کوئی سیاست دان اپنے گھر سے ہی ہار جائے تو اس کی ساکھ باقی نہیں رہتی جیسے جیسے ’فرزندِ پاکستان‘ شیخ رشید احمد کے حقیقی مربّی اورمرشد میاں نواز شریف کی بے تعلقی اس ’سیاسی اور اخلاقی جنگ جُو‘ سے بڑھتی جاتی ہے،ویسے ویسے ان کا بے بس اشتعال گل افشانیٔ گفتار کے نئے باب رقم کر رہا ہے۔سردیوں کی رات میںایک ٹی وی چینل کی طرف سے سلگائے گئے الائو میں انہوں نے خود کُش حملہ آور کے سے عزم کے ساتھ کہا کہ اس مرتبہ میَں تابوت لے کر اپنے عوام کے پاس جائوں گا اور کہوں گا یا میرا ساتھ دو یا پھر ابدی نیند سو جائو‘۔ ان کے اس عزم میں الیکشن کمیشن کی اس پریشانی کا جواب بھی موجود ہے کہ جماعتیں زیادہ ہیں اور نشان کم،اس لیے شیخ صاحب کے بیان کے بعدتابوت کے انتخابی نشان پر بھی غور کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے شہر کے ایک معزز لوٹے نے ایک الیکشن سے پہلے اپنا منشور پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم اقتدار میں آ کر غریبوں کی تجہیز و تکفین مفت کریں گے۔وہ خود تو پیپلز پارٹی میں زیادہ دیر تک نہ رہے مگر ان کی جماعت نے ان کے وعدے کو اس مرتبہ پورا کر ہی دیا۔ غریبوں کی تجہیز و تکفین کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنی جماعت کی تدفین میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ بہر طور یہ غنیمت ہے کہ اپنی وفات سے پہلے اس جماعت نے ایک معجزہ کر دکھایا کہ پارلیمنٹ کو پہلی مرتبہ بقائمی ہوش و حواس ایک مکمل سیشن کاالوداعی فوٹو گراف عطا کر دیا،حالانکہ پاکستان میںجمہوریت کے سفر میں کھنڈت پیدا کرنے کے لیے شیخ صاحب جیسے افسردہ لوگوں نے کیا کیا نہ کیا اور کس کس کو طعنہ نہ دیا کہ’ ستو پی کر لیٹے ہو،اٹھو، ہفتہ دو ہفتہ پہلے ہی یہ جمہوری صف لپیٹو اور ہم جیسے بے روزگار خدمت گاروں کو کسی طالع آزما کا دربان ہو جانے دو‘۔ لگتا تو ہے کہ وقت بدل گیا ہے۔ہاںجب ہمارے جج بہ آوازِ بلند نہیں سوچتے تھے،جب امیرِ سپاہ مستقبل کے حوالے سے براہِ راست یا بالواسطہ عندیہ ظاہر نہیں کرتے تھے،جب موثر سفارت کار مشکل سفارتی زبان بولتے تھے اور جب حکمرانوں کی نیت کا فتور قلوپطرہ کے پسندیدہ قالین میں چھپا ہوتا تھا تو بے شک لوگ بڑے پیر پگاڑہ صاحب کے بیانات دل چسپی سے پڑھتے تھے،جو مرحوم پیار علی الانہ سے بعض زائچوں اور جنتریوں کی طرح کچھ فلک پیما اور ستارہ شناس آلات کا تبادلہ کر لیتے تھے۔ انہی کے دربار سے نکلی کوئی بات اورکبھی کبھار اِدھر اُدھر کی سُنی باتوں کو علمِ معرفت بنا کر پیش کرنے کے ماہر شیخ صاحب کے اقوال پر بھی کافی توجہ دی جاتی تھی،مگر کیا کیِا جائے جب کوئی سیاست دان اپنے گھر سے ہی ایک سے زیادہ مرتبہ ہار جائے تو وہ جتنا بھی گفتار کا غازی ہو،اس بے درد سیاسی دنیا میں اس کی ساکھ رہتی نہیں۔یہی وجہ ہے کہ جب انہوں نے ازراہِ شفقت عمران خان کو نو سیٹوں کے بدلے میں انتخابی اتحاد کی پیش کش کی تو انہیں زیادہ لفٹ نہیں کرائی گئی۔ مولانا سمیع الحق اور حمید گل وغیرہ کی ملّی دفاعی کونسل تو شاید سیاسی اتحاد میں تبدیل نہ ہو سکے،اس لیے ہر پھر کے شاید غلام مصطفی کھر کی موجودہ جماعت فنکشنل لیگ ان سے کوئی سمجھوتہ کر لے کہ مصطفی کھر بھی اپنے ہی گھر سے دو مرتبہ ہار چکے ہیں اور یوں اس طرح کے سبھی سیاست دان اپنا،اپنے قائدین یا جماعت کا تابوت لے کر پھر رہے ہیں۔اس مرتبہ بہت سوں کو یقین ہے کہ جنرل مشرف کی آمد کے باوجود انتخابات منصفانہ ہوں گے،وگرنہ جنرل ضیاء کے قصیدہ خوانوں کو وہ ریفرنڈم تو یاد ہو گا،جس میں نہ صرف ایک عجیب و غریب سوال لوگوں سے پوچھ کر خود ہی نتیجہ نکالا گیا تھا کہ اگر اس ملک کے لوگ اسلامی نظام چاہتے ہیں تو وہ مزید پانچ سال عوام کی تائید سے اس اقتدار میں رہیں گے،جس کے لیے وہ کسی کو جواب دہ نہیں تھے۔ ووٹوں کی شرح بڑھانے کے لیے ہمارے آبائی پتوں کے ووٹ کے ساتھ ملازمت کے مرکز پر بھی ہمارا ووٹ درج کیا گیا اور ہم سب کو الیکشن ڈیوٹی پر فرض کرکے حکم دیا گیا کہ ڈپٹی کمشنر آفس میں پوسٹل ووٹ ڈالا جائے۔پڑھے لکھے لوگوں میں بھی یہ مشہور کیا گیا کہ بکس کے اوپر چھت پر کیمرے نصب ہیں،جو منفی جواب دینے والوں کا محاسبہ قیامت سے پہلے ہی کرنے میں مدد دیں گے۔چنانچہ یونیورسٹی کی جس بس میں ہم سب ووٹ ڈالنے گئے،اس میں تین کے سوا کسی نے بھی میرے شر پسندانہ موقف کی حمایت نہ کی۔پولنگ میں اس سے بھی زیادہ عبرت ناک مناظر تھے،چنانچہ میَں نے شیخ رشید کی طرح باخبری کی وگ لگا کر اپنے سارے عملے کو اعتماد میں لیا کہ جو جرنیل ضیا ء الحق کا تختہ الٹنے کے آرزو مند ہیں،انہوں نے مردِ حق کو ایک جال میں دھکیلا ہے۔قومی تاریخ کے اس سب سے بڑے فراڈ کو جب عوام مسترد کریں گے تو نصف شب سے پہلے ایک اور عسکری بغاوت ہو گی اور سب سے پہلا مقدمہ اس انتخابی عملے کے خلاف چلے گا،جس نے دھاندلی کی ہوگی۔ایک دو خواتین نے کمزور سی مزاحمت کی مگر میَں نے ’اندرونی‘ خبروں سے واقفیت کا ڈراوا دیا۔نتیجہ یہ ہوا کہ دن بھر ہمارا پولنگ سٹیشن سُونا رہا۔ ملتان کینٹ سے مجلسِ شوریٰ کی ایک رکن آئیں اور غضب ناک لہجے میں ’تعاون‘ کی ہدایت کی۔میرے انکار پر ڈیوٹی مجسٹریٹ آیا اور میرے موقف پر چڑ کر کہا ’تم ہو تو ایک اٹھارہ گریڈ کے اسسٹنٹ پروفیسر،تم ’ہمارے‘ نظریاتی ٹینکوں کا راستہ روک سکتے ہو؟ پھر پولنگ کا وقت ختم ہونے سے پہلے تین درد ناک اعلانات ہوئے۔پولنگ کا وقت بڑھایا جا رہا ہے، ووٹ کے لیے شناختی کارڈ ضروری نہیں اور یہ کہ پاکستان کے کسی بھی علاقے کا شہری کسی بھی پولنگ سٹیشن پر ووٹ ڈال سکتا ہے۔عین اسی وقت نواب صادق حسین قریشی کے علاقے سے چار ٹریکٹر ٹرالیاں آئیں۔جن میں کوئی ڈھائی سو ووٹر موجود تھے۔ یوںہمارے پولنگ سٹیشن پر کل ڈھائی سو ہی ووٹ پڑے اور ان میں سے بھی ایک سو بیس افراد نے اس ’نہیں‘ پر مہر لگائی۔