مارگریٹ تھیچر کی وفات پر ہر قسم کے تبصرے ہو رہے ہیں،کوئی اسے فولادی خاتون لکھ رہا ہے،کوئی اسے پنساری کی بیٹی،جس نے اپنے طبقے سے ’غداری‘ کی اور غریبوں کے لیے بہت سے امدادی پیکج ختم کیے، وغیرہ۔ظاہر ہے کہ یہ برطانویوں کا حق ہے کہ وہ اس کی موت پر سوگ منائیں،یا ٹھٹھے لگانے والوں میں شامل ہو جائیں،مگر پاکستانی سیاست میں اس سابق برطانوی وزیرِ اعظم کا ایک رول ہے،جسے بے نظیر بھٹو نے اپنی تحریر اورتقریر میں بیان کیا،جو ظاہر ہے کہ ان کی جُز وقتی ’استانی‘ نے کبھی نہیں چاہا ہوگا کہ یہ راز یوں عوامی چوپالوں میں رُسوا ہو۔ ہر شخص جانتا ہے کہ ضیاء الحق کا طیارہ گرنے پر جنرل اسلم بیگ کے لیے کافی مشکل ہو گیا تھا کہ وہ اقتدار کی کرسی سنبھال لیں،کیونکہ پہلے دن سے ہی اس حادثے میں ان کے کردار پر سرگوشیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا،اس لیے بھٹو دشمن بیورو کریسی میں سے ایک معتمد غلام اسحاق خان کا انتخابِ نیم شب عمل میں آیا،جن کے مداح کم و بیش وہ تمام حلقے خصوصاً اہلِ قلم اور اصحابِ دہن تھے،جو ضیا الحق کو مردِ مومن خیال کرتے تھے۔ عام تاثر یہی تھا کہ جنرل صاحب اہلِ پاکستان کا علاج بالمثل کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں،یعنی جمہوریت کا گُڑ دے کر سیاست دانوں کو باری باری ذلیل و خوار ہونے کا پورا موقع دیں گے اور پھر بادلِ ناخواستہ تین سال پہلے کی لکھی ہوئی ایک تقریر پڑھ دیں گے’عزیز،ہم وطنو! ہم نے چاہا کہ عوام کے نمائندے امورِ مملکت چلائیں،مگر افسوس یہ لٹیرے بھی ہیں اور نا اہل بھی،اس سے پہلے کہ پاکستان کے لوگوں کا جی اس مملکت سے ہی اُچاٹ ہو جائے،ہم نے براہِ راست اقتدار سنبھالنے کا فیصلہ کیا ہے‘۔ اب تو بہت کچھ شائع ہو چکا ہے کہ بے نظیر بھٹو نے کیوں نواب زادہ نصراللہ کے مقابلے میں غلام اسحاق خان کو صدر بنوایا تھا اور اسلم بیگ ’منتخب‘ وزیرِ اعظم کو سلیوٹ کرنا غیرتِ قومی کے خلاف کیوں سمجھتے تھے اور جنرل صاحب کو ان کی اوقات یاد دلانے کے لیے بے نظیر نے کیوں جنرل نصیراللہ خان بابر کو اپنے ارد گرد رکھا تھا،جن کے بیگ صاحب اے،ڈی،سی رہے تھے،جنہیں وہ سلیوٹ بھی کرتے تھے اور اونچی آواز سے محض ’اسلم‘ کی آواز سن کر زہر آلود نظروں سے دیکھنے کے باوجود آ جاتے تھے۔پھر ابھی جیالوں میں سے ایک تہائی کے ’کلیموں‘ کا فیصلہ ہوا تھا اور ایک تحریکِ عدم اعتماد کو ساہوکاروں کی ’امداد‘ سے ناکام بنا کر بھی بے نظیر حکومت اپنے ’درویش‘ سپیکر کو مستقبل کا ایک سیاسی حریف بنا بیٹھی تھیں،سو بہت آسان تھا،غلام اسحاق خان کے لیے اس نو آموز حکومت کو برطرف کرنا، سو یہ ہوا۔ پھرجب ان انتخابات کے نتیجے میں میاں نواز شریف وزیرِ اعظم ہو گئے اور بڑے پیر پگاڑہ صاحب کے لفظوں میں قیادت ساز ادارے مطمئن ہو گئے کہ ضیاء الحق کے دور کو پاکستان میں دوام حاصل ہو گیا ہے اور پیپلز پارٹی بھی اقتدار کی دودھ شریک ہو کر اب مزاحمت کے قابل نہ رہی تھی۔تب وزیر اعظم اور صدرِ مملکت یک جان دو قالب تھے اور بظاہر ایسا لگتا تھا کہ یہ دور تین سے چار عشروں پر محیط ہو گاکیونکہ غلام اسحاق خان کی صحت بہت اچھی تھی اور میاں صاحبان تو ابھی’رننگ‘ کے مرحلے میں تھے۔تب مارگریٹ تھیچر برطانیہ کی وزیرِ اعظم تھیں اور یہ تو اب امریکی بھی مانتے ہیں کہ اپنی سابقہ نو آبادیوں کی سیاسی اور عسکری اشرافیہ کے بارے میں جو مستند ریکارڈ برطانیہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں ہے،وہ دنیا میں کہیں نہیں۔بے نظیر ان سے متعدد مرتبہ ملیں۔مارگریٹ تھیچر نے انہیں مشورہ دیا کہ اسحاق خان اور نواز شریف اتحاد کے پیچھے پاکستان کی وہ مشترکہ قوتیں ہیں،جنہیں تم ایک عمر میں تو شکست نہیں دے سکتیں‘ سو ان دونوں میں سے ’قدرے کمزور‘ کا انتخاب کرو،اس سے رابطے استوار کرو اور پھر اقتدار کے لیے ان کی خواہشات اور عادات کے اختلاف کا مطالعہ کرو اور اپنے لیے مواقع پیدا کرو۔بے نظیر سمجھ دار تھیں‘ انہوں نے پہلے مرحلے کے لیے غلام اسحاق خان کو اور دوسرے کے لیے میاں صاحب کو خیال کیا۔فاروق لغاری،شیرپائو،فیصل صالح حیات،رائو سکندر جیسے ’باوفا‘ ساتھیوں کو اپنے اپنے روابط کو ایجنسیوں تک پھیلانے کو کہا گیا ،پھر جو کچھ ہوا،وہ سب کے سامنے ہے،تاہم اس حکایت میں ایک نکتہ ہے جو جناب صدر کو بھی اس وقت نہ سوجھا‘ حالانکہ وہ سیاست کے دائو پیچ سے آگاہ ہو چکے تھے کہ آپ دوسری ٹکڑیوں کو بھٹکانے کے لئے جو ’شکاری‘ کبوتر اڑاتے ہیں،وہ ایک آدھ مرتبہ تو اپنا معصوم شکار اغوا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں،مگر ساتھ ہی زیادہ محفوظ اور آرام دہ چھتریوں سے واقف ہو کر آخر آخر پیٹریاٹ بھی ہو جاتے ہیں۔ بہرطور جب دو بڑوں میں کشیدگی کے آثار پیدا ہوئے تو پشاور یونیورسٹی کے ایک دوست نے ان دونوںکے مزاج کو سمجھنے کے لیے ایک لطیفہ سنایا تھا،جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے کہ: ایک مرتبہ میاں صاحب،صدرِ مملکت کے ساتھ شمالی علاقوں میں مچھلی کے شکار کے لیے گئے، سارے دن میں ایک مچھلی ہاتھ لگی۔اسحاق خان نے استحقاق ثابت کر نے کے لیے اپنا رواج بتایا،میاں صاحب نے طبیعت پر جبر کر کے ان سے پنجہ آزمائی شروع کی، مگر جب میاں صاحب زور آزمائی میں غالب آنے لگے تو گھاگ صدر نے کہا ’میاں صاحب، جھگڑا کس بات کا،یہ مچھلی آپ کی ہے،میرا دل بڑا ہے‘۔