لگتا ہے یہ ملک ایسی تماشا گاہ ہے جہاں بندروں کے کرتب‘ گھوڑوں کی نمائش‘ لوٹوں کی تجارت‘ اصولوں کی خریدو فروخت‘ وفاداریوں کی منڈی‘ ہوس اقتدار کی رسہ کشی کا کھیل‘ عہدو پیماں توڑنے کے سنہری طریقوں کے سٹال‘ سمجھوتوں کے شوکیس‘ غلام رہنے کے فوائد و برکات پر مبنی لٹریچر‘ فدویانہ طرزِ عمل سیکھنے کے مدرسے‘ قربانیوں کے ثمرات ضائع کرنے اور آمریت کی پرورش کرنے کے ہنر کی درسگاہیں‘ خوشامد کے سِکوں کو ڈھالنے کی ٹکسالیں‘ ڈیل کرنے کی تربیت گاہیں اور مضبوطی کو کمزوری میں بدلنے کی کمال مہارتوں کی دکانیں جا بجا نظر آتی ہیں۔ اس تماشا گاہ میں رکھی گئی چیزیں اور لوگ‘ تماشائیوں کا دل لبھانے اور انہیں محظوظ کرنے میں ازحد مصروف ہیں۔ ہر ایک کو ایک خاص کردار دے دیا گیا ہے اور سب اسے ادا کرنے کے لیے پوری جانفشانی دکھا رہے ہیں۔ انہیں کوئی غرض نہیں کہ تماشا دیکھنے والے کون ہیں۔ انہیں اگر غرض ہے تو صرف ان کی خوشی اور لطف سے ہے‘ تالیوں سے ہے‘ داد و تحسین سے ہے اور نقد ا نعام و اکرام سے ہے۔ سو ہر کردار اپنے ہنر‘ استطاعت اور انعام و اکرام کے مطابق کرتب دکھا رہا ہے‘ پرفارم کر رہا ہے اور تماشائی خوش ہو رہے ہیں۔ کبھی سیٹیاں بجاتے ہیں‘ کبھی ہُوٹ کرتے ہیں‘ کبھی شاباش دیتے ہیں اور کبھی ان کی مرضی کے خلاف پرفارمنس پر ڈانٹ پلاتے ہیں‘ دھمکیاں دیتے ہیں اور حکم چلاتے ہیں۔ یہ دنیا کی واحد قوم ہے جس نے اپنے آپ کو تماشا بنایا ہوا ہے اور جس کا تماشا دیکھنے کے لیے یا یوں کہہ لیجیے کہ اپنی مرضی کا تماشا دیکھنے کے لیے بڑے بڑے کھلاڑی اور تماشائی میدان میں اترے ہوئے ہیں۔ ہمارا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ ہم کوئی بھی کام اس وقت تک نہیں کرتے جب تک باہر سے مداخلت نہ ہو۔ کسی کو سزا دینا مقصود ہو یا سزا معاف کرنا‘ جلاوطن کرنا ہو یا وطن واپس بلانا‘ انتخابات کرانے ہوں یا حکومت سازی میں حلیف یا حریف بنانا ہو‘ مفاہمت کرنی ہو یا کشیدگی میں اضافہ‘ کسی کو لیڈر بنانا یا اسے چلتا کرنا ہو‘ مقدمات قائم کرنے ہوں یا ختم کرنے ہوں‘ سب کچھ بیرونی کھلاڑیوں کی مدد سے کیا جاتا ہے۔ یہ بیرونی تماشائی اور کھلاڑی کبھی امریکہ سے آتے ہیں تو کبھی برطانیہ سے‘ کبھی کسی عرب ملک سے آتے ہیں تو کبھی چین اور متحدہ عرب امارات سے۔ جس کا جب جی چاہتا ہے دندناتا ہوا آتا ہے اور احکامات سنا کر رخصت ہو جاتا ہے۔ اقتدار کی راہداریوں میں متشکل ہونے والے مناظر اور خدوخال وہ نہیں ہوتے جو ہمیں نظر آ رہے ہوتے ہیں۔ سب سراب ہے۔ یہ انتخابات‘ جمہوریت‘ جمہوری اقدار‘ اصول‘ روایات‘ آمریت‘ جلاوطنی اور وطن واپسی جیسے الفاظ‘ اعلانات‘ اصطلاحات‘ نعرے‘ باتیں صرف اور صرف سادہ لوح عوام کے لیے ہوتی ہیں۔ کہیں طے پا چکا ہوتا ہے کہ اب کس نے کتنے دن اور سال حکومت کرنی ہے اور دوسرے نے اسے نہیں چھیڑنا۔ یہ بھی طے پا چکا ہوتا ہے کہ اب کس نے کتنی نشستیں جیتنی ہیں‘ کس کو کتنی نشستیں دلوانی ہیں‘ کس نے ملک میں رہنا ہے اور کس نے ملک سے باہر جانا ہے۔ کس پر مقدمے چلانے ہیں اور کس کو سزا دلوانی ہے۔ کس کی ضمانتیں منظور کرانی ہیں اور کس کی منسوخ۔ لگتا ہے کہ یہ سب طے ہو چکا ہوتا ہے۔ اخبارات کے تجزیے‘ کالم‘ مضامین اور ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز اپنے اپنے تھیٹر سجاتے ہیں‘ تجزیہ نگار بقراطی انداز میں گفتگو کرتے ہیں‘ قیافے لگاتے ہیں‘ پیش گوئیاں کرتے ہیں اور پھر وہی باتیں عام آدمی کے ذہن میں انڈیل دیتے ہیں۔ عام آدمی ان اشاروں‘ کنایوں اور تجزیوں پر اپنی رائے کی عمارت کھڑی کرتا ہے‘ گفتگو کرتا ہے اور سمجھ بیٹھتا ہے کہ جو کچھ ٹی وی سکرین پر نظر آ رہا ہے‘ جو کچھ دانشور فرما رہے ہیں وہ سب صحیح ہے۔ یہی حقیقت ہے‘ یہی سچائی ہے‘ میرے آج کے دانشور اور صاحبانِ رائے کا سچ وہی ہوتا ہے جو ہمیں نظر آ رہا ہوتا ہے۔ ملکی اور غیر ملکی مقتدر قوتوں کا یہ کھیل برسوں سے جاری ہے۔ ان کی بچھائی ہوئی بساط پر صرف کردار اور چہرے تبدیل ہوتے ہیں۔ اصل کھیل اور کھلاڑی وہی ہیں جن کے آگے سب بے بس ہیں۔ سو اگر کسی روز آپ رات کی نیند پوری کر کے صبح اٹھیں اور آپ کو پتا چلے کہ جنرل پرویز مشرف ملک سے چلے گئے ہیں تو اس پر حیران ہونے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ امن اور سکون میں فشارِ خون کو قابو میں رکھیں کہ یہی ہونا تھا اور سکرپٹ تیار کرنے والے نے یہی لکھا تھا۔ کچھ لوگ ایسی ہی ڈیل کے تحت واپس آئے تھے جیسی ڈیل کے تحت کچھ باہر جا سکتے ہیں۔ شاید کسی سمجھوتے کے تحت ہی پرویز مشرف پر دائر کیے گئے مقدمات کی پیروی وفاقی حکومت نے نہیں کی اور شاید یہی وہ ڈیل تھی جس کے تحت پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت نے اپنے پانچ سالہ دورِ حکومت میں اُن کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6کے تحت کوئی کارروائی نہ کی اور نہ ہی موجودہ حکومت نے شروع کی۔ بگٹی قتل کیس‘ بینظیر بھٹو قتل کیس‘ لال مسجد کیس تو بہت کمزور کیس تھے۔ اصل کیس تو نومبر والی ایمرجنسی والا کیس تھا‘ ججز نظربندی والا کیس تھا لیکن اس کی پیروی تو دور کی بات‘ وہ کیس شروع ہی نہ ہو سکے۔ اب پرویز مشرف کی دو کیسوں میں ضمانت ہو چکی ہے اور ممکن ہے لال مسجد کیس میں ضمانت ہو جائے۔ پھر کیا ہوگا‘ سبھی جانتے ہیں۔ سو میرے پڑھنے والو! تم یہ مت سمجھو کہ پرویز مشرف کو دوبارہ گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ممکن ہے اس کیس میں بھی ان کی ضمانت مقصود ہو۔ تم اب کچھ اور سوچا کرو۔ یہ باتیں عوامی سطح کی نہیں ہیں۔ عوام تو یہ سوچیں کہ بجلی‘ گیس کے بل کیسے دینے ہیں۔ گاڑی کیسے چلانی ہے۔ بچوں کی فیسیں کیسے ادا کرنی ہیں اور گھر کا خرچہ کیسے چلانا ہے۔ اپنا خون مت جلائو۔