اقتدار میں آنے کے بعد حکومت کے تقاضے عوامی اجتماعات میں کیے گئے وعدوں سے مختلف ہوتے ہیں۔ بی جے پی کی جیت کے بعد مودی کے اپنی داخلی پالیسی ''بھارت سب کیلئے‘‘ اور خارجہ پالیسی ''خطے میں امن اور خوشحالی‘‘ کے متعلق بیانات نے ان کی قبل از انتخابات انتہاپسندانہ نعرے بازی کو دھندلا دیا ہے۔
لیکن یہ ایک ناگزیر حقیقت ہے کہ بی جے پی کی حکومت موقع پرستانہ انداز میں اپنے فوری مفادات کے تقاضوں کے مطابق اپنی نعرے بازی تبدیل کرتی رہے گی۔ شاید نریندر مودی‘ ہٹلر سے زیادہ ہوشیار اور چالاک ہوں لیکن بہت سے معاملات میں وہ اسی کی نقل کرتے ہیں۔ وکٹر الریچ نے ہٹلر کی سوانح حیات میں لکھا تھا، ''اس کی اوٹ پٹانگ باتیں اور خیالات خود رو نہیں تھے بلکہ محتاط انداز میں پہلے تیار کیے جاتے تھے تاکہ میڈیا اور عوام کی زیادہ سے زیادہ توجہ حاصل کی جائے‘‘۔
مودی کی بظاہر بے تکی اور شدت پسندانہ باتیں بھی کسی فوری جذباتیت کی وجہ سے نہیں ہیں‘ جیسا کہ عام تاثر پایا جاتا ہے۔ ان کے لباس، باڈی لینگویج اور حرکات و سکنات کی پہلے تیاری اور ریہرسل کی جاتی ہے۔ آمرانہ رویے اور جبر ان کی حکومت کا خاصہ ہیں۔ مودی سرکار میں پارٹی کے غنڈے اور سرکاری مشینری ہر مخالف آواز کو کچلتے جاتے ہیں۔ ان کی حکومت کی سب سے زہریلی واردات سرکاری اداروں پر ہندو بنیاد پرستی کے دانشوروں اور کارکنوں کا قبضہ قائم کروانا ہے۔
ساری پارٹیاں الیکشن کمیشن کی آزادی اور دیانتداری کے گن گاتی ہیں‘ اور سب کی سب ہندوستانی قوم پرستی اور سرمایہ دارانہ جمہوریت پر یقین رکھتی ہیں‘ حالانکہ ایسے سماجی اور معاشی حالات ہی موجود نہیں ہیں جن پر کوئی صحتمند سرمایہ دارانہ جمہوریت اور قوم پرستی پنپ سکے۔ 'ہندوستانی قوم‘ کی بجائے 'ہندو قوم پرستی‘ کا ابھار اس حقیقت کا ثبوت ہے۔ اور اس جمہوریت کا حال یہ ہے کہ ان انتخابات سے لوک سبھا میں منتخب ہونے والے 50 فیصد نمائندے 'کریمنل ریکارڈ‘ کے حامل ہیں۔
ان انتخابات کے دوران الیکشن کمیشن واضح طور پر بی جے پی کے دست راست کی طرح کام کرتا رہا اور مودی کو انتہا پسندانہ بیانات سے بھی نہ روک سکا۔ حب الوطنی کی نعرے بازی کی آڑ میں بھارتی ڈیپ سٹیٹ اور فوج اپنی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے مالیاتی لوٹ مار میں مصروف ہیں۔ بھارتی جرنیل اسلحے اور دیگر ٹھیکوں میں کمیشن خوری اور کک بیکس کے دھندوں سے خوب مال بناتے ہیں۔ اب وہ سویلین حکومتوں کی خارجہ اور داخلہ پالیسیوں کا تعین بھی کرتے ہیں۔
غربت اور محرومی‘ بھارت کی دھرتی پر ناچ رہے ہیں۔ پچھلے پانچ سالوں میں غریب کسانوں، خواتین، مذہبی اقلیتوں، نچلی ذات کے ہندوئوں اور سماج کی دیگر محکوم پرتوں کی زندگیاں بی جے پی کی جابر حاکمیت میں مزید اجیرن ہوئی ہیں۔ لیکن مودی کی اتنی بڑی جیت نے سب کو حیران بھی کر دیا ہے۔ بے تحاشہ تجزیے کیے جا رہے ہیں۔ کارپوریٹ میڈیا کے ماہرین اور تجزیہ نگار سطحی وجوہات جیسے اپوزیشن کی تقسیم، مودی کی پاکستان مخالف نعرے بازی، پلوامہ واقعے کے بعد ہندو قوم پرستی کے ابھار اور سرجیکل سٹرائیک وغیرہ کی باتیں ہی کر رہے ہیں‘ حالانکہ ان فوری واقعات کے پیچھے بھی تاریخی عوامل کا ایک پورا تسلسل ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔
2014ء کے الیکشن میں مودی کی جانب سے 'وکاس‘ (ترقی) کے نعرے کو زیادہ پرجوش طریقے سے استعمال کیا گیا تھا کیونکہ وہ اس وقت تک مرکز میں برسر اقتدار نہیں آئے تھے۔ لیکن اب کی بار انہوں نے ہندو قوم پرستی اور مسلمان و پاکستان دشمنی پر زیادہ زور دیا۔ انہوں نے عوام میں خوف کے عنصر کو خوب استعمال کیا۔ جنگی صورتحال میں 'قومی عدم تحفظ‘ کے احساس کو ابھار کے مودی کو ہندوئوں کے مسیحا کے طور پہ پیش کیا گیا۔ اس لئے مودی کی جیت کسی امید یا رجائیت کی بجائے خوف اور عدم تحفظ کے ملے جلے احساسات کا نتیجہ ہے۔
معروضی حوالے سے بات کی جائے تو کافی عرصے سے بلند شرح نمو کے باوجود بھارتی عوام کی حالت میں سدھار نہ آنے اور سیاسی افق پر سرمایہ داری کا کوئی متبادل نہ ہونے کی وجہ سے ہندوستان میں ایک سیاسی بے حسی نے جنم لیا ہے۔ جمود کے ایسے ادوار کو اگر انقلابی تحریکیں نہ چیریں تو رجعت کیلئے راستے کھلتے ہیں۔ اپوزیشن کی تقسیم اور سب سے بڑھ کر بائیں بازو کی جانب سے مزاحمت‘ طبقاتی جدوجہد اور انقلاب کا پروگرام نہ دینے کی وجہ سے مودی کا کام اور بھی آسان ہو گیا۔ کانگریس اور دیگر سیکولر پارٹیوں نے حقیقی مسائل پر بات کرنے یا متبادل دینے کی بجائے بیان بازی وغیرہ میں بی جے پی کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی۔ یوں وہ بی جے پی کے میدان میں کھیل رہی تھیں۔
لیون ٹراٹسکی نے 1909ء میں لکھا تھا، ''جب تاریخی ارتقا کا دھارا ابھر رہا ہوتا ہے تو عوامی سوچ زیادہ دور اندیش، بے باک اور تیز فہم ہو جاتی ہے۔ یہ حقائق کو دور سے ہی پرکھ لیتی ہے‘ انہیں عمومی صورتحال سے منسلک کرتی ہے‘ اور جب سیاسی دھارے کا رخ پستی کی طرف ہوتا ہے تو عوامی سوچ جہالت اور پسماندگی کی کھائی میں جا گرتی ہے۔ سیاسی سمجھ بوجھ نشان چھوڑے بغیر غائب ہو جاتی ہے۔ حماقت بڑھتی جاتی ہے‘ دانت نکال کے عقل مندانہ تجزیوں پر ہنستی ہے ‘ انہیں ذلیل کرتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ حماقت کا راج قائم ہو چکا ہے...‘‘۔ تقسیم کے بعد کے ہندوستان کی تاریخ بھی محنت کشوں کی انقلابی جدوجہد اور ہڑتالوں سے بھری پڑی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹیاں دنیا کی سب سے بڑی کمیونسٹ پارٹیاں ہوتی تھیں‘ لیکن قیادت کے نظریاتی دیوالیہ پن اور مصالحتوں نے ان کا بیڑہ غرق کر دیا ہے۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے درمیان کوئی حقیقی نظریاتی فرق موجود نہیں ہے۔ دونوں مرحلہ واریت پر یقین رکھتے ہیں۔
ان پالیسیوں پر چل کر کمیونسٹ پارٹیوں نے خود کو اصلاحات اور انتخابی سیاست میں غرق کر لیا ہے۔ لینن اس پالیسی کو ''پارلیمانیت کی حماقت‘‘ کہتا تھا۔
انتخابات میں چند سیٹوں کے ساتھ‘ بدترین شکست کے بعد کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے جنرل سیکرٹری سیتارام یاچوری نے پریس کانفرنس میں کہا، ''عوام نے فیصلہ کن انداز میں اس منقسم الیکشن میں بی جے پی کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے اور اب ہمیں پیچھے دیکھ کر اپنی غلطیوں کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے... کمیونسٹ پارٹی کو اس الیکشن میں سنجیدہ شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ہم اس کی وجوہات کو تلاش کرکے آئندہ کے لئے سبق سیکھیں گے... آنے والے وقت میں ہمارے سامنے بڑے چیلنج ہیں جیسے اپنی سیکولر و جمہوری ریپبلک، آئینی اداروں، عوامی حقوق اور زندگیوں کا تحفظ...‘‘۔
کارل مارکس اکثر ہیگل کو نقل کرتا تھا کہ ''جو لوگ تاریخ سے نہیں سیکھتے وہ اسے دہرانے کے مرتکب ہوتے ہیں‘‘۔ سیتا رام اب بھی اسی نظام اور ریاست کو بچانے کی بات کر رہا ہے جس نے نہ صرف کشمیر بلکہ بھارت کی 19 ریاستوں میں جبر کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ یہ سیکولر جمہوری ریپبلک جس نظام پہ قائم ہے اسی کے بحران کی وجہ سے اندر سے گل سڑ رہی ہے۔ حکمران طبقات نے ممکنہ طبقاتی بغاوت، جو کمیونسٹ پارٹیوں نے اپنے تناظر اور منشور سے خارج کر دی ہے، کو زائل کرنے کے لئے ہی ہندوتوا کی فسطائیت کا راستہ اپنایا ہے۔
مودی سرکار کے خلاف پچھلے تین سالوں سے ستمبر میں ہونے والی عام ہڑتالوں اور پھر کسانوں کی پے درپے تحریکوں نے بغیر کسی شک و شبہ کے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ طبقاتی جدوجہد نہ صرف زندہ ہے بلکہ بھڑک بھی رہی ہے۔ اس بار مودی زیادہ بڑے 'مینڈیٹ‘ کے ساتھ معاشی حملے کریں گے جن کے خلاف محنت کش طبقے کا رد عمل بھی سامنے آئے گا۔ اگر کمیونسٹ قیادتیں اس حقیقت کو نہیں سمجھتیں اور اپنا قبلہ نام نہاد جمہوریت اور سیکولرازم سے بدل کے طبقاتی جدوجہد کی طرف نہیں آتیں تو تاریخ کے کوڑے دان میں جائیں گی۔ ان کے بغیر بھی تحریکیں تو ابھریں گی اور نئی قیادتیں بھی سامنے آئیں گی۔
انتخابات کے نتائج کسی مخصوص وقت میں سماج کی کیفیت کا پتا دے رہے ہوتے ہیں۔ جیسے کوئی ٹھہری ہوئی تصویر ہوتی ہے۔ آنے والے دنوں میں حالات و واقعات تیزی سے بدل کے مودی کی جیت سے زیادہ حیران کن صورتحال پیدا کر سکتے ہیں۔ (ختم)