لوڈشیڈنگ اور گرمی کے شکنجے میں لمحہ لمحہ مرتے ہوئے اس ملک کے ساتویں درجے کے شہریو! مہنگائی اور سودخوروں کے ہاتھوں پسے ہوئے انسان نما لوگو! قوت خرید سے باہر نکلی ہوئی روزمرہ کی اشیائے خورونوش کو حسرت سے تکتے ہوئے مجبوروبے کس پاکستانیو!سی این جی کے حصول کے لیے پانچ پانچ کلومیٹر لمبی قطاروں میں لگے ذلت اور رسوائی کی اتھاہ گہرائیوں میں مسلسل گرتے ہوئے مقہورومظلوم انسانو!دن بدن بڑھتے ہوئے بجلی اور گیس کے گردن توڑ بلوں سے بلبلاتے ہوئے ہم وطنو ! دہشت گردی اور بدامنی میں اپنی معصوم جانیں قربان کردینے والے معصوم لوگو ! بے روزگاری کے ہاتھوں مجبور ہوکر خودسوزی اور خودکشی کرنے والو! اور …اور ہم سے اتنی جلدی معجزوں کی امیدیں باندھنے والے خوش فہمو! فی الحال ہم تمہارے لیے کچھ نہیں کرسکتے۔ ہم نے جو کچھ کرنا تھا وہ بجٹ میں کردیا ہے۔ اب تم جانو اور اگلا پورا سال جانے۔ تم نے خود سوچنا ہے کہ اس روزانہ ٹوٹتے ہوئے بدن کو سلامت کیسے رکھنا ہے۔ اس خواب کو سلامت کیسے رکھنا ہے۔ اس تار تار قبائے زندگی کو مزید تار تار ہونے کیسے بچانا ہے، زندگی کو زندہ رہنے کے قابل کیسے بنانا ہے۔ اپنے آپ کو صبر اور برداشت کے ارفع ترین درجے پر فائز کیسے کرنا ہے ، اپنے بچوں کی نظروں سے دودھ اور پھلوں کو اوجھل کیسے رکھنا ہے۔ ان کے معصوم سے ذہنوں میں یہ بات کیسے ڈالنی ہے کہ سادگی اور اسراف میں کیا فرق ہے ؟ تم یہ نہ سمجھو کہ ہمیں تمہاری پوری خبر نہیں ہے، ہمیں ہر چیز کا پورا ادراک ہے ۔تمہیں تو علم ہی ہے کہ گزشتہ حکومت نے خزانہ خالی کردیا تھا ۔ ہم نے خالی خزانے کے ساتھ حکومت کی امانت کا بوجھ اٹھایا تھا۔ ہم آپ کے لیے کیا کرسکتے تھے۔ ہم تو آپ سے اپنی حکومت چلانے کے لیے مدد لینا چاہ رہے ہیں ،جس طرح آپ نے انتخابات میں اپنے محبوب رہنمائوں کو ووٹ دے کر ایوان اقتدار کی غلام گردشوں میں بھیج کر اس سے پہلے بھی مدد کی ہے۔ حکومت کے خزانے میں پیسہ بھی آپ ہی نے ڈالنا ہے، صرف آپ نے یعنی عام آدمی نے، تنخواہ دار اور دہاڑی دار نے، چھوٹے دکاندار اور صارف نے کیونکہ جی ایس ٹی کا پہاڑ صرف آپ پر ٹوٹنا ہے ،پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کا بوجھ بھی آپ ہی پر پڑنا ہے۔ عام دکانداروں سے لے کر بڑے ٹریڈرز اور مینوفیکچررز تک سب نے اضافی بوجھ عام آدمی پر ہی منتقل کردینا ہے۔ تمہیں تو ہماری مجبوریوں کا پوری طرح احساس ہے ،سو قربانی بھی تمہیں ہی دینا پڑے گی۔ ہم نے بڑے کاروباری لوگوں، صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں کو ٹیکس کی مد میں سہولیات فراہم کی ہیں ،صرف اس لیے کہ ان لوگوں کا ساتھ ہمارے لیے بہت ضروری ہے ،انہی کے پیسوں سے تو ہم انتخابی مہم چلاتے ہیں۔ انہی کے دم سے ملک کی صنعت چل رہی ہے۔ یہ چلے گی تو تمہیں روزگار ملے گا، یہ ساتھ نہیں ہوں گے تو صنعت کا پہیہ رک جائے گا۔ سو یوں سمجھ لو کہ تمہارے ان ٹیکسوں اور پیسوں سے ہی صنعت چلے گی ۔ روزگار ملے گا تو حکومت کی نیک نامی ہوگی اور اگر تمہاری محبوب حکومت کی نیک نامی ہوگی تو تمہارے ووٹ ضائع نہیں گئے۔ تمہیں تو علم ہے کہ اس ملک پر اربوں روپے کے گردشی قرضے موجود ہیں جو گزشتہ حکومت ہمیں ورثے میں دے گئی ہے۔ انہیں بھی ادا کرنا ہے اور یہ قرضے بھی آپ کی جیب سے ہی ادا ہوسکتے ہیں۔ یہ قربانی بھی آپ ہی دے سکتے ہیں۔ ہم بڑے بڑے کاروباری گروپوں اور جاگیرداروں سے یہ قربانی نہیں لے سکتے۔ اس لیے کہ ان کے بغیر حکومت بن سکتی ہے نہ چلائی جاسکتی ہے۔ تمہیں تو علم ہے ہماری مجبوریوں کا۔ ہم جاگیرداروں پر ٹیکس نہیں لگاسکے، فیکٹری مالکان کو بھی ہم نے نہیں چھیڑا۔ ہم نے ایگریکلچر ٹیکس بھی نہیں لگایا ،اس لیے کہ ہماری جماعت باقی جماعتوں کی طرح جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور صنعت کاروں پر مشتمل ہے ان جماعتوں میں تمہاری نمائندگی کرنے والا عام کارکن جگہ نہیں بناسکتا۔ ہمیں تمہاری ضرورت تو ہوتی ہے لیکن صرف ووٹ لینے کے لیے، صرف نعرے لگانے کے ،صرف کرسیاں لگانے اور دریاں بچھانے کے لیے، لڑنے مرنے کے لیے، جیلیں کاٹنے کے لیے، کوڑے کھانے اور ذلت ورسوائی کی اتھاہ گہرائیوں میں گرنے کے لیے، اسی لیے، صرف اسی لیے ہم نے بجٹ بنانے اور پیش کرنے کے لیے سب بڑے بڑے سٹیک ہولڈرز سے مشورے کیے تھے، ان کو اعتماد میں لیا تھا، ان سے تجاویز مانگی تھیں، لیکن تم سے نہیں، تمہارا تو ذکر بھی نہیں آیا ان تجاویز میں تم کو تو ہم لوگ سٹیک ہولڈر سمجھتے بھی نہیں، تمہارا صرف وہی کام ہے جو تمہیں پتہ ہے۔ تم اپنی پسند کے اینکرز کے ٹی وی ٹاک شوز کو دیکھ دیکھ کر اور دانشوروں کے کالم پڑھ پڑھ کر اپنا کتھارسس کرتے رہو کیونکہ یہ تمہاری ذہنی اور جسمانی صحت کے لیے بہت ضروری ہیں۔ ہم بہت پریشان ہیں، ابھی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے بھی حکمت علی بنانی ہے۔ امریکہ کے ساتھ تعلقات کو نئے سرے سے استوار کرنا ہے، بھارت کے ساتھ معاملات کو بھی دیکھنا ہے۔ بلوچستان کے حالات ٹھیک کرنا ہیں۔ جہاں تک ڈرون حملوں کا تعلق ہے تو فی الحال وہ جاری رہیں گے۔ سو اس کی طرف سے ہم نے تو جہ کوہٹالیا ہے ۔ اس طرح کی باتیں صرف انتخابی مہم کے لیے تھیں ۔ لوڈشیڈنگ کو ختم ہونے میں ابھی چارسال لگیں گے۔ ہم اس ملک میں گیس کا بحران بھی جلدی ختم نہیں کرسکتے۔ ہماری مجبوریاں ہیں ۔ شاید ہم ایران کے ساتھ کیا جانے والا گیس پائپ لائن والا منصوبہ بھی آگے نہ بڑھا سکیں، توانائی کے بحران کے حل کرنے کے لیے اور کچھ بھی کرنا ہوگا۔ جہاں تک سوئٹزرلینڈ اور لندن میں پڑے پیسوں کا تعلق ہے تو اس کی حفاظت بھی بہت ضروری ہے۔ اسے تو قوم کے مفاد میں وہاں لگایا گیا ہے سو اس سے اپنی توجہ ہٹالو کہ ہمیں اس ملک سے غربت ختم کرنے اور خزانے کو بھرنے کے لیے یہیں سے اور آپ لوگوں سے مدد درکار ہوگی۔ سو، اے ملک کے پیارے لوگو! فی الحال صبرکرو۔ اور ہماری مدد کرو اور ہمارے لیے نہیں تو اپنے ملک کے لیے پھر قربانی دو۔ مہنگائی، بے روزگاری اور ٹیکسوں کا بوجھ ایک مرتبہ پھر اپنی اور اپنے بچوں کی جانوں پر ڈال کر، آنکھوں پر پٹی ڈال کر، زندگی کے اس کنویں میں جتے رہو ۔ چکر کاٹتے رہو، سوچتے رہو کہ روزی روٹی کیسے پوری کریں گے، کل کا دن کیسے گزرے گا۔ کمریں کوزہ کیے ناک کی سیدھ میں چلتے رہو کہ یہی تمہارا مقدر ہے۔ ہم تمہارے رونے پر پابندی تو نہیں لگاسکتے لیکن مشورہ ضرور دے سکتے ہیں کہ آنسو اپنے اندر ہی گراتے رہو۔ اگر تم یہ آس لگائے بیٹھے ہو کہ ہم فوری طورپر تمہارے آنسو پوچھ لیں گے، تمہارے دکھوں کا مداوا کریں گے تو یہ تمہاری خوش فہمی ہے لیکن ہم تمہاری آس توڑنا بھی نہیں چاہتے کہ معجزہ تو کبھی بھی ہو سکتا ہے۔