اِک اور برس آ کے فناہو گیا مجھ میں

سال 2013ء کی آخری زوال آشنا ساعتوں میں جب سورج اپنے اندر پورے سال کی ندامتوں‘ ناکامیوں‘ ٹوٹتے خوابوں‘ حسرتوں‘ دکھوں اور شکستہ آرزوئوں کا بوجھ اٹھائے سسکیاں بھرتا ہوا غروب ہونے جا رہا تھا تو میں اسے خدا حافظ کہنے باہر نہیں نکلا۔اس لیے کہ میرے کِیسۂ جاں میں کوئی ایسی چیز ‘کوئی عمل اور حرف ایسا نہیں تھا جس پر میں آسودہ ہو سکتا ۔طمانیت سے سرشار ہو پاتا۔ میری زنبیل میں کوئی دُھن ‘کوئی خواب‘لگن یا جنون نہیں تھا جس کے بل پر مَیں اپنی ندامتوں کا اظہار کر پاتا اور پورے اعتماد کے ساتھ نئے سال کو خوش آمدید کہہ سکتا۔ سال 2013ء میں مَیں کتنا جی سکا۔ اپنے کتنے سانس لے سکا اور ان سانسوں کا کتنا خراج ادا کرنا پڑا۔ سب یاد ہے۔ ایک ایک پل‘دن اور مہینہ یاد ہے۔ اپنی زندگی بسر کی یا کسی اور کا جیون کاٹا۔ کتنی بار ٹوٹے اور کتنی بار خود کو جوڑنے کی کوشش کی۔ کتنی آرزوئوں اور خوابوں کا خون ہوا اور کتنے آدرش کرچی کرچی ہوئے۔ سب کچھ سینے میں محفوظ ہے۔ کتنے مسافر کاروان سے بچھڑے اور کتنی دفعہ شب خون مارے گئے۔ سب ازبر ہے۔ کتنی بار آزادی دیکھی اور محسوس کی اور کتنی دفعہ آنکھیں غلامی کی سُولی پر جُھولتی رہیں۔سب سامنے ہے۔ کتنی بار جان بوجھ کر دھوکے کھائے اور کتنی دفعہ خوشی‘ وعدوں‘نعروں اورآوازوں سے جی کوبہلایا۔ سب محفوظ ہے۔ کتنی بار کُھل کر روئے اور کتنی ہی بار آنسو حلق میں انڈیلتے رہے۔ پُورا منظر عیاں ہے۔ کتنی دفعہ زندگی ہاتھوں سے پھسلتی رہی اور کتنی دفعہ اس پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی کوشش کی۔ خوشحالی کے پیچھے بھاگتے بھاگتے کتنی دفعہ پائوں آبلہ بنے اور کتنی انگلیاں فگار ہوئیں۔ دل کی تختی پر سب لکھا ہے۔
میں کہ جو ٹوٹے پھوٹے لفظ لکھنے‘خواب تراشنے‘سچ کا پرچار کرنے اور اپنے آدرش میں Liveکرنے کا دعویٰ کرتا ہوں‘ اپنی ذات کے ساتھ گزشتہ سال کے مجموعی منظر نامے کا بھی مجھے حساب دینا ہو گا۔
اس سال بھی ''پرواز میں کوتاہی کا سبب بننے والے رزق سے موت اچھی‘‘ کا دعویٰ کرنے والے آئی ایم ایف سے مزید بھیک لینے پر مجبور رہے۔
اس سال بھی قرض اور بھیک کے بدلے اپنے عوام کی زندگی کو مزید اجیرن بنا دیا گیا۔
اس سال بھی عام آدمی کے لیے کھانے پینے کی اشیاء ان کی قوتِ خرید سے باہر کر دی گئیں۔
اس سال بھی بعض لوگوں کو دی جانے والی مہلت ختم ہو گئی اور قدرت نے ڈھیلی چھوڑ دی جانے والی رسی تنگ کر دی۔
اس سال بھی احتساب کا شور بلند ہوتا رہا اور لوگوں کا یقین اسی طرح غائب رہا۔
اس سال بھی لوگ انصاف کی آس میں عدالتوں کے چکر کاٹتے کاٹتے بوڑھے ہو گئے۔
اس سال بھی علماء منبرِرسول پر کھڑے ہو کر فرقہ واریت کو ہوا دیتے ہوئے دوسرے مسالک کو کافر قرار دیتے رہے اور مذہب کے نام پرقتل و غارت کا سلسلہ جاری رہا۔
اس سال بھی ڈرون حملے جاری رہے‘ بے گناہ لوگ مرتے رہے اور حکمران مذمتی بیان جاری کر کے بے حسی کی نیند سوتے رہے۔
اس سال بھی خودکش حملوں میں بے گناہ معصوم بچے‘ جوان‘ عورتیں لقمۂ اجل بنتے رہے۔
اس سال بھی پولیس‘فوج اور سکیورٹی ادارے‘دہشت گردی کے خلاف نام نہادجنگ میں اپنی جانیں ہارتے رہے۔
اس سال بھی ملک اور قوم کو سامراج کے ہاتھوں گروی رکھنے‘ وقار خاک میں ملانے اور غلامی کے شکنجے کو سخت کرنے کا مکروہ سلسلہ جاری رہا۔
اس سال بھی حکومتی عہدیدار اور اداروں کے سربراہ ملکی خزانے سے پیسہ لوٹنے کے طریقے دریافت کرنے میں لگے رہے۔
اس سال بھی ملکی معیشت کو بہتر کرنے کے لیے کوئی منصوبہ یا وژن سامنے نہ آ سکا۔
اس سال بھی ڈالر کی قیمت بڑھتی رہی اور اربابِ اختیار اپنی تجوریاں بھرتے رہے۔
اس سال بھی دہشت گردی کے عِفریت پر قابو پانے کے لیے کوئی ٹھوس حکمتِ عملی سامنے نہ آ سکی۔
اس سال بھی ملک کے کروڑوں افراد پینے کے صاف پانی‘ تعلیمی اور طبی سہولتوں سے محروم رہے۔
اس سال بھی حاکمِ شہر بدلنے کے ساتھ ہی سارا شہر اپنی وفاداریوں کو طشتری میں رکھے نئے حاکم کے سامنے آداب بجا لاتا رہا۔
اس سال بھی جینوئن اور بہترین لوگ اپنی اپنی کمین گاہوں میں چھپے رہے۔ اس سال بھی ملک سے اربوں روپے کی بجلی اور گیس چوری ہوئی۔
اس سال بھی اردو زبان اور ادب کے نام پر لاحاصل کانفرنسیں منعقد ہوئیں اور ان کا اہتمام کرنے والوں نے انہیں اپنی تشہیر اور پی آر کے لیے استعمال کیا۔
اس سال بھی عرب ممالک اپنے روایتی مفادات کی حفاظت کی خاطر سامراج کے کاسہ لیس بنے رہے۔
اس سال بھی اپنے لوگوں کو نوازنے کا سلسلہ جاری رہا۔
اس سال بھی کوئی بڑا ادب تخلیق نہ ہو سکا۔ لفظ سے سچائی اور عمل سے جرأت دُور بھاگتی رہی۔
اس سال بھی معاشرے کو دانش کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔
اس سال بھی مزارعوں اور مریدوں کی اپنی اور ان کی بیٹیوں کی زندگی وڈیروں اور پیروں کے رحم و کرم پر رہی۔
اس سال بھی بے روزگاری اور مہنگائی سے تنگ آ کر لوگ اپنے آپ کو خودکشی اور خودسوزی کے سپرد کرتے رہے۔
اس سال بھی ورکشاپوں ‘دکانوں‘ہوٹلوں پر کام کرنے والے اور اخبار بیچنے والے بچوں کی آنکھیں خوابوں اور ہاتھ خوشحالی سے محروم رہے۔
اس سال بھی ملک میں بہترین لوگوں کو قتل کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔
اس سال بھی نوجوان تعلیم اور روزگار کی خاطر ملک چھوڑ کر جاتے رہے۔
اس سال بھی عام آدمی کو گیس اور پٹرول کے حصول کے لیے ذلِّت کی اتھاہ گہرائیوں میں گِرنا پڑا۔
اس سال بھی غائب ہوجانے والے افراد کے اہلِ خانہ کی آنکھیں اپنے پیاروں کے انتظار میں چٹختی رہیں۔
اس سال یہ سب کچھ ہوا ۔میرے اور آپ کے سامنے ہوا۔خدا نہ کرے کہ نئے سال میں بھی ایسا ہی ہو۔ اپنی اس فرد عمل کے ساتھ میں جانے والے سال کے آخری سورج کو خدا حافظ نہیں کہہ پایا۔ ہاں۔ احساسات کو شعر کی صورت تو دی جا سکتی ہے۔
 
اِک عہدِ زیاں‘خواب سرا ہو گیا مجھ میں
اِک اور برس آ کے فنا ہو گیا مجھ میں
پہلے بھی بہت شور سا تھا خون میں لیکن
اس بار تو اک حشر بپا ہو گیا مجھ میں
آباد تھا اک موسمِ ہجراں مرے اندر
پھریوں بھی ہوا، جیسے خلا ہو گیا مجھ میں
اب تیرا کوئی رنگ بھی مجھ پر نہیں کُھلتا
اے شہرِ خرابات !یہ کیا ہو گیا مجھ میں 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں