پوری دنیا میں ہر سال ’’مائوں کا دن‘‘ منایا جاتا ہے۔ اس دن ہر مذہب اور کلچر کے لوگ ماں کی عظمت، وقار، مقام اور محبت کے حوالے سے تقریبات کا اہتمام کرتے ہیں اور ماں سے اپنی محبت کا اظہار اپنے اپنے انداز میں کرتے ہیں لیکن اس دفعہ کا ’’مدر ڈے‘‘ اس لحاظ سے منفرد حیثیت کا حامل تھا کہ یورپین پارلیمنٹ نے اپنے اجلاس میں ایک اسرائیلی ماں، ڈاکٹر Nurit Peled Elhanan کو اجلاس میں خطاب کرنے کے لیے مدعو کیا تھا۔ Dr. Elhanan 13 سالہ Samadar کی ماں ہے جو ستمبر 1997ء میں یروشلم میں ایک خودکش دھماکے میں اپنی ماں کو ہمیشہ کے لیے جدائی کا غم دے گیا تھا۔ ڈاکٹر Elhanan کے خطاب سے کچھ اقتباسات اس کالم میں دیئے جارہے ہیں جو اسرائیلی اور ا مریکی مائوں کے نام ہے۔ مجھے یورپین پارلیمنٹ مدعو کرنے کا شکریہ۔ میرے لیے خوشی کی بات ہے کہ میں یہاں موجود ہوں۔ میری خواہش تھی کہ آپ آج میرے ساتھ کسی فلسطینی عورت کو بھی مدعو کرتے کیونکہ میرے ملک میں تشدد اور جنگ سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والی فلسطینی عورت ہے اور میں اپنی تقریر غزہ سے تعلق رکھنے والی فلسطینی خاتون میریم رابن اور اس کے شوہر کمال کو ڈیڈیکیٹ کرنا چاہتی ہوں جن کے پانچ بچوں کو اسرائیلی فوجیوں نے اپنے خاندانی باغ میں سٹرابری توڑتے ہوئے مار دیا تھا۔ جب میں نے پوچھا کہ آپ نے فلسطینی عورت کو مدعو کیوں نہیں کیا تو ان کا جواب تھا کہ اس طرح گفتگو مقامیت کی سطح پر آجائے گی۔ مجھے نہیں معلوم کہ غیر مقامی تشدد کیا ہوتا ہے۔ ہوسکتا ہے نسل پرستی اور امتیازی قوانین میں علمی نظریات اور آفاقیت کا عنصر تو ہو لیکن اس کا اثر ہمیشہ مقامی ہوتا ہے۔ تکلیف اور رنج بھی مقامی ہوتا ہے۔ ندامت، جنسی طور پر ہراساں کرنا، تشدد اور موت، تمام مقامی نوعیت کے ہوتے ہیں اور اسی طرح زخموں کے نشان بھی۔ بدقسمتی سے سچائی یہ ہے کہ فلسطینی عورت پر اسرائیلی حکومت اور فوج کی جانب سے کیا جانے والا تشدد پوری دنیا میں پھیل چکا ہے۔ درحقیقت ریاستی اور فوجی تشدد اور انفرادی اور اجتماعی تشدد، نہ صرف فلسطین میں بلکہ جہاں جہاں آج کی روشن خیال دنیا اپنے پائوں پھیلائے بیٹھی ہے، مسلم عورت کا مقدر ہے۔ یہ وہ تشدد ہے جسے درخوراعتنا سمجھا ہی نہیں گیا اور جسے یورپ اور امریکہ میں زیادہ تر لوگوں نے نیم دلی کے ساتھ قبول کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نام نہاد آزاد دنیا مسلم رحم مادر سے خوفزدہ ہے۔ عظیم فرانس سکارف پہنے ننھی بچیوں سے خوفزدہ ہے۔ عظیم یہودی ریاست مسلم رحم مادر سے خوفزدہ ہے اور اس کے وزراء آبادیات کے لیے ایک خطرہ قرار دیتے ہیں۔ طاقتور ترین امریکہ ا ور عظیم برطانیہ اپنے اپنے شہریوں کے اندر مسلمانوں کے خوف کا انجکشن لگا رہے ہیں اور ان کو بُرا‘ جنگی‘ خون کا پیاسا‘ غیر جمہوری‘ جنگجو اور دہشت گردوں کو بہتات میں پیدا کرنے والوں کے طور پر پیش کررہے ہیں۔ یہ سب کچھ اس حقیقت کے باوجود ہورہا ہے کہ دنیا کو تباہ کرنے والے غیر مسلم ہیں۔ ان میں سے ایک پارسا عیسائی، ایک مذہبی انگریز اور ایک غیر مذہبی یہودی ہے۔ مجھے ان تکالیف کا تجربہ نہیں ہے جو فلسطینی عورت ہر روز برداشت کرتی ہے۔ میں اس قسم کے تشدد کا اندازہ نہیں کرسکتی جو عورت کی زندگی کو جہنم بنا دیتا ہے۔ ان کے گھر تباہ کر دیئے جاتے ہیں۔ ان کو اپنے بچوں اور اجنبی لوگوں کے سامنے گن پوائنٹ پر ننگا ہونے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ انہیں ان کی روزی اور نارمل زندگی سے محروم کردیا جاتا ہے لیکن یہ سب میرے ساتھ نہیں ہوا۔ میں عورت کے خلاف تشدد کا شکار ہوں کیونکہ بچوں کے ساتھ تشدد عورتوں کے ساتھ تشدد ہوتا ہے۔ فلسطینی‘ عراقی اور افغانی عورتیں میری بہنیں ہیں کیونکہ ہم سب ان ایک جیسے بے ضمیر مجرموں کے شکنجے میں ہیں جو اپنے آپ کو آزاد اور روشن خیال دنیا کے لیڈر قرار دیتے ہیں اور جو روشن خیالی اورآزادی کے نام پر ہم سے ہمارے بچے چھین رہے ہیں۔ میں جس دنیا، ریاست اور دور میں رہ رہی ہوں، وہاں رہتے ہوئے میں مسلم عورت کو یہ بتانے کی جرأت نہیں کرسکتی کہ زندگی کو کیسے تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ میں نہیں چاہتی کہ وہ سکارف اتار دیں یا اپنے بچوں کی مختلف انداز میں تربیت دیں یا اس مغرب کی جمہوریت کی طرح جمہوریت اپنائیں جو ان سے نفرت کرتا ہے۔ میں ان سے عاجزانہ طور پر یہ کہنا چاہتی ہوں کہ ہمت اور جرأت کے ساتھ چلتی رہو تاکہ تم بچے پیدا کر سکو اور ان بدترین مظالم کے باوجود اپنی خاندانی زندگی برقرار رکھو جو میری دنیا ان پر ڈھا رہی ہے۔ میں انہیں بتانا چاہتی ہوں کہ ہم سب ایک جیسے تشدد اور دکھ کا شکار ہیں کیونکہ ہمارے ٹیکسوں پر پلنے والی حکومتیں اور فوج ان سے یہ سلوک کررہے ہیں۔ برطانوی، امریکی، اطالوی اور اسرائیلی مائوں پہ پٹی باندھ دی گئی ہے اور انہیں اس حد تک برین واش کردیا گیا ہے کہ وہ ایک ادراک ہی نہیں کر پاتے کہ ان کی بہنیں، یہ افغانی، عراقی اور فلسطینی مائیں ہیں جن کے بچوں کو ان کے بچے قتل کردیتے ہیں۔ ان کے دماغ سیاستدانوں کے تخلیق کردار وائرس کا شکار ہیں جن کے نام جمہوریت، حب الوطنی اور وطن ہیں۔ یہ سب ایک جیسے وائرس ہیں یہ سب ان منصوعی اور جعلی آئیڈیالوجیز کا حصہ ہیں جو امیر کو امیر تر اور طاقتور کو مزید طاقتور بنا رہی ہیں۔ مغربی مائوں کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ ان کے رحم قومی اثاثہ ہیں اور مسلم مائوں کے عالمی خطرہ۔ ہمارے ذہنوں کو خوفزدہ کرکے انہیں یقین دلایا جاتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ بیٹوں کی واپسی کی دعا کرسکتی ہیں یا ان کی نعشوں پر فخر کرسکتی ہیں۔ ہمیں سکھایا جاتا ہے کہ ہم کبھی اصل آئرش، اطالوی اور یہودی مائیں نہ بنیں۔ میں ریاستی تشدد کا شکار عورت ہوں۔ مجھے اس دن سے خوف آتا ہے جب میرا بیٹا اٹھارہ سال کا ہوگا اور اسے شیرون، بش، بلیئر ا ور ان کے قبیلے کے خون کے پیاسے، تیل کے پیاسے اور زمین کے پیاسے جرنیلوں کی گیم کا کھلونا بننے کے لیے مجھ سے دور لے جایا جائے گا۔ عیسائیت اور یہودیت کی طرح اسلام بھی بذات خود میرے یا کسی اور کے لیے کوئی خطرہ نہیں۔ اصل میں امریکی استعماری نظام خطرہ ہے۔ اسرائیل نسل پرستی اور اس کے ظالمانہ قبضے کی حکمت عملی خود ایک خطرہ ہے۔ نسل پرستی، پراپیگنڈہ اور دوسروں سے نفرت ہی ہے جو اسرائیلی فوجیوں کو مجبور کرتی ہے کہ وہ فلسطینی عورتوں کو گن پوائنٹ پر اپنے بچوں کے سامنے عریاں ہونے کا حکم دیتے ہیں۔ یہی جذبہ انہیں اجازت دیتا ہے کہ وہ عراقی عورتوں کی آبروریزی کریں۔ انہیں ان کے شیرخوار بچوں سے دور کر دیتے ہیں۔ میں مکمل طور پر فلسطینی عورت کا دکھ نہیں سمجھ سکتی۔ میں نہیں جانتی کہ میں کیسے اس ندامت اور بے عزتی کے ساتھ زندہ رہ سکتی ہوں۔ میں تو بس اتنا جانتی ہوں کہ اس جنگ زدہ سیارے میں مائوں کی آواز کو طویل عرصے سے دبایا جارہا ہے۔ مائوں کی آواز کو سنا ہی نہیں جاتا۔ انہیں کسی انٹرنیشنل فورم پر مدعو نہیں کیا جاتا لیکن میرے لیے یہ یاد رکھنا کافی ہے کہ وہ میری بہنیں ہیں۔ مجھے ان کے لیے آواز اٹھانا ہے اور جب ان کے بچے سٹرابری کے باغوں یا غلیظ سڑکوں پر لگے ناکوں پر جان کی بازی ہار دیں، جب ان کے بچوں کو سکول جاتے ہوئے اسرائیلی فوجی گولی ماردیں تب ایک کام میں کرسکتی ہوں کہ ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہوجائوں اور ان سے سوال پوچھوں جو ان سے ایک اور ماں نے پوچھا تھا۔ ’’خون کی بہتی ہوئی دھار تمہارے گالوں کی پتیوں کو کاٹ کیوں نہیں دیتی‘‘