ویسے تو وہ ساری گھڑیاں بھی شُبھ گھڑیاں کہلانے کی مستحق ہیںجو بندہ و صاحب و محتاج و غنی اربابِ اقتدار کو ’تحفے‘ میں پیش کرتے آئے ہیں،ممکن ہے ان میں سے کچھ ان کے الیکشن کی مجبوری میں ظاہر کیے جانے والے اثاثوں میں شامل ہو گئی ہوں۔وہ گھڑیاں یقینا اس میں شامل نہیں ہوں گی جو ان کو بیرونی دوروں میں سرکاری تحائف میں ملیں اورانہوں نے شیرِ مادر کی طرح ہضم کر لیں۔ اگر کہیں کہیں پائے جانے والے کسی دیانت دار افسر نے مشفق ماں کی طرح ان کی کمر تھپک تھپک کر انہیں ڈکار دلانا چاہا بھی ہو گا تو انہوں نے ’رعایتی‘ سرکاری قیمت کی ادائیگی کے لیے بھی انہی ’مخیر افراد‘ سے رابطے کو کہا ہوگا جن کا دل اربابِ اقتدار کی مالی تنگ دستی پر ہمہ وقت کُڑھتا رہتا ہے۔ ہمارے ہاں سکندر مرزا کی ’دیانت داری‘ کے مدح سرا ناہید مرزا کی قیمتی گھڑیوں سے رغبت پر پورا پردہ نہیں ڈال سکے۔ ان کی بارگاہ میں جان بوجھ کر جُوا ہار جانے والوں کے نقصانات کی تلافی کے لیے وہ نیک دل خاتون انتظامی یا اصلاحی اقدامات کرتی تھیں اور کراچی کے چیف کمشنر کو ہدایات دیتی تھیں۔ اور کچھ نہیں تو ان کا ذکر ان کے سوتیلے بیٹے ہمایوں مرزا کی کتابFrom Plassey to Pakistan میں توہونا چاہیے تھا، جس میں انہوں نے بڑی محنت سے ہمارے اس تاریخی مغالطے کو دور کرنے کی کوشش کی ہے کہ ان کے جدِ امجد میر جعفر کوئی غدار شدار نہیں تھے ۔وہ تو ایک عملیت پسند مدبر تھے جنہوں نے بنگال کے مسلمانوں کی بہتری کے لیے وہ فیصلہ کیا جو کم تر ذہنی صلاحیت کے سراج الدولہ مشکل کی اس گھڑی میں نہ کر سکے۔بہر طور‘ افسوس یہ ہوتا ہے کہ ایسی قیمتی گھڑیاں بھی ہمارے حکمرانوں کو یہ بتانے سے قاصر رہتی ہیں کہ اقتدار عارضی ہوتا ہے اور گیا وقت ہاتھ نہیں آتا۔ گم شدہ تخت و تاج کے لیے آپ اپنی اولاد کو بھی ہدف کی طرف داغتے رہتے ہیں مگر وہ اخلاقیات کے لحاظ سے آپ سے بھی زیادہ تہی دست نکلتے ہیں۔ ہمارے ہاں تاریخ اور میوزیم وغیرہ سے دل چسپی بس واجبی ہی ہے وگرنہ ہر مقتدرادارے کے سابق سربراہ سے قومی میوزیم کے لیے ایسی گھڑی،کرسی،وردی اور وگ کے نوادرات لے کر آئندہ نسلوں کے لیے محفوظ کر لینے چاہئیں۔ بلکہ ہو سکے تو ان کے پسندیدہ پیروں اور نجومیوں کا ایک ایک مومی مجسمہ بھی بنا لینا چاہیے، جنہوں نے انہیں اقتدار کو دوامی بنانے کے لیے تعویذ یا زائچہ بنا کر دیا تھا اور اہم فیصلے کے لیے شُبھ گھڑی بھی بتائی تھی۔ ان سب حکمرانوں سے اچھا تو جمشید تھا کہ اسے پتا تھا کہ حاکموں کی توجہ کا مرکز کوئی گھڑی نہیں جام ہوتا ہے اور انہونی تک کی تلاش بھی اسی جام میں ہونی چاہیے، جبھی تو اس نے اپنے جام میں دنیا کا زائچہ بنا کے اسے ’’جام جہاں نما‘‘ بنا دیا تھا۔ ہم لوگ مجموعی طور پر کسی روحانی کمک یا اشارے کے منتظر رہتے ہیں حالانکہ اب جب کہ لڑکی لڑکے کے بارے میں بہت سا ڈیٹا نادرا اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے پاس موجود ہے،پھر بھی شادی بیاہ کے موقع پر شُبھ گھڑی کی تلاش کی جاتی ہے۔ میں ایک صاحبزادی سے واقف ہوں جس نے اپنی شادی کے لیے استخارہ ایک طلب گار سے کرایا تھا لیکن شادی کسی اور سے کی تھی۔ سبھی اخباروں کا مقبول گوشہ ’یہ دن کیسا گذرے گا‘ سے سجا ہوتا ہے۔ بعض ٹی وی چینل اس کام کے لیے نجومیوں کے میک اپ میں بے روز گار چڑوں کو بھی بلا لیتے ہیں۔ ان میں سے دو ایک تو چڑیا گھر میں مردہ جانوروں کی کھال پہن کر پرفارم بھی کر چکے ہیں۔ ویسے یہ ان دنوں کی بات ہے جب یہ غلط فہمی ہوتی تھی کہ درندے صرف چڑیا گھر میں پائے جاتے ہیں۔ اصل میں یہ سب باتیں اس وقت یاد آئیں جب کل میرے ایک دوست مظہر عارف نے میرے ایک گذشتہ کالم میںپاکستان پیپلز پارٹی کے بیشتر قائدین کے لیے میرے قمچی نواز فقرے پر سخت احتجاج کیا۔ انہوں نے ضیاء الحق دور کے اس مشترکہ بیان کا حوالہ دیا جس میں بڑے بڑے دانش وروں اور اہل قلم کے ساتھ مجھ ایسے معلم کے بھی دستخط تھے،جس میں کوڑوں کی سزا کو انسانیت کی توہین قرار دیا گیا تھا۔ میں نے شرم سار ہو کر کہا کہ میں نے کوڑوں کی خشونت اور وحشت کے ساتھ قمچیوں کی نزاکت بھی تو شامل کر دی تھی۔ اسی عالمِ انفعال میں ایک جیالے کا غضب ناک فون آیا کہ آپ بھلا کالے بکروں اور کالے مرغوں کے قتلِ عام پر مامور ایک صاحب کے پیر کے جلال کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟ گیارہ مئی کی شُبھ گھڑی انہوں نے ہی بتائی ہے اور راجہ پرویز اشرف بھی مختلف مقدس درباروں سے اسی گھڑی کو مصدقہ شُبھ بنا کے آئے ہیں۔جب کسی معاشرے میں صفات کم ہوتی ہیں،اسمائے صفات کا استعمال بڑھ جاتا ہے۔ عقل کی بھی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے تو توہمات کا اندھیرا بڑھ جاتا ہے،تب لوگ سامنے کی سیاسی حقیقتیں نظر انداز کر دیتے ہیں۔ یہ جو سیاسی قیادتیں اپنے پسندیدہ امیدواروں کو ٹکٹکی پہ باندھ کے دم سادھے بیٹھی ہیں کہ کہاں کہاں سے ان کی نا دہندگی کے سندیسے آ رہے ہیں،ابھی تو ایک آدھ اور الیکشن ہو جانے دیں،ان کے ووٹر اٹھ اٹھ کر الیکشن کمیشن میں آیا کریں گے کہ وہ ہمارے نا دہندہ ہیں‘ کیا کیا سبز باغ دکھائے تھے۔ اور تو اور کالا باغ کے ایک دو خُوب رُو وارث بھی ہم سے دُور کر دئیے ہیں۔ ہم نے اپنے بچوں کی نوکریوں کے لیے انہیں اور ان کے کارندوں کو جو پیسے دئیے تھے وہ ہمیں واپس دلائے جائیں۔ ایک جیسے نام بھی بڑی گڑ بڑ کر دیتے ہیں۔میری یاد داشت میں وہ خالد احمد کھرل تو فوت ہو گئے تھے جو لاڑکانہ کے ڈپٹی کمشنر تھے،جنہوں نے بھٹو صاحب کے مدِمقابل جان محمد عباسی کو اغوا کرایا تھا اور ان انتخابات کے لیے فالِ بد بن گئے تھے،بے نظیر دور میں وزیر بھی بنے تھے، اب یہ ان کے ہم نام ہی ہوں گے جو میاں نواز شریف کی لیگ میں شامل ہو گئے ہیں!! اب کچھ کچھ خیال آتا ہے کہ انتخابات کے بعد صدیق الفاروق کی صدائے دل گداز گونجے گی کہ ہم کیا کرتے،کچھ بارودی سرنگیں ہماری پارٹی میں بھیج دی گئی تھیں۔