"DLK" (space) message & send to 7575

یونان: سوشلزم یا بربادی!

گزشتہ تین دہائیوں سے پاکستان کی سیاست، صحافت اور دانش پر دایاں بازو حاوی ہے۔ سوویت یونین کے انہدام اور چین میں سرمایہ داری کی بحالی نے ماضی کے ماسکو نواز اور بیجنگ نواز بائیں بازو کو عرصہ قبل نظریاتی طور پر دیوالیہ کر دیا ہے۔ سرمایہ داری کے آگے سر تسلیم خم کرلینے والے سابق بائیں بازو کے دانشور بالواسطہ یا براہ راست طور پر مارکس اور لینن کی تضحیک کرتے نظر آتے ہیں۔ ٹراٹسکی کے لیے تو ان کے دل و دماغ ہمیشہ جاہلانہ نفرت سے بھرے رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے 1980ء کی دہائی کے اوائل سے ہی پارٹی کے بنیادی سوشلسٹ منشور سے انحراف کا آغاز کر دیا تھا۔ محنت کش عوام سے اس غداری نے ہی لبرل اور مذہبی دائیں بازو کی راہ ہموار کی ہے۔ روایتی سیاسی اور ٹریڈ یونین قیادت کی بے حسی اور حکمران طبقے سے مصالحت نے محنت کش طبقے کے اجتماعی شعور پر یاس، پراگندگی اور ناامیدی مسلط کردی۔ کسی حد تک یہ صورت حال عالمی سطح پر بھی قائم رہی ، لیکن ''تاریخ کا خاتمہ‘‘ بہرحال نہیں ہوا۔
2008ء کے مالیاتی کریش نے عالمی تناظر کو یکسر بدل دیا۔ 2011ء کے بعد ایک کے بعد دوسرے خطے میں انقلابی تحریکیں اور عوامی بغاوتیں نظر آرہی ہیں۔طبقاتی جدوجہد کا ابھار (بالخصوص کر یورپ میں) ریڈیکل بائیں بازوکے نئے رجحانات کو جنم دے رہا ہے۔ یونان میں سائریزا کی جیت اور سپین میں پوڈیموس کا ابھار ایک نئے سیاسی عمل کا نقطہ آغاز ہے ، لیکن یہ عمل سیدھی لکیر میں آگے نہیں بڑھے گا بلکہ کئی اتار چڑھائو آئیں گے۔ تحریک کے مختلف مراحل میں بائیں بازو کی طرف مختلف درجے کا جھکائو رکھنے والی پارٹیوں اور رہنمائوں کو مقبولیت ملے گی جبکہ ماضی کی سیاسی روایات مسترد ہوں گی۔ صرف وہی سیاسی قوت کامیاب ہوگی جو محنت کش عوام کی حمایت جیت کر ان کی قیادت کرتے ہوئے سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ داری کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے ٹھوس لائحہ عمل کے ساتھ آگے بڑھے گی۔ یونان کی موجودہ صورت حال واضح کر رہی ہے کہ بائیں بازو کی انتہائی ریڈیکل اصلاح پسندی بھی سرمایہ داری کے گہرے معاشی بحران اور عوام پر اس کے تباہ کن اثرات کا ازالہ کرنے میں ناکام ہے ۔ یورپ میں ہونے والے سیاسی دھماکوں نے پاکستان میں دائیں بازو کے سنجیدہ نظریہ سازوں کو بھی متنبہ کیا ہے جو سامراج کی پیروی میں ''سوشلزم ختم ہوگیا‘‘ کی خوش فہمی میں مبتلا تھے۔
جرمنی کی زیر قیادت یورو زون کی طرف سے یونان پر گزشتہ چھ سال سے مسلط کردہ آسٹیریٹی (عوامی سہولیات اور تنخواہوں وغیرہ پر ریاستی اخراجات میں کٹوتی) کے سماجی و معاشی اثرات دوسری عالمی جنگ سے کم نہیں ہیں۔ یونان معاشی طور پر دیوالیہ ہے، 2008ء کے بعد سے جی ڈی پی کم از کم 25 فیصد سکڑا ہے، نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح 70 فیصد ہے، بھوک اور غربت کی بیماریاں پھر سے سر اٹھا رہی ہیں۔معاشی بحالی کی باتیں مذاق بن کے رہ گئی ہیں۔ تازہ اعداد و شمار کے مطابق ٹیکس ریونیو سکڑ رہا ہے اور قرضہ ناقابل واپسی حد سے تجاوز کر چکا ہے۔ یونان کا حکومتی قرضہ جو آسٹیریٹی کے آغاز سے پہلے جی ڈی پی کے 125فیصد کے مساوی تھا اب 175فیصد ہوچکا ہے۔ ایک اندھا بھی دیکھ سکتا ہے کہ یہ قرضہ واپس نہیں ہوسکتا لیکن فرانس اور جرمنی مزید آسٹیریٹی پر زور دے رہے ہیں۔ اس قرضے کو 2020ء تک جی ڈی پی کے 110فیصد تک لانے کے لیے حکومت کو مزید کٹوتیوں کا حکم دیا جا رہا ہے جو یونانی عوام کو بھوکا مارنے کے مترادف ہے۔
یونان میں نئی سائریزا حکومت کا وزیر اعظم الیکسز سپراس اور وزیر خزانہ یانس واروفاکس ''آبرو مندانہ معاہدے‘‘ کی تلاش میں پیرس، لندن، برسلز، برلن اور روم کا چکر لگا آئے ہیں لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ یونان کے بیل آئوٹ پلان کی شرائط نرم کرنے کے سب سے بڑے مخالف جرمنی کے وزیر خزانہ نے تلخ لہجہ اختیار کرتے ہوئے بیان دیا ہے کہ ''حکومت میں آنے کے بعد حقائق کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو خواب کی طرح خوشگوار نہیں ہوتے‘‘۔ سائریزا کی قیادت نے سرمایہ داری کی حدود و قیود میں رہتے ہوئے ''کچھ لینے کچھ دینے‘‘ کا جو خواب دیکھا تھا اس کی تعبیر واقعی خوفناک ہے۔ یورپی سنٹرل بینک کے ایک کونسل ممبر کے بقول ''ریڈیکل بائیں بازو نے یونان کے عوام سے جھوٹے وعدے کیے تھے۔۔۔۔۔عوام جلد سمجھ جائیں گے کہ ان سے دھوکہ ہوا ہے۔۔۔۔۔اگر وہ یورو چھوڑتے ہیں تو حالات آج کی نسبت دس گنا خراب ہوجائیں گے۔۔۔۔۔دس گنا!‘‘
جرمنی اور فرانس جیسی فیصلہ کن یورپی قوتوں کے فیصلے عوام کی خواہشات اور انتخابات میں ان کے اظہار سے بے بہرہ ہیں۔ بحیثیت مجموعی یورپی یونین کا کام ہی عوام کو لوٹ کر بینکوں کی تجوریاں بھرنا ہے۔ یونان کی طرح تھوڑی سی حکم عدولی کرنے والی حکومت بھی اگر کہیں منتخب ہوتی ہے تو سامراجی مالیاتی ادارے اسے بلیک میل کر کے مطیع ہونے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹین لیگارڈ کے مطابق 7.2ارب یورو کے امدادی پیکج میں سے 3.6ارب یورو یونان کو اس شرط پر دیے گئے ہیں کہ ''حکومت اپنی مقررہ پالیسی کو تبدیل کرے‘‘۔
سائریزا کی قیادت اس خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ چالبازی اور عیاری کے ذریعے یورپی اسٹیبلشمنٹ سے براہ راست تصادم سے بچا جاسکتا ہے۔ یہ لوگ اسی امید کے ساتھ برسلز گئے تھے کہ دیوالیہ معیشت اور عوام کی حالت زار کا رونا دھونا کر کے جرمن حکمرانوں کو موم کر لیں گے یا پھر یورپی یورنین کے ٹوٹنے کی دھمکی دے کر کچھ رعایات حاصل کریں گے۔ہتک اور رسوائی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آیا۔
یہ سچ ہے کہ جرمنی خطرناک کھیل کھیل رہا ہے اور یونان کی یورو سے علیحدگی پورے یورو زون کو تباہ کن بحران سے دوچار کر سکتی ہے۔ بات یورپی یونین کے انہدام سے بھی آگے بڑھ سکتی ہے اور عالمی معیشت زیادہ گہرے بحران کا شکار ہوسکتی ہے۔ یونان اگر سرکاری طور پر دیوالیہ ہونے کا اعلان کرتا ہے تو نہ صرف یورپ بلکہ دنیا بھر کے بینک متاثر ہوں گے کیونکہ گلوبلائزیشن کے پیش نظر مالیاتی شعبہ ایک اکائی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اپنے بینکوں کو سہارا دینے کے لیے ریاستوں کو بڑی مقدار میں پیسہ خرچ کرنا پڑے گا جس سے پہلے سے دیوہیکل ریاستی قرضوں کا حجم اور بھی بڑھ جائے گا۔ یورو کے مقابلے میں دراشما (یونان کی پرانی کرنسی) کی قدر انتہائی کم ہوگی اور سرمایہ تیزی سے ملک سے باہر منتقل ہوگا جس سے حالات اور بھی ابتر ہوجائیں گے۔ فنانشل ٹائمر 9 فروری کو لکھتا ہے کہ ''ڈومینو ایفیکٹ سے جنوبی یورپ اور پھر شمالی یورپ متاثر ہوگا جس کے بعد برطانیہ اور شمالی امریکہ بھی نہیں بچیں گے‘‘۔
ضروری نہیں کہ سیاست اور معیشت منطق کے تابع ہوں۔ سرمایہ دارانہ سماج کی حرکیات میں ہوس اور لالچ بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یورپی اسٹیبلشمنٹ کے سامنے سائریزا کی پسپائی سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا ہے۔ گزشتہ پانچ سال سے جاری یونانی ڈرامہ جاری ہے اور فیصلہ کن مراحل میں داخل ہورہا ہے۔ لب لباب یہ ہے کہ یونان اپناقرضہ ادا نہیں کرسکتا۔ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر اس بحران کا کوئی حل نہیں ہے۔ کمزوری جارحیت کو دعوت دیتی ہے۔ سائریزا حکومت کی طرف سے پسپائی کا ہر قدم جرمنی کے مزید تلخ مطالبات کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔
سائریزا کی قیادت کی سب سے بڑی غلطی شکست کو فتح بنا کرپیش کرنا ہے۔ ضروری ہے کہ یونان کے عوام کو سچ بتایا جائے، چاہے وہ جتنا ہی کڑوا ہے۔ سچ یہ ہے کہ ایک ٹکٹ میں دو شو نہیں ہوا کرتے۔ سود خور سرمایہ داروں کو خوش کیا جاسکتا ہے یا پھر یونانی عوام کے مفادات کی نمائندگی کی جاسکتی ہے۔ ''مصالحت‘‘ کا کوئی ''تیسرا راستہ‘‘ نہیں ہے۔ سائریزا کی حکومت اگر یورپی بینکاروں کے احکامات بجا لانے میں مزید آگے بڑھتی ہے تو یونان کی بربادی میں رہی سہی کسر بھی پوری ہوجائے گی۔نجات کا واحد راستہ یہ ہے کہ سرمایہ داری کو یکسر مسترد کر کے یونان اورپورے یورپ کے محنت کش عوام کو سماج کی انقلابی تبدیلی کے لیے متحرک کیا جائے۔ تمام سامراجی قرضے ضبط کئے جائیں، بینکنگ سمیت معیشت کے کلیدی شعبوں کو نیشنلائز کر کے عوام کی مرضی اور مفادات کے تحت چلایا جائے۔ سرمایہ داروںکے منافع اور ہوس پر مبنی یورپ کی یونین کو برابری اورحقیقی جمہوریت کی سوشلسٹ بنیادوں پر استوار کیا جائے اور یورپ کے جدید ذرائع پیداوار کو منصوبہ بند معیشت کے تحت عوام کی ضروریات کے مطابق بروئے کار لایا جائے ۔ سائریزا میں سرگرم کمیونسٹ رجحان اسی نظریے کی لڑائی پارٹی کے اندر اور باہر لڑ رہا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں