ایک زمانہ تھا،جب دنیا کے ہر ملک کی طرح ہمارے ہاں بھی دو ہی طرح کے لوگ ہوتے تھے، غریب اور امیر۔تب بھی ہمارے ہاں غریبوں اور امیروں میں کئی قسم کے لوگ ہوتے تھے،وہ غریب بھی جو سیر چشم ہوتے تھے،جو اپنے بھوکے اور محروم بچوں کو بھی انا کا سبق پڑھاتے تھے۔ چوروں،ڈاکوئوں سے ڈرنا نہیں،نفرت کرنا سکھاتے تھے۔ اورایسے امیر بھی جو ساری عمر سوالی ہی رہے، کسی نہ کسی ترکے یا قربانی کا کلیم پیش کرتے رہے؛ تاہم غریبوںکے غم میں کم از کم یومِ پاکستان یا یومِ قائدؒ پر نڈھال دکھائی دینے کی کوشش میں کامیاب ہو جاتے تھے اور شاید تب وہ دل سے یہ دعا بھی کرتے ہوںکہ ان کی تدفین اپنے وطن میں ہی ہو۔یہ خواہش ان کے معلوم بچوں اور اعلان شدہ بیگمات کی بھی ہوتی تھی،مگر رفتہ رفتہ سرمایہ داروں کے عالمی کلب نے انہیں باہر رہنے،بیرونی بینکوں میں سرمایہ رکھنے اور کشادہ دل لوگوں کے درمیان شامیں گزارنے کی سہولیات فراہم کر دیں۔ مجھے اعتراف ہے کہ اپنے شاگردوں کو ’بے دریغ ‘ اور ’بے باک ‘ زندگی بسر کرنے کی تلقین کرنے کے باوجودمیں ابھی تک دہقانی اخلاقیات سے پوری طرح چھٹکارا نہیں پا سکا۔یہی وجہ ہے کہ آج سے چالیس برس پہلے ایک مسلمان ملک کے سربراہ کے اس انٹر ویو نے کلامِ اقبال کے تناظر میں مجھے کافی صدمہ پہنچایا تھا،جس میں پاکستان کی بجائے بھارت میں اپنی سرمایہ کاری کا انہوں نے یہ جواز پیش کیا تھا کہ وہاں شام کافی رنگین ہوتی ہے اور برادر ملک پاکستان کی شام بے رنگ۔اب جب کہ ہم اپنی شاموں کو رنگین بناتے بناتے خونیں کر بیٹھے ہیں تو رحمن ملک جیسوں کی اس بات پر ہنسی بھی نہیں آتی کہ میں اپنے جانشینوں کو ایک پر امن ملک تحفے میں دے کر جا رہا ہوں۔ممکن ہے کہ الیکشن مہم شروع ہوتے ہی نہ صرف غلام احمد بلور،نوید قمر، اور چاروں سابق وزرائے اعلیٰ اپنی پاک دامنی اور نیک نیت فعالیت کے پوسٹر لے کر باہر نکلیں کہ آخر دو چار خوشامدی تو سابق کرسی نشینوں کو بھی مل ہی جاتے ہیں جو فریزر میں رکھے اپنے ضمیر کی بدولت انہیں تاریخ ساز کردار بناتے ہی نہیں، ثابت بھی کر سکتے ہیں۔ اب تو ٹی وی چینلوں کی بہار ہے،مگر ہمارے ہاں عبرت ناک وزرائے تعلیم کے باوجود خطابیہ دانشوری عام ہو گئی ہے۔میں چونکہ خود مخاطب کی تلاش میں رہتا ہوں ،اس لئے مروّت کے مارے بعض ’گفتگوئیں‘ اور ’تحریریں‘ بھی زہر مار کرنی پڑتی ہیں کہ میرے مخاطب کی دل آزاری نہ ہو جائے، یا وہ مجھ سے ملنا ہی نہ چھوڑ دے۔ تاہم ایک وقت ایسا بھی تھاکہ مجھے اپنے دفتر میں یہ لکھ کے رکھنا پڑ گیا تھا ’براہِ کرم اپنے کلام اور قیام کو مختصر رکھیں، تاکہ اس دنیا ہی میںمجھے بھی لکھنے پڑھنے کی کچھ مہلت مِل جائے‘،مگر میرے دوست اس اپیل کو بھی حسِ مزاح کا ایک اظہار خیال کرتے یا چونکا دینے کا عمل،سو وہ اسے کبھی خاطر میں نہ لائے۔ اپنے ملنے والوں میں مجھے زیادہ ندامت اپنی یونیورسٹی کے بیلداروں،مالیوں،چوکیداروں اور نائب قاصدوں سے ہوتی تھی، یا پھر اُن شاگردوں سے جنہیں میں اپنے معاشرے کے محروم لوگوں تک فیض کا یہ مصرع پہنچانے کو کہتا ’لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے‘ تاکہ یہ لوگ کوڑے مارنے والے ڈکٹیٹروں کے پیدا کردہ موت اور نفرت کے سوداگروں سے خوف زدہ ہو کر جمہوریت کے ذریعے سماجی عدل پر مبنی معاشرے کے خواب سے دست بردار نہ ہو جائیں۔ ہر الیکشن کے بعد اقتدار کے مراکز سے دور علاقوں میں بے روزگاروں کی لاچار قطار میں اضافہ ہی ہوا۔کوشش کے باوجود میَںبے دید اور وعدہ خلاف نہ بن سکا ۔ یہ کوشش بھی کر دیکھی کہ اپنی تحریروں میں ان غریبوں کے لیے اشک بہانے بند کئے جائیں،جن کے لیے پریم چند،کرشن چندر اور احمد ندیم قاسمی مجھ جیسوں کو ہلکان کرتے رہے۔ جالب، فیض اور ساحر، ان فاقہ مستوں کے رومان میں ایک سنہری صبح کا خواب دکھاتے رہے۔’اے غزالِ شب‘ جیسا ناول تو تارڑ نے اب لکھا ہے، جس کا مرکزی نقطہ یہی ہے کہ ’سب کچھ رائگاں سا گیا،ہلٹرڈ کا دل آویز حسن بھی اور میرا انقلابی کرشن بھی،راون جیت گیا،اور رام کو مات ہو گئی، نظریئے کی سیتا پامال ہو گئی ۔مزدوروں اور دہقانوں کی جنت کے خواب ایک دیو مالائی داستان تھی… زندگی بھر چپّو چلاتے رہے اور جب ہم منزل پر پہنچے تو وہاں نہ کوئی سنہری کھال تھی، اور نہ ہی افق پر کوئی سرخ سویرا طلوع ہو رہا تھا…‘ ویسے آپس کی بات ہے کہ اپنے مفروضہ نجات دہندہ کی ناطاقتی کے بارے میںشک تو مجھے بے نظیر کی پہلی حکومت کے دوران ہی ہو گیا تھا اور یہ خیال بھی کہ’جلاوطنوں‘ سے کسی انقلاب کی توقع نہ رکھیں تو اچھا ہے کہ یہ مہاجروں کی طرح ’یادش بخیر‘ جیسی مملکت کے مستقل باشندے ہو جاتے ہیں۔محبت کی المیہ کہانی کے آخرمیں یہ مکالمہ ضرور درج ہوتا ہے ، یہ اور بات کہ کبھی سسکیوں،ہچکیوں اور سرگوشیوں میں ادا ہوتا ہے اور کبھی موچی دروازہ یا چوک فوارہ اسلوب میں ’مجھے تم سے یہ امید نہ تھی ستم گر‘،’میں نے تمہیں کب کہا تھا کہ مجھ سے کوئی امید رکھو میری خوش فہم دھڑکن؟‘۔ سر عبدالقادر کا ایک سرکش پوتا ہے،خرم قادر،جس نے دہلی کے سلاطین پر ریسرچ کی اور ہم میں سے بہت سے خوش فہم انقلابیوں کو محمد تغلق کے بارے میں پڑھنے کی بار بار تلقین کرتا ہے۔ اس کے،میرے سیاسی نظریات جدا جدا ہیں،مگر اب اس کی ایک بات کا قائل ہو گیا ہوں کہ اپنی جد و جہد کا ثمر اپنی زندگی میں دیکھنے کے آرزو مند ہمیشہ افسردہ ہوتے ہیں۔ اس لیے ایک سکول کے بچوں میں اپنے دو چار ایسے مخاطب تلاش کرتا رہتاہوں،جو مجھے میری آئیڈیلزم پر شرمسار نہ کریں۔مگر کیا کروں گزشتہ ہفتے اس سکول کے ایک سابق طالب علم اختر نقوی نے کچھ بچوں کی یونیفارم کے لیے ایک امانت مجھے دی تھی جو میں مسلم ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر رانا گلزار کو دینے گیا ۔میں نے کوشش کی کہ اس موقع پرآئر لینڈ میں مقیم اختر نقوی سے فون پر رابطہ کر کے سکول کے ایک دو استادوں اور بچوں سے اس کی بات بھی کرا دوں۔اس وقت سکول کی گھنٹی بج رہی تھی۔اختر نے پوچھا کہ کیا محمد بخش یہ گھنٹی بجا رہا ہے؟ میں نے کہا کہ نہیںاس کے مرنے پر محکمہ تعلیم نے اس کے بیٹے کو گھنٹی بجانے پر رکھ لیا ہے۔تب اس نے کہا کہ ابھی تک ہمارے ہاں ایک تعلیمی درس گاہ میں بھی نائب قاصد کا بیٹا،نائب قاصد ہی کیوں ہوتا ہے؟۔اب میں اسے کیسے بتاتا کہ زکریا یونیورسٹی میں چالیس سال مالی رہ کر ریٹائر ہونے والے محمد حسین کے بیٹے کی جز وقتی مالی کی نوکری کی عرضی میں تین مرتبہ اپنے ’دوست‘ خواجہ علقمہ کے پاس لے گیا ہوں،مگر ہر مرتبہ گیلانی خانوادے کی جانب سے آئی ہوئی فرمائش کے بوجھ تلے یہ عرضی دب جاتی ہے حالانکہ یہ ڈاکٹر خواجہ بھی بیس تیس برس پہلے میری طرح نظام کی تبدیلی کے خواب دکھاتے نہیں پڑھاتے تھے۔