اس قوم نے اپنی آج تک کی تاریخ میں قومی زوال کے ایسے ایسے مناظر دیکھے ہیں اور مختلف شعبوں میں انحطاط کے ایسے ایسے مراحل اور مدارج سے گزری ہے کہ اب کچھ بھی ہو جائے‘ اسے کچھ نہیں ہوتا۔ میری آنکھوں کی پتلیوں پر حادثوں، سانحوں اور بے بسی، بے ضمیری اور بے غیرتی کے شرمناک مناظر کی کرچیاں اس طرح پیوست ہوئی ہیں کہ اب ان کی ٹیسیں بے حسی کے شور میں کہیں گم ہو چکی ہیں۔ جن کا گریہ ان کے قابو میں نہیں وہ آہیں بھرتے ہیں،سسکیاں لیتے ہیں ، آنسو بہاتے ہیں لیکن ان کے اشک فصیلِ چشم سے باہر نہیں جھانکتے بلکہ اندر ہی اندر کسی پاتال میں گرتے رہتے ہیں۔ شاید میں بھی ویسا ہی ہو چکا ہوں۔ مجھے بھی اب کچھ نہیں ہوتا۔ میں بھی اسے روٹین سمجھ کر آگے بڑھ جاتاہوں۔ ہاں سیمینارز ،مذاکروں اور ڈرائنگ روم نشستوں میں بولتا ہوں کہ ہر شعبے میں زوال آ چکا ہے۔ کھیل ، ادب، صحافت، سیاست، سائنس اور مذہبی علوم میں کوئی بڑا آدمی نہیں رہا۔ ہم کرپشن، بددیانتی، سفارش اور لوٹ مار میں دنیا بھر میں وہ ’’اعلیٰ ترین‘‘ مناصب پر فائز ہو چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے کھلاڑیوںکو اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی اور اپنے ملک کی تذلیل کرتے دیکھتے رہتے ہیں اور اسے اپنی قسمت سمجھ کر قبول کر لیتے ہیں۔ اصل میں اس سماج میں زمام کارِ ان لوگوں کے حوالے کر دی جاتی ہے جو اس شعبے کے نہیں ہوتے یا جو بددیانت ہوتے ہیں۔ یہ لوگ اداروں کے سربراہ بن کر اپنی مراعات سمیٹتے رہتے ہیں اور ادارے تباہ ہو جاتے ہیں۔ یہ لوگ اداروں کا پیسہ بٹورنے، اپنے من پسند اور چہیتے افراد کی تقرریاں کرنے اور صرف تنخواہ وصول کرنے کو ہی زندگی کا اول و آخر مقصد سمجھ بیٹھتے ہیں۔ نجم سیٹھی صحافت کے میدان کے بے بدل سپہ سالار سہی، وہ اپنی طرز کے تجزیہ نگار بھی ہیں‘ ان کی تحریروں کا اپنا ایک اسلوب ہے لیکن جو ان کا شعبہ نہیں‘ اس کے ساتھ وہ کیوں چمٹے ہوئے ہیں؟ جنہیں کرکٹ کی ابجد کا پتہ نہیں‘ انہیں کرکٹ کے معاملات کیوں دے دیئے گئے ہیں؟ کیا وہ محض اس لئے نہیں چمٹے ہوئے کہ انہیں وہاں سے گاڑی‘ تنخواہ اور پروٹوکول مل رہا ہے؟ لگتا ہے سرکاری مناصب کا انہیں چسکہ پڑ گیا ہے‘ ورنہ نگران وزارت اعلیٰ ہی کافی تھی۔ پھر کہانی امریکہ میں سفارت تک جا پہنچی۔ اب کرکٹ بورڈ سے الگ نہیں ہو رہے۔ میڈیا گروپ سے بھی وابستگی، تنخواہیں، مراعات اور سرکاری مناصب بھی لازمی چاہئیں۔ یہ ہوس نہیں تو اور کیا ہے؟ دوسرا یہ کہ آپ جب سے آئے ہیں‘ آپ نے کرکٹ کی بہتری کے لئے کیا کیا ہے؟ سوائے ذلت اور رسوائی کے ہمیں کچھ نہیں ملا۔ کوئی ٹیلنٹ ہنٹ سکیم،کوئی کلب کرکٹ کا فروغ، کوئی سلیکشن کمیٹی کا معیار ،کوئی سسٹم… کچھ تو کرتے۔ سلیکشن کمیٹی میں دو لوگ ہیں‘ اظہر خان اور خرم زمان۔ ان دونوں صاحبان نے اپنی زندگی اور کیریئر میں صرف ایک ایک ٹیسٹ میچ کھیلا ہے۔ ٹیم کے بائولنگ کے کوچ اپنے دور کے ناکام بائولر تھے۔ ٹیم کا منیجر ٹیم میں گروپنگ پیدا کر رہا ہے۔ کھلاڑیوں میں مقابلہ کرنے کا جذبہ نہیں رہا۔ انہیں میچ قبل از وقت ختم کرنے کی جلدی ہوتی ہے۔ آخر آپ کب تک ان جونکوں کو اپنے ساتھ چمٹائے رکھیں گے؟ کیا ان سے چھٹکارا مشکل ہو گیا ہے؟ کیا ایک نئی ٹیم میرٹ پر تشکیل دینا اور پھر اسے مضبوط ٹیم میں ڈھالنا ایک مشکل کام ہے؟ کیا یہ ضروری نہیں ہو گیا کہ حفیظ، مصباح، عمر اکمل، شعیب ملک، شاہد آفریدی اور سہیل تنویر جیسے کھلاڑیوں کو خدا حافظ کہہ دیا جائے اور ان کی جگہ نئے خون کو شامل کیا جائے؟ اگر ان کو ٹیم میں رکھنے کی یہ دلیل ہے کہ ورلڈ کپ سر پر آ گیا ہے اور رسک نہیں لیا جا سکتا تو یہ ایک بہت ہی کمزور دلیل ہے۔ اگر ان سینئر کھلاڑیوں کے ساتھ ورلڈ کپ میں شرمناک شکست سے دوچار ہونا ہے تو پھر نئے کھلاڑیوں کے ساتھ ہارنے میں کیا حرج کیا ہے؟ کچھ عرصے بعد تو ایک ٹیم بن ہی جائے گی۔ آخر حفیظ، آفریدی، شعیب، عمر اکمل اور سہیل تنویر کو کتنے مواقع دینے چاہئیں؟ اب تو جنوبی افریقہ کے بائولر پاکستانی کھلاڑیوں‘ جن میں حفیظ‘ آفریدی‘ عمر اکمل اور دوسرے شامل ہیں‘ کو آئوٹ کر کے طنزیہ ہنستے ہیں‘ مذاق کرتے ہیں۔ ایک بائولر حفیظ کو بارہ مرتبہ آئوٹ کر چکا ہے۔ ساری دنیا کو پتہ ہے کہ مصباح الحق انفرادی کھیل کھیلتا ہے‘ اسے ٹیم کے ساتھ کوئی غرض نہیں ہوتی۔ جب بھی ٹیم کو آخر تک کسی کھلاڑی کی ضرورت ہوتی ہے اس وقت آئوٹ ہو جاتا ہے ۔ پھر اس میں کوئی قابل ذکر قائدانہ صلاحیت بھی نہیں۔ ٹیم کا سربراہ جنگجو ہوتا ہے۔ اس کے اندر آخر تک لڑنے کا دم خم ہوتا ہے‘ تدبیر ہوتی ہے‘ وہ مختلف دائو پیچ استعمال کرتا ہے‘ زیرک اور دور اندیش ہوتا ہے‘ جارح ہوتا ہے‘ کھلاڑیوں کو وقت اور ضرورت کے مطابق استعمال کرنے کا ہنر جانتا ہے اور سب سے بڑھ کر ٹیم کو متحد رکھتا ہے اور اسے اکائی کے طور پر لڑنے کے لئے تیار کرتا ہے۔ مصباح کے اندر ان میں سے کوئی بھی خوبی نہیں ہے‘ پھر کون سی وجہ ہے کہ اسے کپتان کے طور پر برقرار رکھا جائے؟ اگر اس ملک میں کرکٹ کے کھیل کو بچانا ہے، اسے کوئی سسٹم‘ کوئی ڈھانچہ دینا ہے تو خدا کے لئے ذاتی پسند اور ناپسند سے اوپر اٹھ کر فیصلے کریں۔ میرٹ اور اصول کو اپنائیں، ملک میں ٹیلنٹ ہنٹ سکیمیں شروع کریں‘ کلب کرکٹ کو فروغ دیں اور ان کی سرپرستی کریں۔ کرکٹ بورڈ کا سربراہ کسی نیک نام کرکٹر کو بنایا جائے‘ سلیکشن کمیٹی میں اپنے زمانے کے بہترین کھلاڑیوں کو شامل کیا جائے‘ بہترین بائولر اور بیٹسمین کو کوچ مقرر کیا جائے۔ سفارش کو کسی صورت نہ مانا جائے اور ایک ایسا سسٹم وضع کیا جائے کہ لڑکے ٹیلنٹ اور میرٹ کی بنیاد پر خود بخود سامنے آسکیں اور ٹیم میں جگہ بنا سکیں۔ اگر اب بھی ایسا نہ ہو سکا تو پھر کرکٹ ٹیم کے موجودہ زوال اور شرمناک شکستوں کا سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا۔