نیویارک کی یخ بستہ ہوائوں نے اگرچہ واپسی پر مجھے ہلکے بخار میں مبتلا کردیا لیکن یہ تکلیف اس خاتون کی اذیت کو یادکرکے کافی کم ہو گئی جووہ گزشتہ 20 برس سے وائٹ ہائوس کے عین سامنے ایک فٹ پاتھ پر ہڈیوں کو چیر دینے والی سردی اور موسم کی سختی کی صورت میں سہ رہی ہے۔ روسی نژاد یہ خاتون بولتی نہیں۔شایداس نے بولنا بند کردیا ہے۔ یہ طرزِزیست وہ کیمیائی ہتھیاروں اورایٹم بم کے استعمال کے خلاف احتجاج کے طور پر اپنائے ہوئے ہے۔اسے کئی دفعہ وہاں سے اٹھایا بھی گیا لیکن وہ دوبارہ وہیں آ کر بیٹھ جاتی ہے۔ اس نے اپنے قریب جو پلے کارڈ نصب کررکھاہے اس پرتحریر ہے کہ جب تک امریکہ اپنے کیمیائی ہتھیار اور ایٹم بم تلف نہیں کرتا تب تک وہ اسی جگہ پر بیٹھی رہے گی۔ امریکہ میں ظاہری طورپراظہار رائے کی آزادی ہے،لوگ کسی بھی ایشو پر احتجاج کرتے ہیں‘ جلوس نکالتے ہیں‘ ریلیاں نکالتے ہیں۔جب کوئی سربراہِ مملکت وائٹ ہائوس میں امریکی صدر سے ملاقات کے لیے جاتا ہے تو اس عمارت کے باہر اس کے حامی یا مخالف مظاہرہ کرتے ہیں لیکن پولیس انہیں کچھ نہیں کہتی۔جب وزیراعظم نوازشریف صدر اوباما سے ملاقات کررہے تھے،وائٹ ہائوس کے باہرکچھ لوگ مظاہرہ کر رہے تھے۔ان کے ہاتھوں میں جو پلے کارڈزتھے ان پر لکھا ہوا تھا:’’ڈرون حملے بند کرو‘‘ اور ’’انسانیت کے خلاف جنگی جرائم بند کرو‘‘۔ یہ مظاہرہ پاکستان یو ایس اے پیس فورم کے شاہد کامریڈ نے منظم کیا تھا۔ شاہد کامریڈجذباتی امریکی پاکستانی ہے اوروہ ہر فورم پر پاکستان کے لیے آواز اٹھاتا ہے۔پمفلٹس بانٹتا ہے، مضامین لکھتا ہے اورپرجوش تقریریں کرتا ہے حالانکہ وہ پاکستان میں سیاسی قیادت سے سخت مایوس ہے۔اس کو گلہ تھا کہ ڈرون حملوں کے خلاف احتجاج کے لیے پیپلز پارٹی‘ تحریک انصاف‘ ایم کیو ایم‘ مسلم لیگ ن سمیت کوئی جماعت ان کے ساتھ شریک نہیں ہوئی۔ حکیم اللہ محسود کی ڈرون حملے میںہلاکت کے بعدپاکستانی حکمرانوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں کہ امریکہ کے نزدیک پاکستان کی اہمیت کیا ہے اور وہ اس خطے خصوصاً پاکستان میں کیاکھیل کھیل رہا ہے اوراس کے عزائم کیا ہیں۔امریکہ اپنے مقاصد کے لیے کس حد تک جا سکتا ہے؟وہ کس کا دوست اورکس کا دشمن ہے؟ اس حملے سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ جس ملک کے انٹیلی جنس ادارے اپنے صدر کو لاعلم رکھ کر اپنے اتحادی ممالک کے سربراہوں کے فون تک ٹیپ کرتے ہوں اور اربوں کی تعداد میں ای میلز‘ ویب سائٹس‘ ٹوئٹرز اور دوسرے سماجی رابطے کے ذرائع سے ڈیٹا اکٹھا کر رہے ہوں اور اس کی وجہ سے شہریوں کی ذاتی زندگی محفوظ نہ رہی ہو،اس ملک کی دوستی‘ دشمنی اور تعلقات کامعیارآپ کیسے پرکھ سکتے ہیں،کیسے حتمی رائے قائم کر سکتے ہیں؟اگرسی آئی اے سے تعلق رکھنے والاامریکی اہلکارجان سنوڈن یہ رازافشانہ کرتا تو کسی کوخبرنہ ہوتی کہ امریکہ اس کھیل میں کتنے برسوں سے مصروف ہے۔بارہ ارب ٹیلی فون کالزٹیپ کیے جانے پر پاکستان کا نمبر دنیا میں دوسرا ہے۔ سب سے زیادہ ٹیلی فون کالزافغانستان سے ٹیپ کی گئیں۔ اسی طرح ای میلز اوردوسراڈیٹا ہے۔اس وقت اگر آپ کو یہ کہا جائے کہ ہماری ہر فون کال یا ای میل امریکی نیشنل سکیورٹی ایجنسی سن اور پڑھ رہی ہے تو اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہوگا۔ سو اسی منظرنامے کے اندر رہ کر ہمیں اس بڑی طاقت کے ساتھ اپنے معاملات طے کرنے اورآگے بڑھنا ہے۔ یہ وہی بڑی طاقت ہے جسے ہمارے معاملات کی خبر ہم سے زیادہ ہے۔ وہ ہم سے پہلے اس جگہ پہنچ جاتے ہیں جہاں کے بارے میں ہم نے سوچا بھی نہیں ہوتا۔اس طاقت نے اس خطے میں اپنی مرضی کا نقشہ تیار کرنے کے لیے اپنے حساب سے ہی آگے بڑھنا ہے۔ خودمختاری‘ آزادی اور سلامتی جیسے خوبصورت اور جذباتی لفظ اسے متاثر نہیں کرتے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ ہمارے ساتھ ہی ایسا کیوں کر رہا ہے؟وہ ڈرون حملے جاری رکھنے پر کیوں بضد ہے؟ وہ پاکستان کے وعدوں‘ دعوئوں اور باتوں پر یقین کیوں نہیں کرتا؟اسے مشترکہ دشمن مارنے کے حوالے سے پاکستان کی نیت اور صلاحیت پر شک کیوں ہے؟ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ امریکہ کے ساتھ ڈرون حملوں پر بات بند کردی جائے اور اپنے طور پر ایسی حکمتِ عملی تیار کی جائے جو صرف ہمارے اپنے مفاد میں ہو۔اگرڈرون حملے نہیں روک سکتے تو ہمیں طالبان کواعتماد میں لے کر ان کے ساتھ مذاکرات کا عمل پایۂ تکمیل تک پہنچانا چاہیے۔ہمیں خطے میں مستقبل کا منظرنامہ کسی اور کی خواہش پر نہیں بلکہ اپنے مفادات کو سامنے رکھ کرترتیب دینا ہوگا وگرنہ اس گومگو کی کیفیت میں جو ہمارے ساتھ ہو رہا ہے وہ اسی طرح ہوتا رہے گا۔ ایڈ اور ٹریڈ کی بات کرنے والوں کے ساتھ بڑی طاقتوں کے سلوک کی روایت بہت پرانی ہے۔ حلقۂ ارباب ذوق نیویارک‘ایک ادارے کی شکل اختیار کر چکا ہے جو معیاری شعر و ادب کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ آج کل اس حلقے کو جدیداورمستند شاعر شوکت فہمی کی خدمات میسر ہیں جو اسے فعال بنانے میں ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ اگر میں حلقے کی طرف سے اپنے اعزاز میں سجائی گئی خوبصورت شام میں شرکت نہ کر سکتا تو اس سفر میں وہ سرشاری نہ آ تی جس سے میںاب تک محظوظ ہورہا ہوں۔ کالم کے آخر میں فیاض الدین صائب کی نظم پڑھیے: درمیانِ واشنگٹن اک سفید بلڈنگ ہے جس میں ایک جادوگر اوڑھ کر عجب ٹوپی سرخ اورکچھ نیلی شعبدے دکھاتا ہے اس کے اِک اشارے پر سب غریب ملکوں کے سربراہ آتے ہیں سر جھکائے جو اپنے ملک کے غریبوں کی عزت و انا اُس کی سرخ‘ نیلی ٹوپی میں کپکپاتے ہاتھوں سے ایسے ڈال آتے ہیں جیسے اک مداری کے‘ ڈگڈگی بجانے پر پاس ہی کھڑا بندر‘ ناچ کر دکھاتا ہے اپنا سر جھکاتا ہے اس سفید بلڈنگ کے سامنے‘ بہت سے لوگ آج محوِ حیرت ہیں فرق صرف اتنا ہے‘ لوگ اس عمارت کو دیکھ کر بہت خوش ہیں اور میں کہ شرمندہ‘ اس سفید بلڈنگ میں قید اپنی خودداری دیکھ کر فسردہ ہوں مجھ کو ایسا لگتا ہے جیسے رہنما میرے ویسے مَیں بھی مردہ ہوں