ملّت کے گناہ

کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں جو صفحۂ قرطاس پر منتقل نہیں کیے جا سکتے۔ کچھ منظر ایسے ہوتے ہیں جو آنکھوں سے بینائی چھین لیتے ہیں۔ کچھ صدمے صحرائوں جیسے ہوتے ہیں جو انسان کو اندر سے خالی اور کھوکھلا کر دیتے ہیں۔ حُزن اور ملال کی کیفیت میں کیا لکھا جا سکتا ہے ؟ ہاں! آنسو بہائے جا سکتے ہیں‘ زاری کی جا سکتی ہے‘ سوگ منایا جا سکتا ہے‘ مرثیہ کہا جا سکتا ہے‘ نوحے پڑھے جا سکتے ہیں‘ گریہ کیا جا سکتا ہے۔ بلوچستان کے واقعات نے ایک ایسی کیفیت میں مبتلا کر دیا ہے کہ سوچنے بیٹھیں تو سر پھٹنے کو آ جائے۔ زندگی رُک سی گئی ہے۔ کوئی ہے جو اس سرپٹ بھاگتی‘ فراٹے بھرتی‘ ہانپتی کانپتی زندگی میں ذرا سا توقف کرے‘ ٹھہرے اور سوچنے کی زحمت کرے کہ اس مسئلے کا حل کیا ہے۔ بے حسی‘ جرم بن کر ہمارے ارد گرد رقصاں ہے۔ سب اپنے اپنے آئیوری ٹاور (Ivory Tower) میں دبک کر بیٹھے ہوئے ہیں اور عوام کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ پرویز مشرف نے صرف اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لیے بلوچستان کو بدامنی کی جس آگ میں جھونک دیا تھا اب وہ الائو بن کر سب کچھ خاکستر کر رہی ہے‘ معصوم شہری اور اہم تنصیبات ہی نہیں بلکہ تاریخی‘ تہذیبی اور نظریاتی ورثہ بھی تباہ کر رہی ہے۔ جنرل مشرف نے جس طرح فورسز کو بلوچستان میں استعمال کیا اس نے غم و غصہ اور مزاحمت کی مسموم فضا پیدا کردی ہے جسے ٹھیک کرنے میں برسوں لگیں گے۔ ویسے تو یہ سلسلہ 2000ء سے شروع ہو گیا تھا لیکن بلوچ نوجوانوں نے باقاعدہ ہتھیار اٹھا کر منظم انداز میں کارروائیاں نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد شروع کیں۔ پھر دھماکوں‘ قتل و غارت‘ ٹارگٹ کلنگ‘ دہشت گردی‘ اغواء اور فائرنگ کے واقعات کا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ تھمنے کو نہیں آ رہا۔ اگر ہمارے ملک کے تمام مکاتبِ فکر کے علماء کوئٹہ کی ہزارہ برادری کے شیعہ مسلمانوں کو قتل کرنے کا نوٹس لیتے اور اسے روکنے کے لیے کوئی متفقہ مؤقف اختیار کرتے‘ اس کے حل کے لیے حکومت کے ساتھ مل کر کوئی حکمتِ عملی بناتے تو آج معصوم طالبات کے قتلِ عام اور بولان میڈیکل ہسپتال والا واقعہ نہ ہوتا۔ جواں ہمت ڈپٹی کمشنر شہید نہ ہوتا‘ سکیورٹی اہل کار شہید نہ ہوتے۔ قائداعظم کی زیارت ریذیڈنسی پر حملہ اس ملک کی نظریاتی اساس پر حملہ ہے جس کی ذمہ داری بلوچستان لبریشن آرمی نے قبول کی ہے۔ دونوں گروپوں کی جانب سے کیے جانے والے حملوں کی ٹائمنگ سے پتہ چلتا ہے کہ دونوں کے آپس میں روابط گہرے ہیں اور دونوں ایک دوسرے کو مدد فراہم کر رہے ہیں۔ دونوں کو بیرونی طاقتیں اسلحہ اور پیسے کی شکل میں مدد فراہم کر رہی ہیں۔ اس وقت بلوچستان بیرونی طاقتوں کی رسہ کشی‘ سازشوں اور گھنائونے کھیل کا اکھاڑہ بن چکا ہے۔ یہاں سی آئی اے بھی ہے اور ’’را‘‘ بھی‘ موساد بھی ہے اور ایم ون سکس بھی‘ افغانستان کی ایجنسیاں بھی ہیں اور دیگر ممالک کی بھی۔ یہ سارے ا دارے اپنے اپنے مفاد میں کام کر رہے ہیں اور اس مقصد کے لیے بلوچستان کے نوجوانوں کو بھی استعمال کرتے ہیں۔ ان سارے معاملات کا ہمارے سکیورٹی کے اداروں کو پوری طرح علم ہے۔ ان کے پاس شواہد موجود ہیں۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت اپنی تمام تر توانائیاں اپنے پانچ سال پورے کرنے میں صرف کرتی رہی۔ اس نے حقوق بلوچستان پروگرام کا آغاز تو کیا لیکن اسے چلا نہ سکی۔ اس کے لیے فنڈز فراہم نہ کر سکی۔ فنڈز کیسے دیتے؟ وہ تو سب آپس میں بانٹنے تھے۔ جناب نوازشریف نے اپنی انا پر ملک کو مقدم گردانتے ہوئے اپنی حکومت کی قربانی دی اور قوم پرست سیاستدان ڈاکٹر عبدالمالک کو وزیراعلیٰ بنا دیا جنہوں نے فوری طور پر باقی قوم پرستوں سے روابط اور بات چیت کا سلسلہ شروع کردیا۔ یہی چیز ان غیر ملکی طاقتوں کو پسند نہیں آئی جو بلوچستان میں ہر حالت میں بدامنی چاہتی ہیں اور اپنے مفاد میں اس سرزمین کو استعمال کرنے کے در پے ہیں۔ سو انہوں نے اپنے لوگوں کے ذریعے ڈاکٹر عبدالمالک اور نوازشریف کو جواباً سلامی دی ہے جو بلوچستان کے زخموں کو سینے پر کمربستہ ہیں۔ ان واقعات کے ذریعے ایک طرف تو یہ مقصد حاصل کیا جائے گا کہ ڈاکٹر عبدالمالک اور وفاقی حکومت کو ڈرایا جائے اور انہیں ایسی کوششوں سے باز رکھا جائے‘ دوسری جانب ان قوم پرست سیاستدانوں کو بھی یہ پیغام دینا ہے کہ موجودہ حکومت کے ساتھ کوئی تعاون نہ کریں۔ ایک اندازے کے مطابق 500 کے قریب لوگ بلوچستان لبریشن آرمی اور اس سے منسلک تنظیموں میں کام کر رہے ہیں جن کو بیرونی طاقتیں اور ایجنٹ مالی اور اسلحی مدد فراہم کر رہے ہیں۔ یہ چند لوگ پورے بلوچستان کی نمائندگی نہیں کرتے۔ بلوچ لوگ بہت محبِ وطن اور پاکستان کے دوسرے صوبوں کے لوگوں سے محبت کرتے ہیں۔ ان کا دل بڑا اور دستر خوان وسیع ہے۔ انہوں نے دوسری قومیتوں کے لوگوں کو اپنی معاشرت میں قبول کیا اور سمویا ہے۔ آپس میں رشتہ داریاں قائم کی ہیں۔ بلوچ لوگ کبھی عورتوں کو قتل نہیں کر سکتے اور کوئی مسلمان دوسرے بے گناہ مسلمان کو مار نہیں سکتا‘ سو یہ مارنے والے لوگ نہ تو انسان ہیں‘ نہ مسلمان۔ بلوچ تو خیر یہ ہو ہی نہیں سکتے۔ مسئلہ صرف ترجیحات کا ہے۔ فیصلے کا ہے اور یہ فیصلے کی گھڑی ہے۔ کیا ہم نے چند لوگوں کے ہاتھوں یرغمال بن کر سسک سسک کر جینا ہے یا ان کا مقابلہ کر کے انہیں ختم کرنا ہے۔ موجودہ حکومت کو اپنی ترجیح واضح کرنا ہوگی اور تمام فریقوں سے مل کر نئی سکیورٹی اور خارجہ پالیسی مرتب کرنا ہوگی۔ فوج کو اعتماد میں لینا ہوگا۔ ڈاکٹر عبدالمالک کی حکومت کے پیچھے کھڑا رہنا ہوگا۔ اسے وسائل فراہم کرنا ہوں گے‘ لیکن کوئی فیصلہ تو کرو۔ کوئی مشترکہ اور متفقہ حکمت عملی تو بنائو۔ اب تقریریں کرنے اور بیانات دینے کا وقت گزر چکا۔ اٹھو‘ اپنی انائوں‘ اونچے شملوں اور ضد کی قربانی دو۔ بلوچستان کے ناراض لوگوں کو منائو‘ ملک کے لیے ان کے پائوں بھی پکڑو‘ لیکن پھر بھی اگر وہ ہتھیار نہ ڈالیں تو پھر رزمِ حق و باطل میں فولاد کی طرح ڈٹ جائو۔ ایک مبصر نے درست تجزیہ کیا ہے کہ اگر باغی نوجوانوں کو رام کر لیا جائے‘ انہیں منا لیا جائے اور ساتھ ملا لیا جائے تو لشکرِ جھنگوی اور سپاہِ صحابہ جیسے ظالم لوگوں کا خاتمہ خود بخود ہو جائے گا۔ سوچ لیجیے کہ وقت ریت کی طرح مٹھی سے نکل رہا ہے‘ جو کچھ کرنا ہے بلوچستان کے لوگوں اور حکومت کو ساتھ ملا کر‘ کر گزریئے‘ ورنہ ؎ فطرت افراد سے اغماض تو کر لیتی ہے کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں