گورنر پنجاب کی خدمت میں

گورنر پنجاب چودھری محمد سرور سے میری ملاقات آج سے سات سال پہلے گلاسگو میں ایک مشاعرے میں ہوئی تھی۔ یہ مشاعرہ صوفی فیسٹیول کا ایک حصہ تھا جس کا انعقاد بزم شعرو نغمہ سکاٹ لینڈ نے کیا تھا۔ یہ ایک خوبصورت میلہ تھا جس نے اسلام، پاکستان اور مسلمانوں کے پر امن، روادار اور اعتدال پسند ہونے کا امیج اُبھارا اور پیغام دیا تھا۔ چودھری صاحب اس وقت بھی بہت متحرک اور فعال تھے۔ پاکستانی کمیونٹی ہی نہیں بلکہ لیبر پارٹی میں بھی خاصے مقبول تھے۔ اس پورے عرصے میں چودھری صاحب کے سر پر کامیابیوں کا ہُما بیٹھتا رہا۔ لیکن یہ محض اچھی قسمت کی بات نہیں تھی بلکہ اس کے پیچھے ان کی مسلسل محنت اور لگن تھی جس نے انہیں کامیاب بزنس مین، سیاستدان اور کمیونٹی لیڈر بنا دیا۔ پیر محل ضلع فیصل آباد سے زندگی کا آغاز کرنے والے چودھری محمد سرور نے برطانیہ میں پارلیمنٹ ممبر ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ وہ Scottish Affairs Select Committee کے رکن اور پھر چیئرمین منتخب ہوئے۔ 2006ء میں ٹونی بلیئر کی عراق جنگ کی پالیسی کے خلاف مہم میں لکھے جانے والے خط پر دستخط کیے اور اس مہم میں اہم کردار ادا کیا۔ گورڈن برائون نے چودھری صاحب کو Life Peerage کے لیے 2000ء کے Dissolution Honours کے لیے نامزد کیا لیکن بعض وجوہات کی بنا پر House of Lords Appointment Commission کی جانب سے ان کا راستہ روکا گیا۔ چودھری صاحب نے 2005ء کے زلزلہ میں تقریباً 700 گھروں کی تعمیر میں حصہ لیا۔ حکومت کو کروڑوں روپے مالیت کے تین Chinooks ہیلی کاپٹر فراہم کیے۔ وہ پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا میں جہاں جہاں مسلمان رہ رہے ہیں ان کے Cause کے لیے مختلف سطحوں پر آواز بلند کرتے رہے۔ اس پورے عرصے میں چودھری محمد سرور کی پاکستان مسلم لیگ ن اور نوازشریف کے ساتھ محبت اور وابستگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی۔ انہوں نے پرویز مشرف کے خلاف مظاہرے کیے اور نوازشریف کی جلاوطنی کے دوران ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ 2013ء کے عام انتخابات کے موقع پر چودھری صاحب نے مسلم لیگ ن کے لیے فنڈز اکٹھے کیے۔ گورنر بننے سے پہلے ان کو پاکستان ہائی کمیشن لندن میں ہائی کمشنر تعینات کرنے کی تجویز تھی جو بعض حلقوں کی مخالفت کے باعث ختم ہوگئی اور اس کے بعد انہیں گورنر کا عہدہ پیش کردیا گیا۔ میری ذاتی رائے کے مطابق گورنر بننا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ یہاں کتنے ہی گورنر آئے اور چلے گئے۔ کوئی خاموشی کے ساتھ گورنر ہائوس میں دوستوں سے ملاقات کرتے، محفلیں برپا کرتے، اپنے آئینی فرائض کو نبھاتے رہے جو سمری وزیراعلیٰ ہائوس سے آجاتی اس پر چپ چاپ دستخط کر دیتے۔ کچھ ایسے تھے جو عوامی حکومتوں کے خلاف سازشیں کرتے رہتے تھے۔ وفاقی حکومتوں کے کہنے پر یا کسی اور حلقوں کی شہ پر ہر وقت وزیراعلیٰ اور صوبائی حکومت کے ساتھ زبانی اور تحریری طور پر لڑائی جھگڑے میں مصروف رہے۔ آپ چاہیں تو گورنرز کی فہرست اٹھا کر پڑھ لیں۔ آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ کیسے کیسے لوگ یہاں گورنر ہائوس میں براجمان رہے اور ان کا ملک کی ترقی اور فلاح و بہبود میں کتنا حصہ رہا۔ میرے خیال میں چودھری محمد سرور کو اب یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ انہوں نے ایک روایتی دستخط کرنے اور دوستوں سے ملاقاتیں کرنے والا گورنر بننا ہے یا ملک و قوم کی ترقی کے لیے بھی کچھ کرنا ہے۔ اس وقت پاکستان میں تعلیم کی صورتحال ایسی ہے جس میں چودھری صاحب کام کرسکتے ہیں او روہ اس ضمن میں شہباز شریف کی صوبائی حکومت اور پورے ملک کے لیے نوازشریف کی مدد کرسکتے ہیں۔ 18ویں آئینی ترمیم کے بعد تعلیم کا شعبہ صوبوں کے حوالے کردیا گیا ہے اور اب صوبوں نے اپنی اپنی اسمبلیوں میں 6 سے 15 سال تک کے بچوں کی لازمی اور مفت تعلیم کا بل پاس کرنا ہے اور اس پر عملدرآمد کرانا ہے۔ پنجاب اسمبلی نے ابھی تک وہ بل پاس نہیں کیا۔ چودھری صاحب کو اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ پوری دنیا میں تعلیم سے محروم ہر دس میں سے ایک بچہ پاکستانی ہے۔ اس وقت 25 ملین بچے ایسے ہیں جو سکول نہیں جاتے۔ یا یوں کہہ لیں کہ انہیں تعلیم کا حق نہیں دیا جارہا۔ یوں سکول سے باہر رہ جانے والے بچوں کے حوالے سے پاکستان دنیا میں سب سے آگے ہے۔ ان 25 ملین بچوں میں سے 7 ملین بچے سکول جانے والی عمر کے ہیں اور 60فیصد لڑکیاں ہیں۔ لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے بھی صورت حال ناگفتہ بہ ہے جس کی بہت ساری وجوہات ہیں۔ اگرچہ پنجاب حکومت بھی کام کررہی ہے اور مختلف غیر سرکاری تنظیمیں بھی تعلیمی منصوبے چلا رہی ہیں لیکن ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ غیر سرکاری تنظیموں کو ملنے والے فنڈز کا بیشتر حصہ ذاتی مقاصد کے لیے خرچ ہورہا ہے اور ان کو پوچھنے والا کوئی نہیں۔ چودھری سرور برطانوی حکومت اور برطانوی پاکستانیوں میں اچھی ساکھ رکھتے ہیں۔ وہ ان کو پاکستان میں تعلیم اور صحت کے منصوبوں کے لیے فنڈز مہیا کرنے پر قائل کرسکتے ہیں اوورسیز پاکستانی جو ہر سال 15ارب ڈالر پاکستان بھیجتے ہیں۔ چاہتے ہیں کہ ان کا پیسہ پاکستان میں بہتر منصوبوں پر لگے تاکہ ملک ترقی کرے۔ ایسے لوگوں کو چودھری صاحب تیار کرسکتے ہیں کہ وہ ملک میں تعلیم اور صحت کے فروغ کے لیے حکومت کی مدد کریں لیکن اس فنڈ کی مانیٹرنگ اور استعمال کے لیے ایک سخت Mechanism بنایا جائے جو اس کی نگرانی بھی کرسکے اور اس کی ترسیل و استعمال پر بھی کڑی نظر رکھے۔ لیکن یہ کام تب ہوسکتا ہے جب ایسا کرنے کا پختہ عزم اور تیاری ہو۔ اگر تو چودھری صاحب کے لیے محض گورنر کا عہدہ ان کی زندگی کا بذات خود ایک بہت بڑا مقصد ہے تو اور بات ہے ورنہ برطانوی شہریت عارضی طور پر چھوڑنے اور کاروبار اور سیاست کو کچھ وقت کے لیے معطل کرکے گورنر ہائوس کی دیواروں میں قید رہنے میں کوئی حرج نہیں کہ یہاں ان جیسے اور بھی کئی آئے اور چلے گئے لیکن اگر وہ دل میں پاکستان کی خدمت کا جذبہ لے کر آئے ہیں اور قوم کے لیے واقعی کچھ کرنا چاہتے ہیں تو پھر انہیں جلد کچھ نہ کچھ کرنا ہوگا ورنہ اقتدار تو برف کے ان بلاکوں کی مانند ہے جو دھوپ میں رکھے ہوئے ہیں اور مسلسل پگھلتے جارہے ہیں۔ فیصلہ چودھری صاحب کے ہاتھ میں ہے کہ انہوں نے تاریخ میں اپنے آپ کو کیسے یاد رکھوانا ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں