آپ نے چیخوف کی ایک درد ناک کہانی ’کوچوان‘تو پڑھی ہوگی۔ کوچوان کا جوان بیٹا مر گیا تھا،وہ دکھ کے اس بوجھ کو اپنی کسی صاحبِ دل سواری سے بانٹنا چاہتا ہے،مگر سبھی مصروف ہیں،یا اُن کی منزل پہلے آ جاتی ہے یا خود نوحہ گر کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ بات مرنے والے کے بچپن سے شروع کرے یا پھراپنا بیان آخر وقت پر لے جائے جب موت کی خبر ایک تیز دھات جیسی نوکیلی شے بن کر اس کے کلیجے میں پیوست ہو گئی۔ پھر وہ اپنے سب سے صابر بے زبان سامع کا انتخاب کرتا ہے اور اپنے گھوڑے کے گلے میں بانہیں ڈال کر اپنے دل کے باغ کے اُجڑ جانے کا قصہ سنانے لگتا ہے۔ہمارے ہاں اک حشر بپا ہے۔ جنہیں بہتر مسلمان ہونے کا دعویٰ ہے،وہ بارود کے ٹرک بھرتے ہیں اور کم تر درجے کے مسلمانوں کے بچوں کو بھی اڑا دیتے ہیں،نوحہ خواں میتیں سڑکوں پر رکھ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ قاتلوں کے سرپرست یہ نہیں کہتے کہ اہلِ پاکستان کے دو قصور ناقابلِ معافی ہیں کہ وہ مہمان نواز ہیں اور ہر افغان، اُزبک،عرب اور چیچن کو کلمہ گو سمجھ کر گلے لگاتے رہے ہیں بلکہ کہتے ہیں کہ ہمارے’ناراض بچے‘ خود کُش جیکٹوں،بارود سے بھرے ٹرکوں کی مدد سے پاکستان میں اسلام نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ ہم صدیوں سے کہہ رہے ہیں کہ اسلام بذریعہ شمشیر نہیں،دلوں کو مسخر کرنے سے پھیلا، اس بات کی’ تصدیق‘ ہمارے اجڑے آنگن،تدفین کی منتظر میتیں اور سیاسی قیادتیں نہیں کر رہیں بھلا؟ ایسے میں کسی کو روک کے کہتا ہوں کہ انہی دو ہفتوں میں میرا پیارا شاگرد فیض مصطفی رضوی وفات پا گیا، جو مولوی کا بیٹا تھا،ہاکی کھیلتا تھا،ایک شرمیلی مسکراہٹ کے ساتھ بچے پڑھاتا تھا اور نازیہ کی ہمراہی میں امن بھرے گھر کا خواب دیکھتا تھا۔ سید عابد علی عابد کی خوش نوا بیٹی شبنم شکیل چل بسیں۔ ابھی کوئی ایک ماہ پہلے اُن کے شوہر کی وفات ہوئی تھی۔ اسی طرح ملتان کی ایک شاعرہ اور معلمہ طاہرہ عروج ایک بس اڈے پر ویگن سے اترتے وقت گنے کی ٹرالی سے ٹکرا کر چپ چاپ اُسی لمحے مرگئی۔ ادھرایک معصوم دل والا ہمارا درویش ڈاکٹر نعیم کلاسرا مرحوم ہو گیا ہے،جسے تیزاب سے جلی آنکھوں کی بینائی بحال کرنے کی لگن تھی اور وہ آئی سرجن ڈاکٹر علی حیدر کے قتل پر بہت افسردہ تھا کہ وہ بھی تیزاب بردار جتھوں کے مقابل آنکھوں کی روشنی بحال رکھنے اورکرنے کا جہاد کر رہا تھا،وہ جو ظفر حیدر جیسے سرجن کا بیٹا اور عالمی شہرت کے نیورو سرجن افتخار راجہ مرحوم کا داماد تھا۔جب رئوف کلاسرا اپنی اشک بار آنکھوں سے اپنے اورہمارے نعیم کی کوششوں سے اپنے گائوں میں قائم ہونے والے سکول اور بنیادی مرکزِ صحت کا ذکر کر رہاتھا تو بار بار خیال آتا کہ بے شک خاک میں ان گنت لوگ جاتے ہیں مگر کتنے ہیں جن کی نیکی، ہمدردی اور امید سکول،ہسپتال اور کتاب خانے کی صورت میں پھول کھلا دیتی ہے: سب کہاں،کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں خاک میں کیا صورتیں ہوں گی جو پنہاں ہو گئیں اب سوچتا ہوں کہ یہ محض اتفاق تو نہیں ہو گا کہ نعیم کلاسرا کی قُل خوانی میں شرکت کے لیے میَں پنڈی سے لیّہ کی جانب روانہ ہوا، جب تلہ گنگ سے میانوالی اور پھر ملتان مظفر گڑھ روڈ پر پہنچا تو اپنے ایک دوست مبارک احمد مجوکہ کی یاد آئی۔1972ء کے دسمبر میں میَں گورنمنٹ کالج کوئٹہ سے گورنمنٹ کالج رحیم یار خان پہنچا تھا،جو بعد میں خواجہ فرید کالج ہو گیا۔اس وقت انگریزی کے استاد مبارک مجوکہ کی الوداعی تقریب جاری تھی،اُس کا تبادلہ ملتان میں ہوا تھا۔اس کے ادبی ذوق،غالب سے لگائو اور شگفتگیٔ طبع نے مسحور ہی کر دیا۔ کسی قدر ملال بھی ہوا کہ ایسے شخص کی محفل سے نجانے کتنے برسوں کے لیے محروم ہو گیا ہوں۔پھر ملتان کے ہر اُستاد اوردوست کے خطوں میں مجوکہ کا ذکر ہوتا چاہے وہ اے بی،اشرف،عرش صدیقی جیسے استاد ہوں اور چاہے ، اصغر ندیم سید،فیاض تحسین،ارشد ملتانی،ظہور شیخ جیسے دوست سبھی کے مکتوب اُس کی شگفتہ بیانی اور مجلسی زندگی کی توصیف سے لبریز ہوتے۔کوئی چار برس بعدہم دونوں ملتان یونیورسٹی میں اکٹھے ہو گئے۔اشرف صاحب اس کی جزرسی اور کفایت شعاری سے چڑتے تھے (ان کا خاکہ اخبار اردو کے دسمبر کے شمارے میں شامل بھی ہے) مگر حقیقت میں اس کا دل اور بھابھی امۃ الحفیظ کا دسترخواں بہت وسیع تھا۔اس زمانے میں ہم میں سے بہت سوں کی تنخواہ ہزار ،پندرہ سو سے زیادہ نہ تھی،اس لیے مجوکہ کا یہ زریںقول،ہمیں قولِ محال ہی لگتا کہ زندگی میں پہلا لاکھ ہی مشکل سے ہاتھ لگتا ہے اور جس کے ہاتھ لگ جائے پھر چل سو چل۔وہ ہر طرح کے دُنیاوی معاملات میں ہمارا قائد تھا۔اُسی سے خریدے ہوئے پلاٹ پر میَں نے گھر بنایا ہے،بلکہ گھر بناتے ہوئے میں نے جن احباب سے قرض لیا،ان میں مجوکہ بھی شامل تھا۔اُنہی دنوں میں اس نے کہا تھا ’ مرنا تو برحق ہے،لیکن ہم میں انوار پہلے مرا تو اُس کے ساتھ کئی قرض خواہ بھی جاں بحق ہو جائیں گے‘۔ وہ ایک اچھے استاد کی طرح کوئی سیاسی لطیفہ یا کٹیلا جملہ سنانے سے پہلے کتاب اور مصنف کا تعارف بھی ساتھ کراتا تھا۔ ضیاء الحق دور میں ہماری انکوائریوں میں اس کی اس معصوم عادت (حوالۂ متن) کا بھی دخل تھا۔خود اس کا پہلے کٹاس اور پھر پپلاں میں تبادلہ ہوا ،وہاں سے وہ بھکر آ گیا کہ دریا خاں میں اس کی کچھ زمین بھی تھی۔ اسلامیات کے ایک استاد سے جغرافیہ پڑھنے کے سبب سمتوں اور راستوں کے تعین میں مجھے ہمیشہ دِقّت ہوتی ہے،سو لیّہ جاتے وقت میَں نے مجوکہ کو فون کیا کہ راستہ بتائو کہ میَں دریا خان کی بجائے لیّہ پہنچ سکوں۔ اس نے کہا: ’لالہ، میں اپنے وطن آیا ہوں آیندہ ہفتے ملتان ملاقات ہوگی ،اب ملتان آگئے ہو ناں تو تفصیل سے ملیں گے‘۔میں نے کہا’مجوکہ،یاد ہے کہ ہماری پہلی ملاقات کیسے ہوئی تھی؟میں جس شہر میں آیا تھا،تم وہاں سے جا رہے تھے‘۔مگر اس مرتبہ ہماری آخری ملاقات تو یوں بھی نہ ہوسکی۔ یہ کیسا دریا خان ہے جو میرے پیارے مبارک احمد مجوکہ کی زندگی کی آخری رات بھی نگل گیا۔