ہیجان ہے،سخت ہیجان۔یہ بدتدبیری ہے، جھنجھلاہٹ ہے۔ جب وژن اور سمت کوئی نہ ہو، حکمت عملی عنقا ہو تو یہی کچھ ہوتا ہے۔ کیا کسی ملک کا وزیر خزانہ ایسے بھی کہہ سکتا ہے؟ کیا فیصلہ ساز لوگ اتنے بے بس بھی ہوتے ہیں؟نہیں۔ یہ لوگ یقینا 15برس قبل سانس لے رہے ہیں۔ عصرِنو کے تقاضوں کے ساتھ چلنے والے لوگ ایسے نہیں ہوتے۔ تازہ کار لوگوں کی ضرورت ہے جو قوم کو اس منجدھار سے نکال سکیں۔ وہی ٹیم، وہی سرتاج عزیز، وہی اسحاق ڈار اور وہی چودھری نثار۔ ادراک چاہیے، مکمل ادراک۔ جن کے بس میں یہ نہیں کہ ڈالر کی قیمت بڑھنے سے روک سکیں وہ کیسے دعویٰ کرسکتے ہیں کہ ڈالر کو 1998-99ء کی قیمت تک لائیں گے اور پھر یہ بیان کہ جن کے پاس ڈالرز ہیں وہ کیش کروالیں ورنہ ڈالر تیزی سے نیچے آرہا ہے۔ کیا کسی ملک کا وزیر خزانہ ایسا بیان دے سکتا ہے؟
کھیل بچوں کا ہوا، دیدۂ بینا نہ ہوا
فیصلہ کرنے والے تو رستہ دکھاتے ہیں،امید کے در کھولتے ہیں ،قوم کو مایوسی کے اندھیروں سے نکالتے ہیں۔ اگر کڑے فیصلے عارضی طور پر کرنے بھی پڑیں تو عوام کو اعتماد میں لیتے ہیں، جواز تراشتے ہیں اور جلد صورتِ حال پر قابو پانے کی نوید سناتے ہیں۔ لیکن جو حکومت ٹماٹر ، آلو ، پیاز کی قیمتیں کنٹرول نہیں کرسکتی، جن کے بس میں پٹرول کی قیمت نہیں ہے اور جو گیس کی پیداوار اور ترسیل کے نظام کو درست کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی وہ کیسے ڈالر کی قیمت نیچے لاسکتی ہے!
1930ء کی دہائی میں امریکی معیشت کو شدید دھچکا لگا۔ سٹاک مارکیٹ کریش کرگئی۔ جی ڈی پی ریٹ انتہائی کم سطح پر آگیا۔ بے روزگاری میں اضافہ ہوگیا۔ بنکنگ نظام بُری طرح ناکام ہوگیا۔ لوگوں کی قوتِ خرید کم اور مہنگائی میں شدید اضافہ ہوگیا۔ وفاقی حکومت کے پاس عوام کو ریلیف دینے اور ریاستوں کو امداد دینے کے لیے کچھ نہ بچا تھا۔امریکی تاریخ میں اس دور کو Great Depressionکے طور پر یاد رکھا جاتا ہے۔ لیکن اس پورے عرصے میں کسی بھی حکومتی اہلکار نے قوم کو مایوسی کے اندھیروں میں نہیں پھینکا،کوئی ایسا بیان نہیں دیا جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہوکہ صورت حال ان کے قابو سے باہر ہے۔ سب سے پہلے انہوں نے چیریٹی کے اداروں سے کہا کہ وہ عوام کو ریلیف فراہم کریں، کمیونٹی کو سپورٹ کریں لیکن چیریٹی کے ذریعے چند خاندانوں اور چند علاقوں میں ایسا ہوسکتا تھا ۔ جب روز ویلٹ امریکہ کا صدر بنا تو اس نے معاشی ایمرجنسی نافذ کردی۔ قوم کو صحیح صورتِ حال سے آگاہ کیا اور Great Dealنامی معاشی بحالی اور معاشی اصلاحات کا ایک پروگرام دیا۔اس پروگرام کے پیچھے روز ویلٹ کا وزیر خزانہ Henry Morgenthan JRتھا۔ یہ ایک بہت ہی قابل اور دور اندیش شخص تھا۔اس نے مختلف Phasesمیں Great Dealپروگرام چلایا اور نہایت ہی مختصر عرصے میں اس معاشی بحران پر قابو پالیا جس نے پورے امریکہ کو مفلوج کرکے رکھ دیا تھا۔ اس نے سب سے پہلے زرمبادلہ اورفارن ایکسچینج ریٹ کے معاملات کو اپنے کنٹرول میں لیا۔ ایمرجنسی اینڈ بنکنگ ریلیف ایکٹ کے ذریعے بنکوں میں اصلاحات نافذ کیں اور پھر پہلے فیز میں ایسے بے شمار قوانین متعارف کرائے جن سے سرمایہ کاروں اور کاروباری حلقوں کا اعتماد بحال ہوا۔ معیشت کی گاڑی حرکت میں آگئی۔ دوسرے فیز میں مزید قوانین
بنائے گئے۔ کانگریس کی مدد حاصل کی گئی اور 1937ء تک Great Depressionنامی مصیبت کا امریکہ سے خاتمہ ہوگیا۔ یہی وہ وزیر خزانہ تھا جس نے Morgenthan Planکے ذریعے امریکہ کو اس قابل بنادیا کہ وہ 1939ء میں جنگ عظیم دوئم میں پوری تیاری کے ساتھ حصہ لے سکے اور بالآخر فاتح ٹھہرے لیکن یہ وژن کی بات ہے ۔یہاں وژن صرف یہ ہے کہ پرانے قرضے آئی ایم ایف سے قرضہ لے کر ادا کردیئے جائیں اور لوگ اپنے اکائونٹس میں پڑے ہوئے ڈالرز کیش کرانا شروع کردیں تاکہ جب ڈالرز واپس جمع ہوجائیں تو دوبارہ انہیں خرید کر اس کی قیمت بڑھا کر منافع وصول کرلیاجائے۔ اصل بات تو عوام کو لوٹنا ہے اور انہیں دو وقت کی روٹی کے لیے سرگرداں رہنے پر مجبور کرنا ہے ،سو یہ کام بہت کامیابی سے جاری ہے۔
چیئرمین نادرا طارق ملک کے معاملے کے ساتھ جس بھدے اور بُرے انداز سے نمٹا گیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ اب جبکہ معاملہ عدالت میں ہے وزیر داخلہ چودھری نثار علی ایک مرتبہ پھر بدسلیقگی کی انتہائوں کو چھو رہے ہیں۔یہ کیسے بیانات ہیں کہ طارق ملک کو سیاسی تعلق کی بنیاد پر چیئرمین لگایا گیا یا وہ ایک نااہل شخص ہیں یا پھر ان کے کرتوت فیصلہ آنے کے بعد بتائے جائیں گے یا وہ امریکہ میں ایک کائونٹی کا ملازم تھا یا اس نے چند سیمینارز میں شرکت کی تھی۔ یہ سب بعداز مرگ واویلا قسم کی بچگانہ اور ناشائستہ باتیں ہیں اور وزیر داخلہ کے شایان شان بھی نہیں ہیں۔ جوشخص بھی پیپلزپارٹی کے دور میں چیئرمین لگا تھا اس کا کوئی نہ کوئی تعلق تو حکمران جماعت سے لازمی ہوگا۔ صرف نادرا نہیں جتنے بھی اداروں کے سربراہ بنائے گئے سب کے سب کسی نہ کسی کی سفارش پر لگے۔ آج بھی پیپلزپارٹی کی حکومت کے سفارشی لوگ مختلف اداروں کے سربراہ کے طور پر مسلسل کام کیے جارہے ہیں،ان کو تو آپ نے اس بنیاد پر نہیں نکالا کہ وہ سیاسی طور پر بھرتی کیے گئے! چونکہ حکومت کے پاس اس طرح کے کام کرنے کا وقت نہیں ہے لہٰذا وہ بھی مزے لے رہے ہیں۔ اگر اس کو ہٹانا تھا تو شروع میں ہی ہٹا دیاجاتا ۔ آپ لوگوں نے اس کام کو کرنے کے لیے ٹائمنگ کا بھی خیال نہیں کیا۔ اب اس معاملے کو مزید خراب کرنے پر تلے ہوئے ہیں تو آپ کی مرضی۔
انتقام نہیں انصاف جناب والا!ہیجان نہیں تحمل، قوم کو کتنے ہی چینلجز کا سامنا ہے۔ حکمت عملی چاہیے۔ خوش تدبیری اور وژن ۔ یہی وقت کی پکار ہے۔