آپ نے بعض قبر کنارے پہنچے بے بس لوگوں کو کبھی کبھار اونچی آواز میں بولتے سنا ہو گا،مگر ایسے کہ ان کے بیان کا ہر لفظ ان کے عبرت ناک حال بلکہ افسوس ناک ماضی کو بے دردی سے بے نقاب کر جاتا ہے اور اگر ایسے لوگ کسی منصب پر فائز ہو جانے کے بعدبولنے کے لئے مجبور کر دیئے جائیں اور مجبور کرنے والے سرکاری،درباری اور مداری دائیں بائیں کھڑے ہوں اور لوگوں کی بڑی تعداد ان کی ضعیفی سے ہمدردی بھی رکھتی ہو تو بھی سننے والوں کو توبہ توبہ کرنے یا عبرت پکڑنے سے آپ نہیں روک سکتے ۔ ایسے سراپا عبرت مقررین کے برعکس نواب زادہ نصراللہ خان احراری تھے،خطیب اور خوش نوا شاعر تھے،عمر کی آخری سانس تک تاریخ کا جوہراور سیاست کا ذوق ان کی نس نس میں بولتا تھا،اس کے باوجود مجھے ان کے اجڑے ہوئے ایک جلسے میں اپنے برابر بیٹھے ایک ان پڑھ دیہاتی کا بلیغ تبصرہ نہیں بھولتا۔ تب وہ اے،آر،ڈی کے قائد تھے،پیپلز پارٹی ان کے جلسوں کی رونق بڑھایا کرتی تھی،مگر قاسم باغ ملتان میں ہونے والے ان کے ایک جلسے میں محترمہ نے اپنے ورکرز کو شرکت سے روک دیا تاکہ میاں صاحب کی جانب ان کی ممکنہ پیش قدمی رُک جائے۔ سو،اس جلسے میں حاضرین بمشکل دو،تین ہزار ہی آئے،سٹیج کے سامنے دو،ڈھائی قطاریں تھیں،یا پھر ہمارے جیسے مونگ پھلی خور،گنڈیری چوس بارہ چودہ سیاسی نشئی تھے۔جب نواب زادہ صاحب کی باری آئی تو میری دل چسپی ان کے ابتدائی کلمات میں تھی۔میَں سننا چاہتا تھا کہ وہ اپنی آج کی ہزیمت یا ساتھیوں کی بے وفائی کے اظہار کے لئے کس طرح کے تمہیدی جملے ادا کرتے ہیں یا اظہار کا تمثیلی پیرایہ اختیار کرتے ہیںمگر مجھے حیرت ہوئی،جب انہوں نے فرمایا کہ آج کا یہ عظیم الشان اجتماع اس بات کا گواہ ہے کہ۔۔،میرے ساتھ بیٹھے ایک دیہاتی نے سرائیکی میں تبصرہ کیا’ بابے دی دید ای مُک گئی اے، اصلوں‘۔بد قسمتی سے آپ بے دید اور ’بے چس‘ ہو کر کسی سرکاری منصب پر فائز ہو جائیں تو درباری آپ کے ذریعے افسردہ قوم کو مزید مایوس ہونے کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے،وہ آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ جونہی آپ ٹی وی کی سکرین پر دکھائی دیں گے،آپ کے سامنے وہ سارے لفظ ایک شیٹ پر منقش ہو کر آجائیں گے اور سادہ دل لوگ سمجھیں گے کہ آپ فی البدیہہ تقریر کر رہے ہیں،چاہے آپ نے موٹے شیشوں کی عینک ہی لگا رکھی ہو،بشرطیکہ آپ بچوں کی طرح سرکاری لفظوں کے جوڑ کرنا نہ شروع کر دیں۔ ایسی مردہ تقریروں کے بعدسرکاری مکھن بازوں کا زور دار سیشن شروع ہوتا ہے،اور وہ ایسے حکمران کو باور کراتے ہیں کہ ان کی نزعی تقریر نے قوم کی مردہ رگوں میں نئی زندگی دوڑا دی ہے،لوگوں کے سروں پر سے مایوسی کے بادل چھٹ گئے ہیں اور وہ تعمیرِ نو کا ولولہ لے کر کھیتوں،کھلیانوں اور کا رخانوں میں پہنچ چکے ہیں۔’وَل وَلہ سے‘ یاد آیا کہ آپ نے یہ تو پڑھا ہو گا کہ جب ایوب خان نے اپنے لئے لکھی گئی پہلی تقریر میں اسے ’ولُولہ ‘ پڑھا اور کئی مرتبہ پڑھا کہ آئین شکنوں کے پاس سب سے زیادہ ولولے ہی ہوتے ہیں، اور جب کوئی روک ٹوک نہ کرے تو پھر پیش کا استعمال بڑھ جاتا ہے۔وہاں کون سے خواجہ فرید تھے جو اسے نصیحت کرتیـ’ زیر تھی،زبر، نہ تھی متاں پیش آوی‘ (متاں،کہیں) البتہ ذوالفقار بخاری کا یہ شگفتہ جملہ پورے ملک میں پھیل گیا کہ میَں جنرل صاحب کی تقریر سے ’ولُولے‘ نکال رہا ہوں، کرسی نشینوں کے بارے میں سرکاری وفاداروں کے کچھ عزائم اور خواہشیں بار بار پوری ہوتی رہتی ہیں۔ چنانچہ گزشتہ دنوں آپ نے مراعات اور منصب کے ایک محترم قیدی کی تقریر سنی ہو گی،جو قومی وسائل ضائع ہونے کا ماجرا بھی سنا رہے تھے اور سننے والے لفظ ’نگران‘ کی توفیق اور استطاعت پر بھی غور کر رہے تھے اور ساتھ ہی ساتھ ایک شوخ شاعر کا چہکتا شعر بھی سنائی دیتا تھا کہ بہتر حواس رکھنے والے کی آنکھوں اور زبان کے دم پر ایک دنیا اب تک ایمان رکھتی ہے: گو ہاتھ کو جنبش نہیں،آنکھوں میں تو دم ہے رہنے دو ابھی ساغر و مینا میرے آگے اردو کے استاد کے طور پر میَں نے کافی بے توفیق لوگوں کے لئے تقریریں لکھی ہیں، تاہم مجھے دو دل چسپ موقعے نہیں بھولتے،پاکستان کی قومی ہاکی ٹیم کوئی عالمی اعزاز جیت کر1972 میں کوئٹہ آئی،سٹیڈیم میں ایک استقبالیہ اس کے اعزاز میں دیا گیا،گورنر بلوچستان کی تقریر کالج کے پرنسپل کی ہدایت پر میَں نے لکھی،مگر اس تقریب میں مجھے شرکت سے پولیس نے روک دیا کہ میَں کارڈ ساتھ لے جانا بھول گیا تھا،حالانکہ میَں ان سے کہتا رہا کہ گورنر نے ابھی جو کچھ کہنا ہے،میَں آپ کو وہ فقرے بھی سنا سکتا ہوں،مگر غنیمت ہے کہ وہ زمانہ اس طرح کی ’ولایت‘ کا دعویٰ کرنے والوں کو گم کرنے کا نہیں تھا،اسی طرح ایک گرلز کالج کے کانووکیشن پر بے فیض حکومت ِ پنجاب سے پرنسپل کے مودبانہ مطالبات پر مبنی تقریر میَں نے لکھی،مگر مضحکہ خیزصورتِ حال تب پیدا ہوئی جب وزیرِ موصوف کے سرکاری تقریر نویس سپاس نامے کا مسودہ میرے پاس لائے کہ اس مردود تحریر کا جواب لکھ دوں۔چنانچہ میَں نے اپنے تمام مطالبات کے جواب میں بے دردی سے لکھ دیا کہ ہم دردی سے غور کیا جائے گا۔ایسے ہزاروں لاکھوں تقریری لفظ سرکاری ہونٹوں سے ادا ہوتے ہیں،جہاں قلب و ذہن پر تالے پڑے ہوتے ہیں،پھر تالیاں بجتی ہیں اور بجتی رہتی ہیں،کسی کرسی نشیں کے قلب پر باہو کا مصرعہ دستک نہیں دیتا: سانوں تاڑی مار، اُڈا نہ باہو اسی آپے ای اُڈن ہارے ہُو یہ صرف ہمارا حال نہیں،اللہ کے فضل یا بھگوان کی کرپا سے ہمارے ہمسائے میں بھی یہی عالم ہے۔ گزشتہ برس بھارت کے سابق وزیرِ خارجہ نے سلامتی کونسل میں ساتھ بیٹھے کسی اور ملک کے وزیرِ خارجہ کی تقریر اٹھا کے پڑھنی شروع کر دی تھی۔ کوئی چھ سات منٹ تک نہ پڑھنے والے کو غلطی کا احساس ہوا،نہ ان مقرر کو،جن کی تقریر اچک لی گئی تھی اور نہ اکتائے ہوئے سامعین کو جو ہیڈفون لگا کر ترجمہ سنتے دکھائی دیتے ہیں،صرف وفد کے سرکاری تقریر نویس نے چٹ پیش کی ’سر،میرے والی تقریر،یہ ہے‘۔ یہ اور بات کہ پاکستان اور بھارت کی اشرافیہ کے تقریر نویس ہی ایک جیسے نہیں، ایک دوسرے کے قیدیوں کو مارنے کے لئے سکرپٹ لکھنے والے بھی ایک جیسے ہیں۔بہر طور منصب لیوا مصروفیات میں گھرے اکتائے ہوئے لوگوں کی تقریریں ضائع نہ ہوں تو کیا ہوں؟حالانکہ گیارہ مئی سے پہلے ہمارے بیشتر مقررین کے گھروں میں مصری اور ملٹھی کی ٹوکریاں جا رہی ہیں۔