"AAC" (space) message & send to 7575

تاج محل کی گھنٹیاں اور الارم

ہمیں یقین تھا وزارتِ خارجہ کے بابُو بھارتیوں کو شرمسار ضرور کریں گے کوئی خاتون چاہے تخلیق کار ہی کیوں نہ ہو،سینئر کہلانا پسند نہیں کرتی۔ حجاب اسماعیل امتیاز آخری برسوں میں تو چلیے ثقلِ سماعت کا شکار تھیں مگر سالِ ولادت کا سوال تووہ ایک عرصے سے نہیں سُن پاتی تھیں۔اس لیے میں نے ایک عرصے سے کسی خاتون لیکھک کو سینئر لکھنا چھوڑ دیا ہے،بس یُوں سمجھ لیجیے کہ نیلوفر اقبال بھی ایسی ہی سدا بہار’نوجوان‘ افسانہ نگار ہیں۔حال ہی میں اُن کا دوسرا افسانوی مجموعہ ’سرخ دھبے‘ شائع ہوا ہے،مگر کوئی چار عشرے پہلے وہ افسانے کے افق پر احمد ندیم قاسمی کے ’فنون‘ کے ذریعے طلوع ہوئی تھیں،مگر تب بھی ان کی توجہ اور رقت آمیز بیانیے کا مرکز ہم ایسے بوڑھے تھے،جن کی اولادیں مصروف توہوتی جاتی ہیں مگر اتنی بھی نہیں کہ اپنے ’صاحبِ حیثیت‘ والدین کو بھُلا کر ان کے ترکے یا قرضوں سے محروم ہو جائیں یا اپنے حاسد ہم چشموں کی زبانوں کا نوالہ بن جائیں۔ نیلوفر اقبال کے نئے مجموعے کے ایک افسانے ’دھند ‘کے چند فقرے دیکھیے :’اس نے تنہائی کے سو نہیں تو اسّی سے کچھ اوپر سال گزار لیے تھے۔ اس کے وجود میں دکھائی دینے والی دو ہی چیزیں باقی رہ گئی تھیں۔سفید بال اور چہرے پر جمی ہوئی ایک مسکراہٹ۔شاید وہ چند روز یا چند ماہ پہلے کسی وجہ سے مسکرائی ہو اور پھر اپنے چہرے کے عضلات کو واپس لے جانا بھول گئی ہو‘۔۔۔۔’کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا،جب وہ تنہا ہم پانچوں کو سنبھالتی تھی،اب ہم پانچوں،دو نوکرانیوں کی مدد سے بمشکل اسے سنبھالتے تھے ‘۔اس سے پہلے وہ ’گھنٹی‘ جیسا یادگار افسانہ لکھ چکی ہیںمگر میں جب کبھی ان کا یہ پہلا افسانوی مجموعہ’گھنٹی‘ دیکھتا ہوں تو مجھے وہ گھنٹیاں اور الارم یاد آ جاتے ہیں،جو تاج محل کے گیٹ پر ہماری تلاشی کے دوران بجنا شروع ہوئے تھے۔ہوا یہ تھا کہ ہم پاکستان سے کوئی سولہ سترہ ادیب بھارت گئے تھے،دلی کی مصروفیات سے فارغ ہوئے تو ہم میں سے بیشتر بے توفیق شوہروں کو آگرہ یاد آیا اور بعض سمجھ دار بیویوں کا یہ شیریں صفت وعدہ ہمارے لیے ایک دل آزار خواب سابن گیا ہے کہ تاج جیسے مقبرے کا کوئی ایسا انتظام ہو جائے تو شاید ہم مر ہی جائیں۔ایک شام طے ہوا کہ ہم دلی سے چار لوگ ٹیکسی پر آگرہ جائیں اور اخراجات میں ساجھا کریں،فتح پور سیکری اور برندرابن سے ہوتے ہوئے اور اسی شراکتی فارمولے کے تحت واپس آ جائیں۔ سب سے پہلے اصغرندیم اس منصوبے سے مفرور ہوا،وہ اپنی بے پناہ خوشی پر اُداسی کا مہین نقاب ڈالے آیا’ یار،تارڑ کا ایک فین اپنی گاڑی پر ہمیں آگرہ لے جانا چاہتا ہے،اگر وہ ہمارا فین ہے تو ہماری عادتوں سے بھی واقف ہوگا اور ہمارے’آرام‘ کا خیال بھی رکھے گا اور ویسے بھی تم نے جن سنجیدہ اوربا کردار بیبیوں کے ساتھ آگرہ کی سیر کا پروگرام بنایا ہے،اس کا دل شکن اور عبرت ناک انجام مجھے معلوم ہے‘۔اور یوں ٹیکسی والے سے معذرت کر کے نئے ہم راہی تلاش کیے گئے۔اور کشور ناہید کی بین الاقوامی معلومات کے سہارے’ٹورسٹوں ‘ کے لیے مختص ایک بس کے لیے ایڈوانسڈ بکنگ کرائی گئی۔پہلی کمینی خوشی تب ملی،جب بس مقررہ سٹاپ پر صبح چھ بجے کی بجائے کوئی آٹھ بجے کھچا کھچ بھری ہوئی پہنچی۔نیلوفر اقبال سمیت ہمارا گروپ کوئی چار پاکستانیوں کا تھا،میں چونکہ جنوب والوں کے نین نقش رکھتا ہوں اس لیے ملیالم یا تیلگو بولے بغیر جنوبی بھارت کے ٹورسٹوں کا ہم نشیں ہو گیا،مگر ہماری غرارہ پوش اور لہنگا زیب خواتین نے اپنا امتیازی کردار برقرار رکھا، اور یوں انہیں دل فریب اقلیتوں کا درجہ مل گیا اور تین کم رو مسافروں کو عقبی نشستوں پر بھیج دیا گیا۔ اور یوں ہمیں تاج محل جا کر وہ الارم اور گھنٹیاں سننی پڑیں جنہوں نے ہماری ایک چالاک پھرتی کو وقتی ندامت میں بدل دیا۔اگر آپ بھارت گئے ہیں تو تاریخی مقامات پر پاکستانیوں کو احساس دلایا جاتا ہے کہ بھارت نے دو قومی نظریے کو مان تو لیا ہے مگر کافی دل آزار طریقے سے،جیسے قطب صاحب کی لاٹھ،شاہی قلعے اور تاج محل جیسی ’خالص ہماری‘ بنوائی گئی عمارتوں کے ٹکٹ گھروں پر لکھا گیا ہے کہ بھارتیوں کے لیے بیس روپے فی کس،’غیر ملکیوں‘ کے لیے بیس ڈالر فی نفر۔ویسے تو ترکی اور جاپان میں بھی ایسا ہوتا تھا مگر ترکی میں ہم جیسے استادوں کو سینما اور میوزیم میں کافی رعایت ملتی تھی اور جاپان میں تو خاص تیوہاروں پر یہ داخلہ مفت ہوتا تھا۔بہر طور تاج محل کے روبرو نہ جانے وہ رگِ حمیت کیوںپھڑکی جو لال قلعے پر سبز ہلالی پرچم لہرانے کے خواب سے دستبردار نہیں ہونے دیتی اور ہر مرتبہ شرمندہ تر کرتی ہے،چنانچہ میں قطار میں لگ کر اپنے اور اپنے ساتھیوں کے لیے اسّی روپوں کے چار ٹکٹ لے آیا،مگر جب ہم اندر داخلے کی قطار میں کھڑے ہوئے تو پتا چلا کہ پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں میں ’دہشت گردوں‘ نے سکیورٹی اداروں کے اختیارات بڑھوا دیے ہیں۔چنانچہ میری جیب میں موجود بٹوے کے اندر مقیم اے ٹی ایم کارڈز کی وجہ سے الارم بجنے لگے،جنہوں نے ہمارے گروپ کے افراد کے غرارے اور لہنگے بھی مشکوک بنا دیے۔ تلاشی پرمیرے بٹوے میں سے پاکستانی کرنسی اور شناختی کارڈ بھی نکل آئے،سو پولیس نے ہمیں گھیرے میں لے لیا۔ہماری درگت بنتی دیکھ کر تیسری قطار میں کھڑے تارڑ اور اصغر ندیم بے تعلقی سے مسکرائے۔پہلے تو جی چاہا کہ ہرنام سنگھ کی طرح شور مچا کے کہوں’تسی وی آ جائو،آپاں سارے پھڑے گئے آں‘ پھر خیال آیا کہ تارڑ کا تجربہ کام آیا ہوگا،اس نے اصغر کی جیب سے بھی وہ سب نشانیاں نکلوائی ہوں گی،جو الارم بجوا سکتی تھیں۔شرم سار ہو کر میں نے عذر کیا کہ ٹکٹ گھر پر ہدایات انگریزی اور ہندی میں ہیں اور ہم اردو کے سوا کوئی زبان نہیں جانتے۔تب میں عجلت سے اسّی ڈالر کے چار ٹکٹ لینے کے لیے قطار میں لگ گیا،جب مجھ سے آگے ایک ہی آدمی رہ گیا تو ہماری بے عزتی کرنے والے بھارتی سپاہیوں میں سے ایک آیا کہ سجنو! چار سو روپے بھارتی دے کر تم چاروں پاکستانی تاج کے اندر چلے جائو،مگر میں نے کہا ’تم نہیں جانتے،ہم پاکستان سے آئے ہیں،ہم بااصول،قانون پسند اور راست باز لوگ ہیں‘۔چنانچہ ہم نے جی کڑا کے اٹھارہ سو روپے بھارتی خرچ کیے اور چار ٹکٹ لیے۔پُرزے پُرزے ہونے والی اپنی سابقہ چار ٹکٹوں کا ری فنڈ بھی نہ مانگا،کیونکہ ہمیں یقین تھا کہ ایک نہ ایک دن ہماری وزارتِ خارجہ کے مستعد بابو اسّی روپے کا یہ کلیم پیش کر کے بھارتیوں کو شرمسار ضرورکریں گے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں