بدلتے ہوئے زمینی حقائق

گزشتہ کالم کے ردعمل میں قارئین نے مختلف خیالات کا اظہار کیا۔ ان میں سے کچھ دوست ایسے تھے‘ جن کے خیال میں ایران نے اس معاہدے کی صورت میں امریکہ کے آگے گھٹنے نہیں ٹیکے اور اپنی خودمختاری پر حرف نہیں آنے دیا۔ اصل بات کا انہیں بھی علم ہے اور مجھے بھی۔ دراصل ہر حکومت کو اپنے ملک کی بہتری کے لیے ہر وہ کام کرنے کا حق ہے جس سے کسی دوسرے ملک کی آزادی‘ خودمختاری اور معیشت کو نقصان نہ پہنچے۔ ایران نے بھی جو بہتر سمجھا وہ کیا۔ اس سے پہلے ایران کا امریکہ اور اسرائیل کے بارے میں جو مؤقف تھا‘ اس وقت ایران اسے درست سمجھتا تھا۔ اب اسے یہ درست محسوس ہو رہا ہے۔ ملکوں اور قوموں کی حکمتِ عملیاں اور پالیسیاں بدلتے ہوئے وقت‘ حالات اور ہر دم تبدیل ہوتی حقیقتوں کو سامنے رکھ کر بنائی جاتی ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ پاکستان سے پہلے ایران ہی آخری ملک تھا جس کا ایٹمی پروگرام امریکہ کو کھٹکتا تھا۔ وہ ایک طویل عرصے سے اس کے پیچھے لگا ہوا تھا اور عراق‘ لیبیا اور شام کے بعد ایران کا ایٹمی پروگرام رکوانے میں کامیاب ہو گیا۔ اس کے بعد صرف پاکستان ہی واحد اسلامی ملک ہے جو ایٹمی طاقت ہے اور جس نے ایٹمی دھماکے کر کے خود کو دنیا میں ایٹمی طاقت کے طور پر منوایا ہے۔ اس کا اگلا ہدف پاکستان کا ایٹمی پروگرام ہو سکتا ہے جس کی حفاظت کے لیے پاکستان کو بدلتی ہوئی صورتِ حال میں کوئی مؤثر اور ہمہ گیر پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔ میں نے یہ بھی لکھا تھا کہ خطے کی بدلتی ہوئی صورتِ حال میں اب امریکہ نیٹو سپلائی پاکستان کے راستوں سے کرنے کے لیے مجبور اور پابند نہیں رہا کیونکہ اسے چاہِ بہار سے ا فغانستان اور یورپ تک ایک اور تیز روٹ میسر آگیا ہے۔ لہٰذا اب امریکہ نے خود عمران خان کے دھرنوں اور نیٹو سپلائی روکنے کے لیے کیے جانے والے مظاہروں کے نتیجے میں نیٹو سپلائی معطل کردی ہے اور پاکستان کو ہونے والے روزانہ کے کروڑوں روپے کے نقصان کو بڑھا دیا ہے۔ اس نے کہا ہے کہ جونہی سکیورٹی کے حالات بہتر ہوئے‘ دوبارہ اس راستے سے نیٹو سپلائی بحال کردی جائے گی۔ یوں گزشتہ تعطل کے مقابلے میں اس دفعہ امریکہ نے کسی خاص بے چینی اور پریشانی کا اظہار نہیں کیا جس کی اصل وجہ امریکہ ایران معاہدہ ہے۔ لہٰذا امریکہ کو ڈرون حملوں سے روکنے کے لیے کسی اور پالیسی کی ضرورت ہے۔ اب نیٹو سپلائی بند کر کے امریکہ کو ڈرون حملوں سے نہیں روکا جا سکتا۔ جنوبی ایشیا سے متعلق امور کی بھارتی نژاد امریکی مشیر نے یہ بھی کہا ہے کہ ہم یعنی امریکہ 2014ء کے بعد بھی یہیں اس خطے میں موجود رہے گا یعنی افغانستان اور پاکستان کے اندر اپنی موجودگی برقرار رکھے گا اور جب تک اس کے اہداف مکمل نہیں ہوتے یہاں سے نہیں جائے گا۔ 
ڈرون حملوں کے خلاف تحریک انصاف کا احتجاجی دھرنا جاری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دفاع پاکستان کونسل نے بھی مظاہرے اور جلسے منعقد کیے ہیں۔ علامہ طاہر ا لقادری بہت جلد دوبارہ ایکشن میں آنے والے ہیں۔ ہماری فوجی اور سول مقتدرہ ایسے مواقع پر دفاع پاکستان کونسل اور دوسرے گروپوں کو استعمال کر 
کے یہ سمجھتی ہے کہ شاید اس سے امریکہ پر دبائو ڈالا جا سکے گا حالانکہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا۔ جو ملک آپ کی پارلیمنٹ کی قراردادوں اور کل جماعتی کانفرنس کے اعلامیے کو کچھ نہ سمجھتا ہو‘ وہ جعلی‘ متنازع اور چلے ہوئے کارتوسوں سے کیسے رُک سکتا ہے۔ اب ہماری مقتدرہ کو ایسے روایتی طریقِ کار سے اجتناب کرنا چاہیے اور حقیقت پسند حکمتِ عملی کی طرف آنا چاہیے۔ لوگوں اور گروپوں کو Plant اور Install کرنے کا وقت لد گیا۔ اب اس ملک کو جینوئن اور مخلص لوگوں کی ضرورت ہے۔ 
سیاستدانوں اور رہنمائوں کو اس ملک کی آزادی اور خودمختاری کی فکر لاحق ہوتی تو آج ہمیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتے۔ ایسی صورتِ حال میں پاکستان سے باہر ا گر کچھ لوگ اپنے ملک کی آزادی اور خودمختاری کے لیے اکٹھے ہوتے ہوں‘ مظاہرہ کرتے ہوں‘ مطالبہ کرتے ہوں تو وہ لائقِ تحسین ہیں۔ امریکہ میں مقیم ہمارا دوست شاہد کامریڈ آج کل بہت فعال ہے۔ جب بھی کوئی ایسی صورتِ حال پیدا ہوتی ہے وہ لوگوں کو اکٹھا کر کے 
احتجاج کرتا ہے۔ اوباما نوازشریف ملاقات کے وقت بھی وہ لوگوں کو اکٹھا کر کے وائٹ ہائوس کے باہر موجود تھا اور ڈرون حملوں کے خلاف احتجاج اور غائب ہونے والے افراد کے حق میں آواز اٹھانے کے لیے بھی اس نے پاکستان یو ایس اے فریڈم فورم کے زیر اہتمام گزشتہ دنوں اقوام متحدہ کے دفاتر کے باہر احتجاجی مظاہرہ کروایا۔ اس مظاہرے کا مقصد جہاں پاکستان کی آزادی اور سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے ڈرون حملے رکوانا تھا وہاں بلوچستان اور دیگر صوبوں سے غائب ہو جانے والے افراد کے اہل خانہ کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کرنا بھی تھا اور یہ ثابت کرنا تھا کہ ان کے درد اور دکھ میں پاکستان سے باہر رہنے والے پاکستانی بھی پوری طرح شریک ہیں‘ لیکن کامریڈ کی کوششوں کے باوجود پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی کا کوئی کارکن اور رہنما مظاہرے میں شریک نہ ہوا؛ البتہ پاکستان تحریکِ انصاف کے لوگ موجود تھے۔ سو جس طرح سیاسی جماعتیں اور ان کے رہنما یہاں اپنی اپنی مصلحتوں اور مفادات کے اسیر ہیں وہاں بھی ایسا ہی ہے۔ انہوں نے ذاتی مفاد اور گروہ بندی کو کبھی ملکی مفاد کی وجہ سے پسِ پشت نہیں ڈالا۔ یہی وہ المیے ہیں جن کی چکی میں آج ہمیں پسنا پڑ رہا ہے۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں