"AAC" (space) message & send to 7575

تاج محمد لنگاہ، ان تھک سیاسی کارکن

اس کا مزاج ہی ایسا تھا کہ گویا اس نے ڈپلومیسی سیکھی ہی نہیں تھی۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد اس کا مہذب ترین مخاطب بھی غرّا رہا ہوتا اوروہ خود بھی اس پر تابڑ توڑ حملے کر رہا ہوتا تھا۔ اسی لیے ٹی وی کے پروگرام ادھورے رہ جاتے اور مباحثوں کا اختتام بڑے تلخ طریقے سے ہوتا تھا۔ایوب خان کی آمریت کے خاتمے کے ساتھ ہی عارضی طور پر ملتان کے سیاسی خانوادوں کا سیاسی تنفس رک سا گیا تھا اور چند جوشیلے نوجوانوں نے پہلی مرتبہ کسی لائوڈ سپیکر کے بغیر کچی بستیوں میں کالونی ٹیکسٹائل ملز،جی ٹی ایس اور کھاد فیکٹری کے مزدوروں اورطالب علموں سے کارنر میٹنگ شروع کیں، جو سٹڈی سرکل کی ایک نئی شکل تھی۔ یہ لوگ ایک نئی جماعت پیپلز پارٹی کا نام لیتے تھے۔ ان میں محمود نواز بابر اورمختار اعوان کے ساتھ کہروڑ پکا کا تاج محمد لنگاہ بھی شامل تھا جو لندن سے بار ایٹ لا کر کے لوٹا تھا اور جو لوگوں کو ایک نئے سیاسی نظام کی نوید سنا رہا تھا۔پھر فروری 1970ء کے انتخابات کا مرحلہ آ گیا۔ تاج لنگاہ کا مقابلہ پنجاب کے ایک بڑے جاگیردار اور بہت تجربہ کار سیاست دان ممتاز دولتانہ سے تھا۔ بھٹو نے دو مرتبہ ملتان ڈویژن کے ان حلقوں کا طوفانی دورہ کیا،ہر مرتبہ اس حلقے میں جانے سے گریز کیا۔ ممکن ہے جو لوگ بھٹو کی فردِ جرم میں یہ لکھے بیٹھے ہیں کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں اس کا طے شدہ کردار تھا ،وہ میری اس خوش خیالی کو قبول نہ کریں کہ بھٹو کی خواہش تھی کہ نئی پارلیمنٹ میں میاں ممتاز دولتانہ اور غوث بخش بزنجوجیسے سیاست دان موجود ہوں جو عوامی لیگ کی قیادت کو پاکستان کے نئے متفقہ دستور کی طرف لانے میں مثبت کردار ادا کر سکیں۔ بہرطور معمولی ووٹوں کی شکست نے اس نوجوان سیاست دان کو غیر معمولی حیثیت دلا دی۔اسے پارٹی کا ڈپٹی سیکرٹری جنرل بنا دیا گیا۔ لیکن تاج لنگاہ کے دل سے یہ بات نہ نکل سکی کہ اس کے قائد اس کی شکست چاہتے تھے۔ یہ شکست تاج لنگاہ کی شناخت بن کر اس سے چپک سی گئی،سو اس نے اس کے بعدتمام الیکشن ہارے،وہ چاہے اپنی سرائیکی پارٹی کے قائد کے طور پر لڑے یا اپنی سابقہ پارٹی کے ٹکٹ پر۔(1970ء کے انتخاب میں ممتاز دولتانہ نے67,739ووٹ جبکہ تاج لنگاہ نے 52413ووٹ لیے۔ 1990ء کے الیکشن میں انہوں نے صرف766 جب کہ صدیق کانجو اور مرزا ناصر بیگ نے علی الترتیب60954اور40,558ووٹ لیے۔ تین برس بعد ان کے یہ ووٹ بھی نصف رہ گئے حالانکہ انہوں نے دو حلقوں سے انتخاب لڑا۔ بدقسمتی سے2002ء اور 2008ء کے انتخابات کے نتائج بھی ان کے لیے دل شکن تھے۔ اعتزاز احسن 2002ء میں بہاولپورکے حلقہ 5 سے بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے مگر انہوں نے یہ نشست چھوڑدی تھی۔ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ضمنی انتخاب لڑتے ہوئے بھی انہیں قابلِ ذکر عوامی تائید نہ ملی، محض1644ووٹ ملے،) مگر اس مرتبہ وہ آخری معرکے کے لیے بڑے جوش و خروش سے میدان میں اترے تھے۔ وہ ان انتخابات کو سرائیکی صوبے کے لیے اہم ترین خیال کرتے تھے،مگر اپنی پارٹی کے یومِ تاسیس پر دل کے ہاتھوں بے بس ہوگئے۔ میری ان سے سرسری تو کئی ملاقاتیں ہوئیں،ریڈیو اور ٹی وی کے چند مذاکرے ،شہر کی تقاریب ،مگر جب میَں سرائیکی ریسرچ سنٹر کا ڈائریکٹر ہوا تو وہ یونیورسٹی میں بھی میرے پاس کئی مرتبہ آئے اور دو مرتبہ میرے گھر پر بھی تشریف لائے‘ جب وہ سرائیکی صوبے کے لیے سپریم کورٹ میں ایک آئینی رٹ دائر کرنے کا منصوبہ رکھتے تھے۔میرے دل میں ان کے لیے جو احترام تھا وہ بد قسمتی سے ایسی ملاقاتوں میں بعض مباحث پر ان کی یا میری حجت بازتلخ نوائی کے سبب پوری طرح ظاہر نہ ہو سکا،جس کا مجھے افسوس ہے۔ایک مرتبہ جب وہ جنرل مشرف کے ریفرنڈم کی حمایت کر رہے تھے اور میرے پاس یہ معلوم کرنے آئے کہ سرائیکی سنٹر کے لیے کتنے ملین کی گرانٹ کافی ہوگی تو میَں نے انہیں اپنا افسانہ’چرم ہائے قربانی‘ پیش کیا کہ قربانی کی کھالوں کو جمع کرنے والوں نے ڈکٹیٹروں کا آلۂ کار بن کر ہمارے ساتھ اب تک کیِا کیا ہے؟پاکستان میں چونکہ یہ مفروضہ جڑ پکڑ چکا ہے کہ جابر سلطان سے پوچھ کر ہی کلمۂ حق کہنا چاہیے، دوسرے ہمارے مغربی ساہوکاروں اور اسٹیبلشمنٹ نے ہی آخر کار وفاقی اکائیوں میں ردّوبدل کے بارے میں فیصلے کرنے ہیں، اس لیے وقتاً فوقتاً تاج لنگاہ کو بھی غالب کا یہ شعر اچھا لگنے لگا تھا ؎ چاک مت کر جیَب، بے ایاّمِ گل کچھ اُدھر کا بھی اشارہ چاہیے ان کی ثابت قدمی سے یہ ضرور ہوا کہ میاں نواز شریف کے سوا آج پاکستان کی تمام سیاسی موثر قوتیں مانتی ہیں کہ پاکستان کا وفاقی ڈھانچہ ایک وحدانی نظام کا چربہ بن چکا ہے،سرائیکی صوبہ ہی اس مملکت کی وفاقی اکائیوں کو توازن دے سکتا ہے۔ اب جبکہ ان کی پارٹی کی قیادت ان کی بہت لائق اور مدبر بیٹی ڈاکٹر نخبہ لنگاہ کے پاس ہے،جس نے لیڈز یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کیا ہے،مجھے امید ہے کہ وہ سرائیکی خطے میں رہنے والی تمام قومیتوں کا اعتماد حاصل کریں گی اور عمران خان اور بلاول بھٹو کے ساتھ بھی مذاکرات کو بامعنی بنائیں گی کیونکہ یہ نہیں تو آیندہ انتخابات پاکستان کی نوجوان قیادتوں کے ہاتھ میں سبھی اختیارات سونپ دیں گے اور وہ ایک نئے طرزِ حکمرانی سے اس ملک کو آشنا کریں گے۔ (میَں اپنا کالم خود کمپوز کرتا ہوں،اس لیے گذشتہ کالم میں غالب کا ایک شعر غلط چھپنے کا مجھے اس کے کاغذات مسترد ہونے سے بھی زیادہ افسوس ہے) شعر ہے: دیر و حرم آئینۂ تکرارِ تمنا واماندگیٔ شوق تراشے ہے پناہیں

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں