاری رہے گا ۔ لیکن ہماری حکمران اشرافیہ‘ جو شدید بڑھک بازیاں کرتی رہی ہے‘ امریکی حکم، دبائو اور جبر کا مقابلہ کرنے کی بجائے تابع داری کا مظاہرہ کرے گی ۔ ان معاہدوں اور اعلامیوں کو ''کامیاب دورہ‘‘ بنا کر کارپوریٹ میڈیا بڑی شدت سے پیش کرے گا ۔ لیکن در حقیقت سامراجی غلامی کی جکڑ اس دورے کے بعد مزید سخت ہو جائے گی ۔ پاکستان کے حکمرانوں کے اپنے مالیاتی، سفارتی، عسکری اور سیاسی مفادات ہیں لیکن سامراجی استحصال، سود اور شرائط کا خمیازہ تو پاکستان کے 22 کروڑ عوام بھگت رہے ہیں ۔ ان کی محرومی اور ذلت میں ان ''معاہدوں‘‘ اور ''دوروں‘‘ سے کمی نہیں آئے گی بلکہ ان کی زندگیوں کے عذاب مزید شدت اختیار کریں گے ۔ موجودہ نظام کی سفارت کاری خارجہ پالیسی، اقتصادی معاملات اور ریاستی تقاضے اسی سرمایہ داری کی حدود و قیود میں مسدود ہیں۔
سامراجی استحصال میں اضافے سے عوام پر تو قہر نازل ہو گا ہی لیکن اس میں سے بھی حکمران اپنے کمیشنوں، دولت، طاقت، جاہ و جلال اور حاکمیت کے لئے اپنی حصہ داری ضرور نکال لیں گے ۔ ایسے شکست خوردہ اور سامراجی اطاعت قبول کرنے والے معاہدوں کے بدلے حکمرانوں نے آخر کچھ تو معاوضہ لینا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جب تک سرمایہ دارانہ معاشی و معاشرتی نظام رہے گا‘ اس ملک کے تمام معاملات اس کے ماتحت اور انہی بالا دست طبقات کے مفادات کے لئے ہی وقف رہیں گے۔ المیہ یہ ہے کہ اس وقت کے سیاسی افق پر تقریباً تمام پارٹیاں اسی نظام کے آگے سر نگوں ہیں ۔