اب تمہیں اپنی حفاظت خود کرنا ہوگی

نہیں نہیں۔ ہرگز نہیں۔ بخدا یہ عوام کی حفاظت نہیں کرسکتے۔ جو پانچ گھنٹے تک ایک مسلح شخص کے لیے کوئی تدبیر بروئے کار نہ لاسکے، کوئی ٹیکنالوجی استعمال نہ کرسکے ان سے کیا توقع کی جاسکتی ہے۔ سوال یہ نہیں ہے کہ وہ شخص ایسا کیوں کررہا تھا، اس کا ذہنی توازن درست تھا یا نہیں، مسئلہ یہ بھی نہیں کہ اس کے مطالبات درست تھے یا غلط، اس کا اقدام قانونی تھا یا غیرقانونی۔ چلیں ہم یہ بھی نہیں سوچتے کہ اس کے اس اقدام سے اسلام آباد کے شہری خاص طورپر اور پاکستان کے تمام شہری کس قدر اعصاب شکن مراحل سے گزرتے رہے۔ چلو تھوڑی دیر کے لیے یہ بھی فرض کرلیتے ہیں کہ اس نے اپنی جان بچانے کے لیے بچوں اور بیوی کو ڈھال بنایا ہوا تھا اور وہ کسی قسم کی رعایت کا مستحق نہیں تھا۔ یہ بھی مانا کہ اس کا یہ قدم دہشت گردی تھی اور دہشت گرد کو کسی صورت بھی معاف نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن …لیکن ہم نے کیا کیا؟ خیر یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں ہے ایسی باتیں ان کے لیے تکلیف دہ ہوتی ہیں جن کی زندگی میں یہ پہلا واقعہ ہو۔ جس قوم کی آنکھوں کی پتلیوں میں مہران بیس، جی ایچ کیو، کامرہ، بنوں اور ڈی آئی خان جیل‘ ایبٹ آباد آپریشن اور اس جیسے کتنے ہی تکلیف دہ واقعات کے مناظر کی کرچیاں چبھ چکی ہوں اور پوری دنیا کے سامنے یہ حقیقت آشکار ہوچکی ہو کہ ہمارے ادارے ایسے معاملات میں بری طرح ناکام ہوچکے ہیں‘ اس کے لیے اس قسم کا واقعہ چنداں حیرت کا حامل نہیں ہے۔ ہم یہ سمجھتے تھے کہ کراچی اور بلوچستان میں ہماری پولیس کے اندر لڑنے کی صلاحیت اور حوصلہ نہیں ہے۔ اب اسلام آباد میں بھی ہمیں اندازہ ہوگیا کہ یہاں کی پولیس اپنے عوام کی حفاظت کرسکتی ہے یا نہیں۔ سوایک اور افسوسناک باب کا اضافہ ہوگیا ہے۔ بے تدبیری اور بے حسی کا ایک اور واقعہ میری یادداشت کی لوح پر ثبت ہوگیا۔ میں سوچ رہا ہوں کہ میں کہاں جائوں۔ ریاست تو عوام کی جان ومال اور عزت وآبروکی محافظ ہوا کرتی ہے۔ ریاست تو ایک مان ہوتی ہے لیکن جہاں ریاست اپنے ہاتھ کھڑے کردے، سرنڈر کردے وہاں کیا کیا جاسکتا ہے۔ اب آئیں میڈیا کی طرف۔ میڈیا نے بریکنگ نیوز اور ریٹنگ کی دوڑ میں ایک مرتبہ پھر اخلاقیات کو نظرانداز کردیا۔ یہ واقعہ کسی اور ملک میں ہوا ہوتا تو ایک آدھ خبر یا فوٹیج کے علاوہ کچھ بھی دکھایا نہ جاسکتا اور وہ خبر اور فوٹیج بھی تمام چینلز کو ایک ادارہ ریلیز کرتا، اپنی طرف سے کسی چینل کو اجازت نہ ہوتی کہ وہ لائیو کوریج تو دور کی بات ہے کوئی خبر ہی نشرکردیتا۔ اس طرح کے واقعات میں میڈیا کو قریب جانے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ اسے صرف محدود مخصوص خبر اور فلم مہیا کردی جاتی ہے اور صرف اس وقت تک نشر کرنے کی اجازت دی جاتی ہے جب تک اسے قومی مفاد میں تصور کیا جاتا ہے۔ بھارت ہو یا امریکہ، برطانیہ ہو یا کوئی اور ملک کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا۔ ایسا صرف پاکستان میں ہوتا ہے۔ بین الاقوامی تاریخ میں یہ پہلی دفعہ ہوا ہے کہ ایک مسلح شخص جو قانون کو ہاتھ میں لے کر امن و امان کے ذمہ داروں کو چیلنج کر رہا تھا‘ کو پانچ چھ گھنٹے تمام چینلز پر براہ راست دکھایا گیا۔ ایسا پہلی دفعہ نہیں بلکہ بار بار ہوا ہے کہ ہمارا میڈیا قومی سلامتی کے ایشوز کو اس طرح بازار میں لے آتا ہے جیسے یہ کوئی بچوں کا کھیل ہو اور ریاست کچھ بھی نہیں کرپاتی۔ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے، سبقت لے جانے کی دوڑ ہمیں کہاں لے جائے گی ، کچھ پتہ نہیں، لیکن آج میں میڈیا میں رہتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہمیں اصلاح کی ضرورت ہے۔ سواے میرے شہر کے پیارے لوگو!اب ہمیں اپنی حفاظت بھی خود کرنا ہوگی۔ دیکھو ! جب قومیں حالت جنگ میں ہوتی ہیں تو صرف فوجیں جنگ نہیں لڑا کرتیں۔ پوری قوم ذہنی اور عملی طورپر جنگ میں یکسوئی کے ساتھ شریک ہوتی ہے۔ تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ وہی قومیں بحرانوں سے سرخرو ہوکر نکلتی ہیں اور وہی جنگیں جیتا کرتی ہیں جو اس میں عقیدے اور فرض کے طورپر شامل ہوتی ہیں، جوان کو اپنی بقا کا مسئلہ سمجھ کر شریک ہوتی ہیں۔ دیکھو!تم اسی قوم کے فرد ہو جس نے ہمیشہ قربانیوں کی مثالیں قائم کی ہیں، تمہی نے زلزلے کی اندوہناک گھڑی میں اپنا سب کچھ متاثرہ افراد پر لٹا دیا‘ تمہی نے دہشت گردی کی وارداتوں میں اپنے پیاروں کی قربانی دے کر حوصلے جوان رکھے ہیں۔ تمہی نے عدلیہ کی آزادی کی تحریک میں ملکی اور غیرملکی طاقتوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا تھا۔ آمر کو ملک چھوڑنے پر مجبور کردیا تھا۔ خون دینے والوں کی قطاریں بھی تم سے قائم ہیں اور جان بچانے والے بھی تم میں سے ہی ہیں۔ دیکھو!اس ملک کے حکمران، سیاستدان اور وڈیرے تو مسافر ہیں جن کی اس ملک کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں۔ اگر انہیں کچھ ہوا یا ان کی جائیدادوں کو کوئی خطرہ محسوس ہوا تو وہ یہاں سے پرواز کرجائیں گے۔ سوہمی نے یہاں رہنا ہے اور ہم نے ہی اسے محفوظ بنانا ہے۔ اٹھو اور اپنے غم اور دکھوں کی پوٹلی کو کہیں دور پھینک آئو ۔ اپنے گریہ اور اندوہ کو طاقت بنائو اور ہمارے ملک اور ہماری زندگیوں سے کھیلنے والوں کے سامنے ڈٹ جائو۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں